Posted date: March 15, 2020In: Urdu Section|comment : 0
سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے حالیہ سالوں میں کئی ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جن کی وجہ سے صرف سعودی عرب میں ہی نہیں بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں افراتفری کا ماحول بنا ہوا ہے۔یمن جنگ، قطر ناکہ بندی، اخوان المسلمون کی دشمنی، کرپشن کے نام پر سیاسی گرفتاریاں، مذہبی شخصیات کی حراست، حریتِ نسواں، 2030کا منصوبہ، خافجی کا قتل اوراب حالیہ دنوں میں شاہی خاندان کے سرکردہ شخصیات کی گرفتاریاں سعودی عرب کے خارجی اور داخلی امور ميں ایک ہلچل پیدا کر رہی ہیں ۔محمد بن سلمان بغیر سوچے سمجھے ایسے نازک اور خطرناک اقدامات اٹھا رہا ہے کہ تجزیہ نگاروں کی نظر میں محمد بن سلمان شاید سعودی عرب کا آخری بادشاہ ہو سکتا ہے۔فلسطینی نژاد برطانوی سیاسی تجزیہ نگار عزام تمیمی نے گزشتہ سال ماہ ستمبر میں مضمون کا عنوان یوں رکھا تھا:
اگر وہ بادشاہ بھی بنا بن سلمان امکانی حد تک آخری بادشاہ ہوگا۔ محمد بن سلمان ایک نا تجربہ کار،جلد باز،غیرمتوازن،من موجی اورحریص قسم کا شخص ہے۔جو نام کمانے کے لئے او بادشاہت حاصل کرنے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔حالیہ شاہی ہنگامے میں محمد بن سلمان نے تقریباً بیس شہزادوں کو بغاوت کے الزام میں زیر حراست لیا ہے۔رپورٹس کے مطابق محمد بن سلمان نے انہیں بیرونی طاقتوں بشمول امریکاکے ساتھ ساز باز کرنے کے جرم میں گرفتار کروایا۔گرفتاری کے وارنٹس پرشاہ سلمان نے خود دستخط ثبت کیے ہیں ۔بن سلمان نے سعودی عرب کو بیرونی خطرات کے ساتھ ساتھ اندرونی خطرات کی آگ میں پھینک دیا ہے۔ڈیوڈ ہرسٹ کے الفاظ میں “سعودی عرب کی طاقت
اب صرف ایک نوجوان، ناتجربہ کار اور خطرات مول لینے والے آدمی کے ہاتھ میں ہے۔ باوجود اس کے کہ سعودی عرب مذہبی اعتبار سے سنی ممالک میں ایک اہم ترین حیثیت رکھتا تھا محمد بن سلمان نے اسے متنازعہ بنا دیا “۔جس کا آغاز اس نے قطر کی ناکہ بندی سے کیا اور اختتام فی الحال دسمبر میں ملیشیاء، ترکی، قطراور ایران کا کولالمپور میں منعقد کیے گئے اجلاس کی مخالفت پر کیا ۔اس اجلاس میں پاکستان کو بھی مدعو کیا گیا تھا لیکن بن سلمان نے عمران خان پر دباوڈال کراس میں شرکت کرنے سے روکا بعد ازاں شریک نہ ہونے پر عمران خان نے محمد مہاتیر سے معذرت بھی طلب کی تھی۔یہ تمام ممالک سعودی مخالف ہیں کیونکہ سعودی عرب نے ان تمام ممالک کے ساتھ کہیں نہ کہیں کوئی تنازعہ بیجا رکھا ہوا ہے۔اس طرح سے گویا بن سلمان نے سنی ممالک میں سعودی عرب کی اہمیت کو کم کیا ہے۔بن سلمان ایک طرف سعودی عرب کے شاہی محل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے دوسری طرف مسلم دنیا کا بھی ہیرو بننے کی تمنا رکھتا ہے۔کوالا المپور اجلاس میں پاکستان کی عدم موجودگی کے حوالے سے صدر طیب اردوان نے گزشتہ سال کے دسمبر کے مہینے میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ”بد قسمتی سےسعودی عرب نے پاکستان پر سخت قسم کا دباو ڈالا تھا۔۔۔سعودی عرب نے پاکستان کو دھمکی دی کہ وہ 40لاکھ پاکستانیوں کوواپس کرکے ان کے بدلے بنگلہ دیشیوں کو کام کرنے کی اجازت دے گا”۔بن سلمان کے اس رویے سے بھی مسلم دنیا کے رہنماؤں میں بن سلمان کی سیاسی ناتجربکاری سامنے آچکی ہے۔پاکستان جیسے اہم ترین مسلم ملک پر دباو ڈالنا ہی نہیں بلکہ دھمکی کی حد تک جانا اس کی
غیرسنجیدگی کوثابت کرتا ہے۔مصرمیں السیسی کاظلم ہویافلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم بن سلمان خاموش تماشائی ہی نہیں بلکہ اس ظلم میں ظالموں کا معاون بھی ہے۔بن سلمان نے مسلم دنیا میں کوئی ایسا حوصلہ افزاء کام ہی نہیں کیا کہ جس کی وجہ سے وہ مسلم دنیا میں ایک اہم رہنما ہو نے کی حیثیت حاصل کرنے کا اہل ہو۔اس کے برعکس اس نے سعودی عرب کو مسلم ممالک کے ساتھ ہی الجھائے رکھا ہے۔
اندرونی طور بن سلمان نے شاہی محل میں ہی ایک ناکہ بندی کا آغاز کیا ہے۔ اعلی منصب پر فائز شہزادوں کو گرفتار کرکے ولی عہد نےمحل کی اکثریت کو اپنے مخالف کیا ہے ۔میڈل ایسٹ آئی میں لکھنے والی مضمون نگار مدوی الرشید لکھتی ہیں:
آج بن سلمان کو صرف اپنے ضعیف العمر والد سلمان کی تائید حاصل ہے اور جب کہ شاہی خاندان کے دیگر سینئرارکان جو بادشاہ بننے کی اہلیت رکھتے تھے سب کے سب بن سلمان سے برہم، علیحدہ، خوفزدہ اوراب زیرِ حراست ہیں ۔”انہوں نے مزید لکھا ہے کہ نوجوان شہزادہ اب اکیلا ڈراورخوف کی زندگی گزاررہا ہے۔بن سلمان سعودیہ کی باگ دوڑ ہاتھ میں لینے کے لئے پانچ سالوں سے کوشاں ہے۔اس کے لئے اس نے ظالمانہ طریقہ اختیار کر کے ہر قسم کی مخالفت کو دبانے کا اہتمام کیا ہے۔سیاسی مخالفت کے ظمن میں خاندانی اثر رسوخ رکھنے والے شہزادوں کو گرفتار کر لیا ہے جن میں شہزادہ محمد بن سعود، محمد بن نیف، احمد بن عبدالعزیز، نایف بن احمد خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ۔2017کے کریک ڈاؤن میں بن سلمان نے تقریباً 350 شاہی خاندان کے ارکان، بزنس شخصیات اور اعلی عہدیداروں کو گرفتار کر کے ریٹز کارلٹان میں ڈال دیا تھا ۔جن میں شہزادہ بن معطب اور ولید بن طلال نے خاطر خواہ رقم دے کر اپنے آپ کو ریاض کے سے رہا کروایا تھا لیکن آج وہ کس حالت میں کوئی بھی خبر ان کے بارے ابھی تک کسی بھی ذرائع کو موصول نہیں ہوسکی ہے۔بن سلمان نے کئی اہم شخصیات کو ملک بدر بھی کیا ہے جن میں سعدالجبری
کا نام معروف ہے۔بن سلمان کے خوف سے کئی سرکردہ شخصیات نے خود ہی اپنے آپ کو جلاوطن کردیا لیکن ان میں سے کچھ کو فرانس سے،مراکش سے،
برطانیہ وغیرہ سے”ٹائیگراسکواڈ”نے اغواہ کرکےغائب یا پھرقتل کردیا ہے۔
مقتول ہونے والوں میں واشنگٹن پوسٹ سے منسلک جمال خاشفجی بھی تھے۔ محمد بن سلمان نے اس کے علاوہ اہم مذہبی شخصیات کو بھی زندان میں ڈالے رکھا ہے۔ستمبر 2017میں تقریباً 60 کے قریب چھوٹے بڑے علمائے کرام کو گرفتار کیا۔جن میں شیخ سلمان العودہ ،اوعد القرنی اور علی القماری جو اخوان المسلمون کے ساتھ تعلق رکھنے کی بنیاد پر جیل میں ڈال دئے گئے ہیں ۔حراست میں لینے کے بعد ان پر کیا کچھ گذری ہے کچھ بھی معلوم نہیں ۔اس کے علاوہ درجنوں سماجی کارکنان کو بھی قید میں ڈالا گیا تھا جن میں کچھ کو عارضی رہائی ملی ہے لیکن اکثرزیرحراست ہیں۔اس طرح سے گویا محمد بن سلمان نے کوئی بھی ایسا گوشہ اپنی دست اندازی سے نہیں چھوڑا ہے جہاں سے اسے اپنے خلاف ذرا بھی مخالفت ابھرنے کا خدشہ ہو۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نا تجربہ کار شہزادہ سلمان اتنی جلد بازی سے ایسے تباہ کن اقدامات کیوں اٹھارہا؟ کیا بن سلمان کی لگام کسی اور کے ہاتھ میں ہے؟ یا محمد بن سلمان خود سے یہ فیصلہ لے رہا ہے؟ ۔تاریخ اس بات کی شاہد رہی ہے کہ نااہل حکمران ہمیشہ اپنی لگام کسی اور کے ہاتھ میں دے کر چلتا ہے کیونکہ حکمرانی کرنا کوئی کھیل نہیں ہے کہ ایک نالائق انسان بھی اسے ہلکی شئے سمجھے۔نااہل بھی حکومت کے نشے میں حکمرانی کرنا چاہتا ہے لیکن اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ کام خود اعتمادی کے ساتھ سر انجام نہیں دے سکتا،اس لئے وہ دوسری طاقتوں کا سہارا لے کر حکمرانی کرتا ہے۔یہ سہارا لینا آخر کار اس کے زوال پر منتج ہوتا ہے لیکن فی الحال خلق خدا کو جو اس سے تکلیف پہنچتی ہے وہ بعد میں تاریخ کی صفحات کو رنگین کرتی ہے۔سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ محمد بن سلمان کی لگام ابوذہبی کے ولی عہد محمد بن زید ،ڈونالڈ ٹرمپ اور ٹرمپ کے داماد جارج کشنر کے پاس ہے۔
ڈیوڈہرٹز نے اپنے ایک مضمون میں اس بات کا انکشاف کیا تھاکہ محمدبن زید نے بن سلمان کو شاہی گدی پر جلدی سے براجمان ہونے کے لئے دو نصیحتیں کیں ہیں ۔
The first was to open a channel of communication with Israel.
پہلی یہ کہ اسرائیل کے ساتھ رابطہ بنائے رکھے ۔انہوں نے لکھا تھا کہ بن سلمان نے یہ کام بحسن و خوبی انجام دیا اورآج سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ پہلے سے زیادہ قریب ہے۔دوسری نصیحت یہ کی کہ سعودی عرب میں مذہبی اثر و رسوخ کو ختم کر دیا جائے ۔
ڈیوڈہرٹزیہ بھی لکھتے ہیں کہ
Although bin Salman has reduced the influence of the religious establishment on the daily life of the Saudis, he is using it to bolster his authority.
اگرچہ بن سلمان نے سعودیہ کی روزمرہ زندگی پر مذہبی اثر کو ختم کیا، لیکن اس نے مذہبی اتھارٹی کو سعودی عرب پر اپنی اتھارٹی قائم کرنے کے لئے بھی استعمال کیا۔
حق گو علماء نے بن سلمان کی مخالفت کرکے اپنے آپ کو زندان میں ڈلوایا لیکن کئ سرکاری علماء نے نہ جانے کس نیت سے بن سلمان کی حمایت بھی کی۔ ٹیوٹر پر، اپنے بیانات میں اور ٹیلی وژن پر انہوں نے بن سلمان کی حمایت کی۔
جہاں تک ٹرمپ اور اس کے داماد جارڈ کشنر کی حمایت کا تعلق ہے وہ تو اظہر من الشمس ہے۔بن سلمان آج جو بھی کچھ کررہا ہے وہ سب ٹرمپ پر انحصار کر کے کررہا ہے۔مبصرین کا ماننا ہے کہ بن سلمان کو ٹرمپ کا دوسری مرتبہ صدربننا مشکل نظرآرہا ہے اس لئے وہ امریکاکے صدارتی انتخابات سے پہلے پہلے شاہی تخت پربراجمان ہوناچاہتا ہے۔اس کام کے لئے وہ اپنے والد سلمان بن عبدالعزیز کوبھی مجبورکررہا ہے۔
جہاں تک ابوذہبی کے ولی عہد کا تعلق ہے ان کے متعلق بتایا جا رہا ہے کہ سعودی عرب کی ہر پریشانی کا سبب وہ ہے۔عزام تمیمی لکھتے ہیں
MBZ’s” recommendations have always led to disaster for Saudi Arabia.”
کہا جاتا ہے کہ قطر کی ناکہ بندی اور یمن کی جنگ کے پیچھے ابوذہبی کا ہی ہاتھ ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ سعودی عرب اپنے نااہل شہزادے کی وجہ سے ایک چھوٹے سے ملک کی کٹھ پُتلی بن چکا ہے۔محمد بن سلمان کی حماقت سعودی عرب کو ایک تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے۔