مدارس میں اصلاحات کی ضرورت اور دہشت گردی کا مسئلہ
[urdu]
مدارس میں اصلاحات کی ضرورت اور دہشت گردی کا مسئلہ
افتخار حسین
نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کی ایک کڑی کے طور پر حکومت اور مدارس کے مابین حالیہ ہونے والا سمجھوتہ خوش آئند ہے۔نیشنل ایکشن پلان کے نکات میں مدارس میں اصلاحات کرنا بھی شامل ہے تاکہ ملک سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ کیا جاسکے۔بدقسمتی سے تحریکِ طالبان نے مدارس کو دہشت گردی سے جوڑ کر انھیں دنیا بھر میں بدنام کیا ۔جہاں مدارس کو دہشت گردی سے الگ کرنے کی ضرورت ہے وہیں مدارس کے نصاب میں اصلاحات کرنی بھی ناگزیر ہیں تاکہ مدارس کے طلباء کو جدید علوم سے آراستہ کر کے ان کےلیے ملازمتوں کے دروازے کھولے جائیں ۔اصلاحات کے اس عمل کے خلاف بھی جھوٹا پروپیگنڈا کیا جاتا ہےتاکہ اس عمل میں رکاوٹ ڈالی جاسکے۔مدارس کے سبھی وفاق ہمیشہ ہی اصلاحات کے حق میں رہے ہیں لیکن اس منفی پروپیگنڈا کی وجہ سے یہ عمل ہمیشہ ادھورا رہ جاتا ہے۔یہاں ہم مدارس میں اصلاحات کی ضرورت اور ان اصلاحات کو روکنے میں تحریک ِطالبان اور اس کے اتحادی فرقہ وارانہ دہشت گرد گروہوں کے پروپیگنڈے کو اجاگر کرتے ہیں ۔
مدارس کا دہشت گردی اور انتہا پسندی میں اُلجھ جانا حال ہی کی بات ہے تاہم مدارس کے نصاب میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہمیشہ ہی سے محسوس کی گئی ہے۔ہمارے قومی شاعراور مفکر علامہ محمد اقبال نے آج سے اَسی سال قبل اس مسئلے کو یوں اجاگر کیا تھا۔
گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا “لَاالہ اِلااللہ لَا”
اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک
نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ
اِن اشعار میں علامہ اقبال اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ برصغیر کے مدارس طلباء کو زندگی کا سلیقہ نہیں سکھارہے۔یہ مدارس نہ ہی انھیں اسلام کے عالمگیر محبت کے پیغام سے آشنا کر رہے ہیں اور نہ ہی ان کا نصاب ان میں بصیرت اوردور اندیشی پیدا کررہے ہیں۔علامہ اقبال کا یہ واضح خیال تھا کہ مدارس کی تعلیم مسلمان طلباءکو ایک خدا کا پرستار بنانے کی بجائے ان کی آزادی کی حِس کو مٹا کر ان میں غلامانہ سوچ کو فروغ دے رہےہیں ۔علامہ اقبال اسی مسئلے کو اپنے ایک اور شعر میں یوں بیان کرتے ہیں۔
شیر مردوں سے ہواپیشہِ تحقیق تَہی
رہ گئے صوفی و مُلا کے غلام اے ساقی
ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ انتہا پسند گروہ اپنے پروپیگنڈے میں جہاں قرآنی آیات کا بے جا استعمال کرتے ہیں وہیں علامہ اقبال کے اشعار کو بھی غلط رنگ میں پیش کر کے اپنے موقف ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہم نے اقبال کے افکار میں واضح طور پر دیکھ لیا ہے کہ وہ آج سے80 سال پہلے ہی مدارس کے نصاب میں اصلاحات کے خواہاں تھے مزید برآں یہ کہ خود درسِ نظامی ستر ہویں صدی کی ضروریات کو مدِنظر رکھ کر تشکیل دیا گیا تھا۔مُلا نظام الدین نے یہ نصاب جہاں مسلمان علماء پیدا کرنے کے لیے تشکیل دیا تھا وہیں اس امر کو بھی مدِنظررکھا تھا کہ اس نصاب سے فارغ التحصیل طلباءدرباری خدمات اور حکومتی عہدوں کے لیے بھی تیار کیے جا سکیں۔ تین سو سال پُرانہ درسِ نظامی کسی بھی طور پر جدید دور کے تقاضوں پر پورا نہیں اتر سکتا۔یہی سبب ہے کہ مدارس محض علماء پیدا کر رہے ہیں اور کوئی ڈاکٹر ،انجینئر یا حکومتی عہدِ ےدار مدرسے سے نہیں پیدا ہوتا ۔اس لیے دور ِ حاضرکے تقاضوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں مدارس کے نصاب میں ضروری اصلاحات ضرور لانی چاہیں اور اس ضمن میں کسی پَس وپیش سے کام نہیں لینا چاہیے کیونکہ یہ اقدام خود مدارس کے مفاد میں ہیں۔پاکستان کی حکومت اور ریاستی ادارے اس کام کو سرانجام دینے میں مخلص ہیں اور اس ضمن میں دہشت گرد اور انتہا پسند گروہوں کا پروپیگنڈا جھوٹ پر مبنی ہے۔
تحریکِ طالبان کے ترجمان اور رہنماؤں کی حکومت ،مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف بے بنیاد دلیلوں کا ایک نمایاں پہلو مدارس اور علماءکے نام پر عوام کو مشتعل کرنا ہے۔ اس گروہ کے رسا لوں اور آڈیو ، ویڈیو پیغامات میں شدّومد سے یہ بتایا جاتا ہے کے پاکستان تمام مدارس اور علماءکرام کا دشمن ہے اور ریاستی اداروں سے انہیں شدید خطرات لاحق ہیں لیکن تحریکِ طالبان کے دعوؤں کے برعکس اس وقت وطن عزیز میں اٹھارہ ہزار سے زیادہ مدارس آزادانہ کام کر رہے ہیں۔ 70فیصد رجسٹررڈمدارس دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں کبھی کسی قسم کی مشکلات اور انتظامی رکاوٹوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ملک میں مدارِس کے پانچ وفاق قانونی تحفظ کے ساتھ اپنے ماتحت مدرسوں کا انتظام چلا رہے ہیں۔ ان وفاق المدارس کی قیادت نے کبھی بھی تحریکِ طالبان کے دعوؤں کی تصدیق نہیں کی بلکہ وہ مدارس میں جدّت لانے کے لئے حکومت کی کوششوں کے حامی رہے ہیں۔ یہ حقا ئق دہشت گردوں کے بھی بے بنیاد پروپیگنڈے کو رد کرتے ہیں۔
مدارس برسوں سے برصغیر میں قرآن و سنت کی تعلیمات کی تدریس کے مراکز ہیں، مگر تحریکِ طالبان نے مدرسوں کو اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کا گڑھ بنا کر انہیں بدنام کرکے شدید نقصان پہنچایا ہے۔ با خبر حلقوں کے مطابق اس گروہ کے دہشت گرد مدارس کی آڑمیں اغوأ برائے تاوان، گاڑیوں کی چوری اور منشیات فروشی جیسے گھنا ؤنےجرم کر رہےہیں۔نیز دہشت گردوں اور خود کش حملہ آوروں کو بھی مدرسوں میں چھپایا جاتا ہے۔اِن سرگرمیوں کا یقینی نتیجے کے طور پر مدارس قانونی پیچیدگیوں کا شکار ہو رہے ہیں تاہم پھر بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مدارس کے تقدس کا ہمیشہ خیال رکھتے ہوئے ان میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کی۔ اس کے برعکس، دہشتگردا پنی موجودگی سے دنیا بھر میں مدارس کو بدنام اور غیر مقبول کر رہے ہیں۔
بعض علماءکرام اور صحافیوں کا کہنا ہے کہ تحریکِ طالبان مدارس کو دہرے طریقے سےنقصان پہنچا رہی ہے جس کا مقصد پاکستان اور اسلام کو علماءکے سائے سے محروم کرنا ہے۔ ایک طرف تو یہ گروہ خودکش حملوں کے ذریعے مسجدوں اور خانقاہوں سے منسلک مدرسوں اور علماء کو مٹا رہا ہے اور دوسری طرف انہی مدارس کے طلباء کو تعلیم ادھوری چھوڑ کر دہشت گردی میں ملوث کر رہا ہے تا کہ مستقبل میں علماءپیدا نہ ہوسکیں۔ یقیناً یہ علماءاور مدارس کے خلاف بہت سنگین سازش ہے جس کا ادراک ایک عام شخص بھی زمینی حقائق سے باخوبی کرسکتاہے۔نیز خود بہت سارے دہشت گرد رہنما یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ تحریک طالبان مدرسوں سے بھتا لے کر ان کا مالی استحصال کرتی ہے۔
اس مختصر مضمون میں بیان کردہ حقیقت تحریک طالبان کی مدارس اور علماء سے دشمنی کو عیاں کرنے کے لیے کافی ہیں۔لہذا ، مدارس اور علماء کے نام پر تحریک طالبان کےجھوٹ کا ادراک کر کے ہمیں مدرسوں اور علماء کے تحفظ اور مدرسوں میں اصلاحات لانے کے لیے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مکمل ساتھ دینا چاہے۔
[/urdu]