قومی سانحات کا بدلہ لینا۔۔۔ قومی زندگی کی ضمانت
نغمہ حبیب
پشاور میں سکول پر حملہ ہوا معصوم بچوں کا خون بہایا گیا اور بے رحم وبے دریغ بہایا گیا محاورتاََ نہیں حقیقتا کلیوں کو روندا گیا جو بچے شہید ہوئے ان کے والدین،بہن بھائیوں اورعزیز رشتہ داروں کا تو جو حال ہے وہ تو وہی جان سکتے ہیں ہم تو صرف ان کے صبر کے لیے دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ ان کی مدد کرے کہ ان کی مدد انسان کے بس کی بات نہیں۔ اُس دن مائیں اپنے بچوں کو ڈھونڈتی ہوئی اپنے آپ سے بے خبر دوڑی پھر رہی تھیں بے شک کہ اولادکی تکلیف سے بڑھ کر والدین کے لئے اور کوئی تکلیف نہیں۔ ہسپتالوں میں اپنے زخمی بچوں کے ساتھ بیٹھی ماؤں کا کرب بھی کلیجہ چھلنی کر دیتا ہے۔ وینٹیلیٹر پر پڑے ابرار کے والدہ کی بے چینی اور دعا کے لیے التجا کوئی جانور بھی دیکھے تو روپڑے۔ عبداللہ ہو،ارسلان ہو، سعد ہو، طلحہ ہو یا وحید ہو کون سا بچہ کم پیارا ہے ہم سب کے ہاتھ ان کی صحت یابی کی دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہیں۔ ماؤں نے انہیں اس لیے تو نہیں پالاتھا کہ وہ دہشتگردی کی خوراک بن جائیں وہ مبین وہ زین، ان کا قصور کیا تھا،سہیل اسلم جیسا پرامن بچہ جس کو تو شرارت کرنا بھی کم کم ہی آتی ہوگی اس کی امن پسندی بھی شرپسندوں کی نظر ہوگئی لیکن کیا ہم ان بچوں کو بھول جائیں گے اور تین دن سوگ مناکر پھر سے اپنی اپنی مصروفیات میں مشغول ہو جائیں گے۔ ہماری حکومت جو ابھی تو بلند بانگ دعوے کررہی ہے اوریقینا کچھ اقدامات بھی کررہی ہے،کہیں پھر تو نہیں سوجائے گی جس کے امکانات ہر وقت موجود رہتے ہیں لیکن یاد رہے کہ ہمارے پاس وقت نہیں ہے اور یا یہی وقت ہے اگر اس وقت بھی ہم نے کچھ نہ کیا تو قوم اسی طرح ان شدت پسندوں اور دہشت گردوں کی یرغمال رہے گی اور ہم کمیٹیاں اورکمیشن بناتے رہیں گے۔ حیرت کا مقام ہے کہ دہشت گرد ہمارے معاشرے کا ناسور بن کر پھیل چکے ہیں کون جانے کہ ساتھ والے گھر میں یہی لوگ ہوں یا ان کے ہمدرد اور مددگارہوں اگر دارالحکومت کے قلب میں لال مسجد کے اندر سے مولانا عبدالعزیر کی آواز دہشت گردوں کی حمایت میں اٹھتی ہے توکیا اورایسے لوگ نہیں ہونگے اور کیا ایسا نہیں ہوگا کہ ام حسان جامعہ حفصہ میں لڑکیوں کو یہی تعلیم دے رہی ہوگی۔یہ سب کچھ پچھلے بارہ تیرہ سال سے ہورہا ہے لیکن ایکشن پلان آج بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور معلوم نہیں یہ سیاستدان جنگی حکمت عملی کیسے وضع کریں گے لگتا یوں ہے کہ قوم کا منہ بند کرنے کے لیے جلدی جلدی ایک کمیٹی بنادی گئی اور کمیٹی نے ہفتہ اتوار کی چھٹی کو بھی ضروری سمجھا یہ دو دن کیسے گذریں گے ذرا کسی شہید بچے کی ماں سے پوچھیں ماں جس کی کل کائنات اس کی اولاد ہوتی ہے ورنہ پھول کھلے،بہار آئے، ہفتہ ہو یا اتوار اس کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ہم تو چھٹی کررہے ہیں لیکن کہیں ایسا نہ ہو دہشت گرد کام پر نکل آئیں۔ کیا واقعی سیاست کا دل نہیں ہوتا ہاں شاید اسی لیے تو ن لیگ اور تحریک انصاف کے نمائندوں نے قوم کا مزید خون جلایا یہ کہہ کر کہ ایک ہفتے تک قوم کو خوشخبری مل سکتی ہے بریک تھرو ہو سکتا ہے کون سی خوشخبری، اس وقت تو قوم کو ایک ہی خبر کا انتظار ہے کہ بتایا جائے کہ ملک سے دہشت گردی کو ختم کردیا گیا ہے اس کی جڑیں کاٹ دی گئی ہیں، دہشت گردوں کے رہنما اور ماسٹر مائنڈ گرفتار کرکے پھانسی چڑھا دیئے گئے ہیں اور کوئی خبر اس خبر سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ ڈیڑھ سو بچوں اور اساتذہ کا خون بہانے کے بعد تو یہ پھانسی کے حقدار ٹھہر گئے۔ دو دو اور چار چار دہشت گرد وں کو پھانسی چڑھانے سے اس عمل میں بہت دن لگیں گے کیا ان ظالموں کو وقت مہیا نہیں کیا جارہا کہ وہ بھی منصوبہ بندی کرلیں یا حکومت کو پھر پھانسی کی سزا زیادتی تو نہیں نظر آجائے گی اور دہشت گرد پھر اطمینان سے اپنی کاروائیاں کرنے لگ جائیں گے اور یہ بارہا ثابت ہو چکا ہے کہ وہ ہمارے منصوبہ سازوں سے زیادہ اچھے منصوبہ ساز ہیں کہ ہر بار ہمارے فوجی اور سول پلان ناکام ہو جاتے ہیں اور دہشت گرد اپنا کام کر جاتے ہیں۔ حیرت تو اس بات پر بھی ہے کہ آخر پھانسی کی سزا معطل کیوں کی گئی تھی کیا یہ جرم کو سہارا دینے کے مترادف نہیں۔قمر زمان کائرہ نے کہا ایسا اس لیے کیا گیا کہ دنیا بھر میں موت کی سزا ختم ہوچکی ہے تو عرض ہے کہ وہاں ہمارے جیسے مسائل نہیں ہیں اور ہم ان کے قانون کو اللہ رسول ﷺکے حکم پر ترجیح دیں گے تو ہم ایسے ہی سانحات سے گزرتے رہیں گے لیکن ہمارے حکمرانوں کو تو اس کا بھی خوف نہیں کہ جب یہ چلتے ہیں تو سو دو سو افراد ان کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں۔جب وزیراعظم زخمی بچوں کو دیکھنے پچاس ستر گاڑیوں کے جلوس میں ہسپتال تشریف لائے تو اتفاق سے میں بھی بچوں کی عیادت کے لیے اُدھر ہی تھی اور میں نے والدین کو کہتے سنا ”ساری سکیورٹی تواِنہوں نے لے لی مر ہمارے بچے گئے“ اب اگر یہ حال ہو تو قوم کیا سوچے کیا کہے اور یہ سوچنا کہنا کل کو ایک اور قسم کی دہشت گردی کو بھی جنم دے سکتا ہے۔ کیا بہتر نہ ہوتا کہ ملک کی پولیس کو وسائل دیے جائیں،اس کی تربیت جدید خطوط پر کی جائے اور انہیں بہتر تنخواہ دی جائیں تاکہ وہ رشوت کی بجائے خدمت پر توجہ دیں۔ حکومت اگر ہنگامی بنیادوں پر اُٹھ کھڑی ہو جائے تو قوم اس کا ساتھ دینے کو تیار ہو جائے گی بالکل خون کی ان بے تحاشا بوتلوں کی طرح جو ہسپتال میں پڑے بچوں کی ضرورت سے بھی بڑھ گیا تھا۔ اس وقت ہماری حکومت اور اداروں کے پاس سُستی کی کوئی گنجائش نہیں اور نہ ہی قانونی اور آئینی موشگافیوں کے لیے۔ یہ نہ کہا جائے کہ سزائے موت پر عملدرآمد کرنے کے لیے آئین میں ترامیم کی ضرورت ہوگی یہ بھی اعلان کرنے کی ضرورت نہیں کہ آج اتنی پھانسیاں دی جائیں گی بلکہ عمل کرکے بتایا جائے کہ اتنے افراد کو پھانسی چڑھا دیا گیا اور اس کا بھی کوئی جواز نہیں کہ سات دن بعد عمل شروع ہوگا سات دن میں تو عمل مکمل ہوجانا چاہیے۔ بہت اچھا کیا گیاکہ تمام شرعی اور انسانی تقاضے پورے کرکے ڈاکٹر عثمان اور ارشد کو پھانسی دی گئی اور ان لوگوں کے منہ بند کردیئے گیے جو پاک فوج پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات لگاتے تھے انہیں بتا دیا گیا کہ کون کیا کرتا ہے لیکن ان سارے کاموں میں تیزی کی ضرورت ہے ورنہ چوکوں، چوراہوں اور راہوں، شاہراہوں پر اسی طرح ہماری لاشیں گرتی رہیں گی۔اب اس ظلم کا نکتہء انجام پہنچ جانا چا ہیے اور اگر آرمی پبلک سکول میں پڑھنے والے ان فوجی اور سول بچوں (یاد رہے کہ بچے صرف بچے ہوتے ہیں) کا معصوم اور پاک خون یہ کہہ سکے کہ ہم نکتہء انجام ہیں اس تیرہ شبی کا تو ہم سمجھیں گے کہ ہم نے اس خون کو رائیگاں نہیں جانے دیا ہم نے بدلہ لے لیا ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ قومی سانحات کا بدلہ لینا ہی قومی زندگی کی ضمانت ہے ورنہ کمزور قومیں مٹ جاتی ہیں اور جب قوم نہ ہو تو حکمران حکومت کرکے اپنی تسکین کیسے کریں گے سوچیے اور کچھ کیجیے کیوں کہ کرنے کو بہت کچھ ہے ورنہ دشمن تو اپنا کام کرتا رہے گا اور ہم صرف سوگ مناتے رہیں گے کیا اس قوم کو جشن منانے کا حق بھی ہے یا نہیں۔