مادی ملک ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم – Lt Col Murad Khan Nayeer (Late)
شام کی چائے کا بندوبست 10 برگیڈ آفیسرز میس کے لان میں کرنل مراد کے کمرے کے بالکل سامنے کیا گیا ۔ کرنل مراد باہر لان میں بہت افسردہ اور فکرمند بیٹھے تھے کہ مکھنانوالی سے آنے والی بارات کا سامنا کیسے کریں گے اور اپنے یار شرکت کرنے سے انکار کیسے کرینگے ۔ ایک طرف دوستی اور دوسری طرف پچھلے ٢۵ سال سے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے فرار تھا ۔ ولز فلٹر سگریٹ انکا پسندیدہ برانڈ تھا اور وہ سگریٹ کا کش اتنا زور لگا کر لیتے جیسے سانس بند ہو رہا ہو ۔
دیکھ حیدر یار مجھے مشکل میں نہ ڈال ۔ مجھے اپنے قلعے میں رہنے دے ۔ میرے اصل کو چھپا رہنے دے ۔ میں مکھنانوالی سے بھاگا ہوا ہوں ۔ مجھے بھاگا ہی رہنے دے ۔ کیپٹن عابد کاظمی چپ چاپ دونوں دوستوں کی گفتگو سن رہا تھا ۔ طے پایا کہ مادی ملک کو کرنل مراد سے الگ رکھا جائیگا اور کسی بات پر مجبور نہیں کیا جائے گا ۔ کرنل مراد نے وعدہ کیا کہ وہ برات میں ہوگا کسی نہ کسی طریقے سے ۔
21 فرنٹیر فورس رجمنٹ کے فوجی بینڈ کی ہر جگہ دھوم تھی ۔ چھاونی میں کوئی بھی فوجی تقریب اس بینڈ کی دھنوں کے بغیر نامکمل سی رہتی تھی ۔ 16 اکتوبر 1976 بروز ہفتہ صبح 11 بجے مکھنانوالی کے دلہا کیپٹن عابد کاظمی کی برات کے انتظار میں پاور محلہ سیالکوٹ میں فوجی بینڈ کی دھنیں بجنے لگیں مگر کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ بینڈ دلہن کی طرف سے ہے یا دلہا کی طرف سے اور اس طرح مادی ملک اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا ۔
برات پہنچی تو ایک بس سے مادی ملک کا چھوٹا بھائی محمد خان ملک بھی اترا ۔ بینڈ کی دھنوں میں لوگ برات کو خوش آمدید کہہ رہے تھے ۔ ہر طرف خوشیوں سے سرشار براتیے جھوم رہے تھے ۔ ادھر جب دولہا کے باپ حیدر کاظمی کی آنکھیں بےچینی سے اپنے یار مادی ملک کو ڈھونڈھ رہی تھیں تو ادھر کرنل مراد خان نیر سیالکوٹ سے میلوں دور شامی کالونی کھاریاں کینٹ کے مکان نمبر 221/B کے سامنے اپنی جیپ سے دلہا دلہن کے لئے تحائف اتروا رہا تھا ۔
کھاریاں کی لاگ ایریا آفیسرز میس میں لنچ پر انکے سواتی دوست میجر قادر عرف لالا قادر نے کرنل مراد خان سے بہت پوچھا کہ تم اتنے افسردہ کیوں ہو اور اچانک کھاریاں کیسے آنا ہوا مگر مادی ملک میس کے اندر بھی اپنا دھوپ کا سیاہ چشمہ پہنے مسلسل سگریٹ پینے میں مشغول تھا ۔ کاش میجر قادر کو پتہ ہوتا کہ مادی ملک کالا چشمہ پہنے 25 سالوں کی یادوں کو نم آنکھوں میں چھپائے کس کرب سے گزر رہا تھا ۔
فوجی کی زندگی آپ کو باہر سے جیسی بھی نظر آئے مگر اسکے بیوی بچوں اور والدین کا ہر دن غیریقینی سے گزرتا ہے ۔ کسی ایمرجنسی یا پوسٹنگ ہونے کی تلوار ہر وقت سر پر لٹکتی رہتی ہے ۔ بیوی گھر کو سیٹ کرتی ہے ۔ کمروں کے پردوں کے سائز کاٹ چھانٹ کر پورے کرتی ہے ۔ لان کے پودے ہرے ہونے لگتے ہیں ۔ ماں باپ کے کمرے کے کموڈ اور وضوع کرنے کے نل لگتے ہیں اور افسر آفس سے فون کرتا ہے کہ بیگم سامان باندھ لو ۔ واپس گاوں چلنا ہے کیونکہ اسکی پوسٹنگ ہارڈ ایریا یا نان فیملی اسٹیشن پر ہونے کا پروانہ آتا ہے اور 30 دن میں گھر خالی کرنا ہوتا ہے ۔ کوئی گلے شکوے نہیں ہوتے ۔ کسی کے خلاف بات نہیں ہوتی اور آپ اپنے سال دو سال کی ساری یادیں وہیں کسی کونے میں پڑے پرانے ڈسٹ پن میں ڈال کر اپنی راہ لیتے ہیں ۔
کیپٹن عابد کاظمی کی پوسٹنگ بھی اچانک اے کے برگیڈ میں آزاد کشمیر ہوگئی ۔ حیدر کاظمی اپنے یار مادی ملک سے مل کر آئے تو اپنی بیوی اور بہو کے ساتھ مکھنانوالی واپس چلے گئے ۔ حیدر کاظمی نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ یہ انکی آخری ملاقات ثابت ہوگی ۔ کیپٹن عابد کاظمی میجر بنے تو تین سال کیلئے سعودیہ چلے گئے ۔ واپسی پر 1985 میں اسٹاف کالیج کوئٹہ گئے تو والدین ساتھ تھے اور اس طرح مکھنانوالی کے دو دوستوں کا ناطہ پھر ٹوٹ گیا ۔ میجر عابد کے اسٹاف کورس کے بعد لاہور میں برگیڈ میجر ۔ جی ایچ کیو میں ایم ایس اور ایم او برانچ ۔ پھر ترکش اسٹاف کورس کے لئے استنبول جانے کی بلاترتیب پوسٹنگس نے حیدر کاظمی اور کرنل مراد خان نیر کو دوبارہ کبھی ملنے نہ دیا اور حیدر کاظمی کی صحت ایسی نہ رہی کہ وہ اکیلے اپنے یار کو ملنے نکل پڑتے بلکہ انکو تو اب یہ بھی خبر نہ تھی کہ وہ دوبارہ کس دنیا میں گم ہو گیا تھا ۔
فروری 1994 میں حیدر کاظمی اللہ کو پیارے ہو گئے ۔ 1995 میں لیفٹننٹ کرنل حیدر کاظمی وار کورس کے دوران چترال پہنچے ۔ ائیر پورٹ سے سیدھے چترال اسکاوٹس کی آفیسر میں لنچ پر جانا تھا ۔ اینٹی روم میں داخل ہوئے تو سامنے کرنل مراد خان نیر کی تصویر پر نظر ٹھہر گئی جس کے نیچے اسٹیل پلیٹ پر کمانڈنٹ 1978- 1989 لکھا تھا ۔ پلٹ کر میس حوالدار کی طرف لپکے اور پوچھا کہ کرنل مراد خان نیر اب کہاں ہوتے ہیں ۔ میس حوالدار خاموش کھڑا کرنل عابد کاظمی کو حیرانگی سے دیکھتا رہا اور پھر آہستہ سے بولا سر ہمارے بابائے چترال کرنل مراد خان نیر دروش میں کمانڈنٹ ہاوس کے باہر ایک پلاٹ میں دفن ہیں ۔ سر انہوں نے 3 اگست 1989 کو خود کو گولی مار کر خودکشی کر لی تھی ۔
(جاری ہے)