Posted date: November 27, 2014In: Urdu Section|comment : 0
’ سیّد ناصررضا کاظمی
صداقت نوعِ انسانی کے لئے ہمیشہ کامیابی وکامرانی کی نوید بنی ہے چاہے صداقت کی یہ صدا دنیا کے کسی بھی حصہ میں ‘ کسی بھی ملک میں کسی بھی ملک کے کسی بھی حکمران یا عام مسلم یا غیر مسلم فرد نے بلند کی ہو ‘ صداقت وسچائی کی صدا کو بلند کرنے والے ہر عہد میں شہرت و عظمت کی پہچان بنے اِس کی وجہ یہ ہے کہ صداقت وسچائی کے برخلاف پروپیگنڈا کرنے والے کے دامِ فریب کے بچھائے گئے جال میں کسی قیمت پر بھی نہیں پھنے اور اگر قدرت نے اُنہیں یعنی صداقت وسچائی کا دوٹوک و ببانگِ دہل اعلان کرنے کا موقع فراہم کیا تو ایسے سچے اور بے باک منتخب افراد نے ڈنکے کی چوٹ پر سچائی کا برملا اظہار کر نے میں منٹ نہیں لگایا دنیا کے آفاقی ادیان کے پیروکاروں کا یہ ماننا ہے کہ اُنہیں ہمیشہ سچ بولنا اور سچ کے لئے اگر زہر کا پیالہ بھی پینا پڑے تو ایسے سچے بہادر ‘ دلیر اور نڈر نامور ممتاز شخصیات نے دوقدم آگے بڑھ کر نہ صرف زہر پیا بلکہ خود کو دار پر بھی کھینچا وا لیا آجکل مغربی میڈیا کے سبھی ممتاز میڈیا میں اسکینڈینویا ملک سویڈن کے نئے منتخب وزیر اعظم مسٹر اسٹیفن لوفن کے اُس جراّت مندانہ خطاب کے اُن خاص مندرجات پر بڑا غور وخوض ہورہا ہے مسٹر اسٹیفن لوفن نے 3 ؍ اکتبو بر 2014 کو بحیثیت منتخب وزیر اعظم سویڈ ن کی پارلیمنٹ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب میں دنیا کی تو جہ جب مسئلہ ِٗ فلسطین کی طرف دلائی اور یاد دلایا اُن کا ایک یہ وعدہ بھی تھا کہ اگر سویڈن کی سوشل ڈیموکریٹس پارٹی کو سویڈش عوام نے حکمرانی کے لئے منتخب کیا تو اپنی پہلی فرصت میں مشرقِ وسطیٰ میں حقیقی امن کے قیام کے لئے وہ ذاتی طور پر یورپی یونین سمیت عالمی طاقتوں کو احساس دلائیں گے کہ ’ مسئلہ ِٗ فلسطین‘ کو فلسطینی عوام کی رائے اور اُن کی مرضی ومنشا کے مطابق حل کرانے کی کوششوں کو اوّلیت دی جانی چاہیئے بحیثیتِ پاکستان مسلمان ہم سویڈن کے نئے وزیر اعظم مسٹر اسٹیفن لوفن کے تہہ دل سے مشکو ر ہیں اُنہوں نے دنیائےِ اسلام کے دل کی آواز کو حق پر مبنی حقیقت کے طور پر نہ صرف سمجھا ہے بلکہ سویڈن کی پارلیمنٹ میں اپنے افتتاحی خطاب میں اِس انسانی مسئلہ کے حل پرپوری سچائی کے ساتھ زور دیا یقیناًاُن کی یہ حق پر مبنی سچائی کی آواز دنیا بھر میں سنجیدگی کے ساتھ سنی گئی ہوگی اسکینڈینویا ممالک میں سویڈن ایک اہم ملک تصور کیا جاتا ہے امریکا سمیت دیگر عالمی طاقتوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے دیر ینہ مسائل کو زمینی حقائق کی قرار واقعی روشنی میں سمجھنے کی طرف کبھی سنجیدگی سے غور ہی نہیں کیا مسلمانوں ہمیشہ زہریلے تعصب کی عینکوں دیکھنے کے انتہائی تضحیک آمیز امریکی اور عالمی رویے نے اِن ممالک کے لئے مسلمان عوام میں بڑھتی ہوئی نفرت کی آگ کو بھجانے یا اِس کی شدت کو کم کرنے کی جانب نجانے توجہ کیوں نہیں کی جارہی ؟ پھر سوال کیا جاتا ہے کہ مسلمان عوام آخر کیوں امریکی طرزِ حکمرانی سے بیزاری اور نفرت کا اظہار کرتے ہیں جان بوجھ کر دنیائےِ اسلام کے ساتھ روا رکھے جانے والے امریکی سلوک نے دنیا کے مسلمان ممالک کے دیرینہ مسائل کو حل کرنے یا حل کروانے میں اب تک اپنا کون سا خصوصی کردار ادا کیا ہے ؟ امریکا جیسے بڑے عالمی طاقت کی بجائے سویڈن جیسا ترقی یافتہ ایک چھوٹا ملک دنیائےِ اسلام کے نزدیک کس قدر قابل ستائش ٹھہرا ہے جس ملک کے نئے وزیر اعظم مسٹر اسٹفین لوفن نے مسلمانوں کے بنیادی حقوق کے لئے آواز تو اُٹھا ئی یہاں ہم مسٹر اسٹیفن لوفن کی توجہ جنوبی ایشیا کی جانب بھی مبذول کرانا چاہئیں گے مسئلہ ِٗ کشمیر بھی فلسطینی مسئلہ کی طرح مسلمانوں کے لئے گزشتہ 67 برسوں سے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا ہوا ہے یہ مسئلہ 1948 سے آج تک اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی ’گرد ‘ میں اٹا ہوا پڑا ہے عالمی طاقتیں دنیا کے جس حصہ میں بھی جہاں اُن کے معاشی مفادات پر زد پڑ رہی ہو وہاں وہ فوراً اقوامِ متحدہ کی آڑ میں درمیان میں کود پڑتی ہیں مشرقی تیمور میں ایسا کچھ ہوا وہاں دیکھتے ہی دیکھتے پل بھر میں اقوامِ متحدہ نے مشرقی تیمور کے عوام کی مرضی ومنشا جاننے کے لئے حقِ استصوابِ رائے کا عالمی انتظام کروادیا مشرقی تیمو ر آزاد ہوگیا یقیناًکسی قوم کے بنیادی انسانی حقوق پر غلامی کے ڈاکے ڈالنے کی کسی جابر و استبداد غا صب قوم کو کوئی حق نہیں پہنچتا جیسے مشرقی تیمو ر کے عوام کو اقوامِ متحدہ نے اُن کے بنیادی انسانی حقوق دلوائے ہیں فلسطین اور کشمیر کے مسلمان عوام بھی اپنے حقوق کے لئے اپنی قومی وملی آزادی کے لئے اپنی تگ ودو کی مشقتیں ‘ تکالیف اور مصائب کے پہاڑ جھیل رہے ہیں، مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل اور جنوبی ایشیا میں بھارت تشدد ‘ جبر ‘ اور ریاستی دہشت گردی کے زور پر کئی لاکھ عوام کے بنیادی انسانی حقوق غضب کیئے دنیا کے امن کے لئے اب خطرے کی علامت بنتے جارہے ہیں مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل علاقہ کا ’تھانیدار ‘ بنا ہوا ہے اور ادھر ’بھارت ‘ کو نہ صرف جنوبی ایشیا کا بلکہ ’ ایشیا پیسفک ‘ کا ’تھانیدار ‘ بنانے کی امریکی خواہشوں کے پیچھے چھپی شہ کا ظاہر اب پوشیدہ نہیں رہا افغانستان میں امریکا نے بھارت کو مستقلاً بٹھا کر پاکستان کو ہمہ وقت ’دوطرفہ‘ چوکنا رہنے پر ضرور لاکھڑ اکیا ہے متذکرہ بالا سطور میں ہم سویڈن جیسے غیر جانبدار ترقی یافتہ ’چھوٹے سہی ‘ مگر سوشل سیکٹر میں قابلِ ستائش جدید ملک کے عوام کویہ پیام پہنچا نا چاہئیں گے وہ دنیا بھر کی محکوم ومظلوم اقوام کی آزادی کے لئے اپنی قابلِ قدر خدمات جاری رکھیں اور کچھ نہیں تو کم ازکم اسکینڈنیویا کے یہ ممالک مشرقِ وسطیٰ میں فلسطین کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا میں مقبوضہ جموں وکشمیر کی آزادی کے لئے کی جانے والی جدوجہد کی صحیح تصویر یورپی یونین کے اُن ممالک کو ضرور دکھانے میں کامیاب ہوجائیں گے دنیا جن کا وزن بخوبی جانتی ہے اور مانتی بھی ہے عین ممکن ہے ایک نامور یورپی مفکر \”Sallust\” اپنے ایک تجزئیے میں کہتا ہے ’ضروری نہیں ہے کہ امن ‘اتحاد اور اتفاق کویقینی بنانے کے لئے کوئی بڑی طاقت پہل کرئے کوئی بھی چھوٹا ملک جو عدل واتفاق پر پختہ یقین رکھتا ہو اور وہ ایسے ہی کسی سنگین مسئلہ کی سنگینی کو کم کرنے کے لئے پُرعزم ہوجائے تو عجب نہیں ہے کہ متحارب نسلوں کے مابین انصاف اور اتفاق قائم ہوجائے ‘ مثلاً سویڈن کے وزیر اعظم مثال بن سکتے ہیں وہ مشرقِ وسطیٰ کے ساتھ جنوبی ایشیا میں بھی بھارت پر اپنا اثر ڈالیں گے اور اُن کے ساتھ دیگر یورپی ممالک بھی آجائیں تو پھر جنوبی ایشیا میں بھارت کی جانب سے روز بروز بڑھتے ہوئے علاقائی نفاق و ابتری اور کشیدگی میں کمی واقع ہوسکتی ہے وقت آگیا ہے کہ اقوامِ متحدہ فی الفور بھارت میں قائم اپنےUNMOGIP کو متحرک کرئے تاکہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی تازہ ترین ابتر صورتحال سے یہ عالمی ادارہ بھی باخبر ہوجائے۔