Posted date: May 31, 2013In: Urdu Section|comment : 0
17 مئی 2013 مالاکنڈ ایجنسی کے ایک قصبے بازدرہ میں نماز جمعہ کے وقت دو مساجد میں ہونے والے بم دھماکوں کے نتیجے میں 20افراد جاں بحق اور 130سے زائد زخمی ہو گئے۔ان بم دھماکوں کی وجہ سے باز درہ کی ایک مسجد مکمل طور پر تباہ ہو گئی جبکہ دوسری مسجد کو بھی شدید نقصان پہنچا۔21 مئی کو مالاکنڈ ایجنسی میں ہی ایک اور مسجد پر فائرنگ کر کے وہاں کے پیشِ امام کو دہشت گردوں نے قتل کر دیا۔یہ بم دھماکے صوبہ خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقہ جات میں گزشتہ کئی سالوں سے مساجد اور مزارات پر دہشتگردوں کے حملوں کی مکروہ کاروائیوں کا تسلسل ہیں۔ دہشتگرد گروہوں نے پختون عوام کے علاقوں میں مساجد پر حملوں، نمازہ جنازہ کے ا جتماعات اور دوسرے مذہبی پروگراموں پر خود کش حملوں ،اولیائے کرام کے مزارات پر بم دھماکوں،سکولوں اور ہسپتالوں پر حملوں کا ظالمانہ سلسلہ جاری رکھا ہو اہے۔جبکہ ان درندہ صفت دہشتگردوں نے اپنے مخالف لوگوں کو قتل وذبح کرنے ،ذاتی دشمنی کی بناء4 پر خود ساختہ جھوٹے الزامات عائد کرکے بیگناہ لوگوں کو سزائیں دینے ،اسلامی تعلیمات کے منافی فتوے دینے ،معصوم لوگوں کو قتل کرنے ،لاشوں کی بیحرمتی کرنے اور پختون لڑکیوں کے لیے دنیاوی تعلیم کو حرام قرار دینے اوراپنے گروہ کے ابلیس صفت قاتلوں کے لیے اپنی خود ساختہ جنت بسانے کی اپنی تمام تر ضداسلام کاروائیوں کو بھی ’’ جہاد ‘‘ کا نام دے رکھا ہے جو کہ اس شیطانی گروہ کی کھلی اسلام دشمنی کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔دہشتگردوں کا یہ گروہ اسلام دشمنی میں اس حد تک آگے جا چکا ہے کہ وہ اسلام کے آفاقی پیغام کے مطابق اخوت ،محبت ،رواداری اور امن و آشتی کی تبلیغ کر کے بر صغیر کے مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کی شمع روشن کرنے والے اولیاء4 کرام اور صوفی بزرگان دین کی خانقاہوں اور مزارات کو بھی اپنے ایجنڈے کے لیے بھی خطرہ سمجھتے ہیں اور ان کو گرانے کے لیے خود کش حملوں کو بھی جائز سمجھتے ہیں۔جنوبی پنجاب میں تمام مکاتب فکر کے پیروکار مسلمانوں کے لیے قابل احترام روحانی مراکز کا درجہ رکھنے والے حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی ،حضرت بابا فرید شکر گنج ،حضرت شاہ شمس تبریز ،حضرت سخی سرور ،حضرت شاہ رکن عالم اور دوسرے بزرگان کے مزارات پر بھی دہشتگردوں کے حملے ہو چکے ہیں جن میں درجنوں زائرین جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے اس لیے ابتدا میں طالبان کیساتھ ہمدردی رکھنے والے جنوبی پنجاب کے سرائیکی عوام بھی طالبا ن کے نیٹ ورک سے مربوط مدارس کے علماء سے یہ سوال کرتے ہیں کہ یہود وہنود اور امریکہ کیخلاف جہاد کا نعرہ لگانے والے اولیاء4 کرام کے مزارات پر حملے کیوں کرتے ہیں اوران بزرگان دین کے مزارات کی بیحرمتی کیوں کی جاتی ہے جن کی تبلیغات سے اس خطہ میں اسلام پھیلا۔
اولیاء اللہ اور صوفی بزرگوں کے مزارات ،مساجد ،مدارس ،امام بارگاہوں اور دوسرے مقدس مذہبی مقامات پر خود کش حملے کرنے والے گمراہی کے شکار ہیں۔ ملک دشمن قوتوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ان جنونی دہشتگردوں کی ایسی برین واشنگ کر دی ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے قلعے مسمار کرنے کے شرمناک سلسلے کو بھی خدمت اسلام سمجھتے ہیں جو کہ ان کی اصل اسلام سے نا آشنائی اور لا علمی کا بھی ثبوت ہے۔آنحضورﷺکی حیات مبارکہ اور سنت نبوی? سے رہنمائی حاصل کرنے کی بجائے اسلام دشمن قوتوں کے ایجنٹوں کے آلہ کار بن کر شعائر اسلامی کیخلاف بغاوت کرنے والے اور صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے خودساختہ اسلام کے ان علمبرداروں کوبے نقاب کر کے سادہ لوح مسلمانوں کو ان کے مکروفریب سے بچانا ہماری سول سوسائٹی کے تمام سنجیدہ طبقات خصوصاً علماء اسلام کی اولین ذمہ داری ہے تاکہ نفرت اور فرقہ واریت پھیلانے والے ان گمراہ دہشتگردوں کی شیطانیت سے اہل پاکستان اور پورے عالم اسلام کو خبردار،ہو شیاراور محفوظ رکھا جاسکے۔
ہمارا پاک مذہب اسلام امن و سلامتی کا پیامبر دین حق ہے جو کہ پوری انسانیت کی فلاح کا پیغام دیتا ہے اور قتل و غارت گری کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ جنگ قرار دیتا ہے۔قرآن مجید میں واضح حکم ہے کہ ’’ اور جب کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے ، اس کی سزادوزخ ہے جس میں وْہ ہمیشہ رہے گا ،اللہ تعالی کا غضب اور لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے ?النساء
4 ? ‘‘
مساجد اور اولیاء4 اللہ کے مزارات حملے کرنے والے دہشتگردوں اور ان کے تیار کردہ خود کش حملہ آوروں کے نیٹ ورک کو توڑنا اور ختم کرنا یقیناً حکومت اور قانون نافذ کرنے والے حکومتی اداروں کی اولین ذمہ داری ہے۔مگر کوئی بھی حکومت اور حکومتی ادارہ اس وقت تک دہشتگردوں کی سرکوبی نہیں کر سکتا جب تک مملکت خداد اد کے امن پسند شہری حکومتی اداروں کیساتھ تعاون نہ کریں۔اس لیے ضروری ہے کہ حکومتی اداروں کی کارکردگی بہتر بنائی جائے اور عام شہریوں کو بھی دہشتگردوں کے صفایا کے لیے سرکاری اداروں کا معاون و مددگار بنانے کے لیے ملک گیر مہم چلائی جائے۔اس کے لئے مناسب ہوگا کے حکومت نوجوان نسل کو دہشت گردوں کے نا پاک عزائم سے خبردار کرنے کے لئے تعلیمی اداروں میں خصوصی لیکچرز اور طلباء4 و طالبات کے مابین تقریری اور مضمون نویسی کے انعامی مقابلوں کا اہتمام کرے جب کہ تمام مکاتب فکر کے علماء4 کو بھی اسلام کے معاشرتی اور سماجی ضابطہ حیات کے عین مطابق امن و سلامتی کے فلسفہ کو عام کرنا چاہئے اور اسلام کے مقدس نام کی آڑ میں دہشت گردی کر نے والے جنونی عناصر اور اْن کے بیرونی آقاؤں کو بے نقاب کرنا چاہیے۔اور سادہ لوح مسلمانوں کو تلقین کرنی چاہئے کے وہ اولیاء4 اللہ کے مزارات اور مساجد پر خود کش حملے کرنے والے یہودوہنود کے ایجنٹ گروہ کا مکمل سوشل بائیکاٹ کریں۔