Posted date: August 22, 2016In: Urdu Section|comment : 0
نغمہ حبیب
پاکستان عرصہ دراز سے دہشت گردی کی زد میں ہے اور اب تو اسی دہشت گردی نے عالم اسلام اور اس کے بعد یورپ کا بھی رخ کر لیا ہے اور اس کو بہت آسان معاملہ سمجھنے والا اور اپنی ماہر رانہ رائے، سیمناروں اور ورکشاپوں سے پاکستان کو نوازنے والا یورپ آج اپنے بچاؤ کی تدابیر میں مصروف ہے۔ عالم اسلام کے بھی محفوظ اور مضبوط سمجھے جانے والے ممالک ان کاروائیوں کی زد میں آچکے ہیں۔ سعودی عرب میں حالیہ دہشت گرد کاروائیاں بھی اسی عالمی دہشت گردی اور سازش کا حصہ ہے جس کا مقصد ہے کہ عالم اسلام کو دو دھاری تلوار سے کاٹا جائے یعنی ایک تو اس کا امن خراب کیا جائے اور دوسرے اس میں پھوٹ بھی ڈالی جائے لہٰذا سعودی دھماکوں کے کچھ ملزمان کو پاکستان سے جوڑ دیا گیا۔ جدہ میں ہونے والے دھماکے کے ملزم عبداللہ گلزار کو پاکستانی شہری بتایا گیا جبکہ تحقیقات سے ثابت ہوا کہ عبداللہ گلزار کا اصل نام ذوالفقار فیاض احمد کاغذی ہے اور وہ بھارت کی ریاست مہاراشٹر کا رہنے والا تھا اور ’’را ‘‘کے لیے کام کرتا تھا لیکن اُسے پاکستانی شہری ظاہر کر کے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی گئی ۔دراصل پاکستان کے نام کے ساتھ دہشت گردی اور شدت پسندی کچھ ایسے جوڑ دی گئی ہے کہ اب اس پر ہر طرح کا الزام لگا دینا بہت آسان ہے۔ پاکستانی معاشرے میں مختلف سازشوں کے تحت شدت پسندی کو دخیل کر دیا گیا ہے یہاں فقہ اور مسلک کی ایسی جنگ چھیڑی گئی ہے کہ اُس کو ختم کرنے کے لیے ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔شدت پسندی کو پھیلانے کے لیے بڑی بے دردی سے مدارس کو استعمال کیا گیا وہی مدارس جو علم و تعلیم کا مرکز تھے اور یہاں بڑے امن کے ساتھ قرآن و حدیث کی تعلیم دی جاتی تھی یہ بے ضرر طلباء اپنے کام سے کام رکھتے تھے اور پُر امن طریقے سے اپنی حاصل کی ہوئی تعلیم دوسروں تک منتقل کرتے تھے لیکن عالمی طاقتوں کی سازشوں نے اپنے مقاصد کے لیے ان معصوم لوگوں کو استعمال کیا اور یہ سب بڑی آسانی سے ان سازشوں کا شکار ہو بھی گئے۔ عام لوگ جو مدارس میں اپنے بچے دینی تعلیم کے لیے بھیجتے تھے وہ ان حالات کی نذر ہوتے گئے اور دہشت گردوں کے ہتھے چڑھتے گئے یہی بچے خود کش دھماکوں میں استعمال ہوتے رہے اور ہورہے ہیں شدت پسندی کو بھی بہت حد تک یہی سے فروغ ملتا رہا۔ اس ساری صورت حال میں ضرورت اس امر کی تھی کہ ان مدارس کو قومی تعلیمی دھارے میں شامل کیا جاتا لیکن اس کے لیے کوئی سنجیدہ کو شش نہیں کی گئی۔ سانحہ اے پی ایس کے بعد جب قومی لیڈر شپ کے احساس میں مصنوعی یا حقیقی، جیسا بھی سہی ارتعاش پیدا ہوا اورقوم کی آہ و بکا کا کچھ کچھ اثر ہوا تو یہ سر جوڑ کر بیٹھے اور دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف منصوبہ بندی کی اور ایک متفقہ قومی ایکشن پلان بنایا گیا تو اس میں مدارس کو بھی قومی تعلیمی دھارے میں شامل کرنے کی بات کی گئی یہ کام بہت پہلے ہو جانا چا ہیے تھا لیکن قومی ایکشن پلان میں اس اہم کام کو شامل کرنے کے بعد بھی اس پر ابھی تک کام شروع نہیں ہو سکا۔ حیرت انگیز طور پر مدارس کی طرف سے اس بات پر اعتراض بھی کیا گیا کہ مدارس کی رجسٹریشن کیوں کی جائے اسے اسلام اور مدرسوں کے خلاف سازش قرار دیا گیا ، عوام کے سامنے اسے یوں بنا کر پیش کیا گیا جیسے یہ اسلام کے خلاف سازش ہو اور علماء اور مدارس کو پاکستان میں خطرات لاحق ہوں اور یوں قومی ایکشن پلان کی اس شق کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ حقیقت حال یہ ہے کہ بہت سارے مدارس بھی آج کل تجارتی مقاصد کے لیے بنائے گئے ہیں لہٰذا انہیں حکومت کے سامنے جوابدہ ہونا چاہیے ان میں سے کئی ایک میں ایسا نصاب پڑھایا جارہا ہے جو بجائے اسلام کے عام اصولوں کو سمجھانے کے نہ صرف اپنے فقے کو ہی حتمی اور عین اسلام بتاتا ہے بلکہ دوسرے مسالک کو کفر کے زمرے میں بڑے آرام سے شامل کر دیتا ہے اور یوں معاشرے میں نفرت پیدا کرنے کی مکمل کوشش کی جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہر مدرسے کا یہ رویہ ہے لیکن بہت سی جگہوں پر ایسا ہو رہا ہے ۔ یہ تو ایک پہلوہے اور سب سے اہم ہے کیونکہ اسلام میں بے اتفاقی کی کوئی گنجائش نہیں اسی چیز نے اسلام کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے کہ مسلمان آپس میں معمولی معمولی اختلافات کی بنا پر باہم دست و گریبان رہے ایک دوسرے کا قتل عام کرتے رہے اور اب بھی وہی ہو رہا ہے۔ شدت پسندی اور دہشت گردی نے نہ صرف عالم اسلام، اسلام اور مسلمانوں کو بے تحاشا نقصان پہنچایا بلکہ دشمنوں کو اسلام کے خلاف بات کرنے کا موقع دیا لیکن ہم اپنا رویہ بدلنے کو کسی طور تیار نہیں مگر اب ہم اتنا نقصان اٹھا چکے ہیں کہ ہمارے پاس مزید کسی ایسے رویے کی گنجائش نہیں ۔ حکومت نے ایک بار پھر تنظیم المدارس کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت مدارس کو مرکزی دھارے میں لایا جائے گا اُمید ہے کہ اس بار یہ تنظیم سختی اور تنگ نظری کا مظاہرہ نہیں کرے گی اور حالات اور حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اور حکومتی موقف کو سمجھتے ہوئے تعاون کرے گی۔ پاکستان میں اس وقت تقریبا چالیس ہزار مدارس کام کر رہے ہیں جن میں اندازاََ 5 3. ملین یعنی 35 لاکھ طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں سوچنے والی بات یہ ہے اس بڑی تعداد کو مفت تعلیم اور قیام و طعام کیسے فراہم کیا جا رہا ہے آخر عوام سے حاصل ہونے والے چندے اتنے سارے اداروں کو یہ سہولیات فراہم کرنے کے قابل کیسے بنا رہے ہیں لہٰذا ان کا حساب کتاب بھی ہونا ضروری ہے بالکل اُسی طرح جیسے دوسرے اداروں کا ہوتا ہے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ یہ ادارے کسی قانون کے تحت آنے کو تیار نہیں ،کہیں ان کو سیاسی جماعتوں کی آڑ حاصل ہے اور کہیں یہ مذہب کا سہارا لے لیتے ہیں ۔ نہ تو یہ اپنے نصاب تک کسی کو رسائی دیتے ہیں اور نہ ہی اس میں کسی تبدیلی کی اجازت دیتے ہیں لیکن کیا حکومت اس معاملے میں بے بس ہے یا اب کی بار وہ عملی اقدامات کرے گی ۔ ہمارے مدارس کا نظام تعلیم صدیوں پرانے طریقوں پر چل رہا ہے تبدیلی سے مراد ہر گز یہ نہیں کہ اسلام کے بنیادی اصولوں کے بارے میں خدانخواستہ کوئی ایسی جسارت کی جائے لیکن یہ ضروری ہے کہ جدید ،پیشہ ورانہ اور سائنسی مضامین بھی نصاب میں شامل کیے جائیں تا کہ یہ بچے جب ان تعلیمی اداروں سے نکلیں تو وہ دنیا کا مقابلہ کر سکیں۔ آج سے تقریباََ ہزار سال پہلے جب عباسی وزیر نظام الملک نے اپنے دور کے تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی تو اِن کے نصاب میں علم فلکیات جیسے جدید مضمون کو بھی شامل کیا اگر دیکھا جائے تو اس مضمون کا دینی مضامین سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن اسے شامل نصاب کیا گیا ۔ درس نظامی کی صورت میں بھی اس نصاب میں تبدیلی کی گئی لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج درس نظامی کو 300 سال ہو چکے ہیں لیکن نصاب وہی کا وہی ہے بلکہ اکثر اوقات اس کی زبان میں تبدیلی نہیں کی گئی ہے اور وہی دقیق زبان استعمال ہو رہی ہے جو عام لوگوں کی سمجھ سے باہر ہے شاید اسے بھی غیر اسلامی سمجھا جا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مدارس کے نصاب میں دینی مضامین کے ساتھ ساتھ جدید سائنسی مضامین بھی شامل کیے جائیں اور یہ سمجھنا چھوڑ دیا جائے کہ یہ مضامین غیر اسلامی ہیں جب تک کہ ان میں اسلام سے متصادم مواد شامل نہ ہو۔ اگر یہ 35 لاکھ طلباء بھی قرآن و حدیث کی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیو ی تعلیم حاصل کر سکیں تو وہ اپنی زندگی آج کی دنیا میں اللہ تعالیٰ اور رسولﷺ کے راستے پر چلتے ہوئے زیادہ بہتر طور پر بسر کر سکتے ہیں یہاں دینی مضامین بھی ان کی حقیقی روح کے مطابق پڑھائے جائیں۔ اگر حکومت قومی ایکشن پلان کے اوپر واقعی عمل کر وا کے ملک میں امن و امان کی صورت حال بہتر کرنا چاہتی ہے تو اسے اس کی تمام شقوں پر مکمل عمل کروانا ہوگا اور مدارس کو بھی اس پر عمل کروانے پر مجبور کرنا ہوگا تاکہ ملکی حالات کو بہتر سے بہتر کیا جا سکے۔