Posted date: June 12, 2020In: Urdu Section|comment : 0
نغمہ حبیب
پاکستان ایک پُر امن ملک ہے جسے اپنے بہت سارے مسائل سے نمٹنا ہے، اس کی سرحد پر ایک بھارت کی موجودگی ہی کافی ہے کہ اس کے امن کو داؤ پر لگائے رکھے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ بھارت صرف خود ہی نہیں بلکہ دوسرے پڑوسی ممالک کے ذریعے بھی پاکستان میں فساد برپا کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتا ہے۔ افغانستان میں اُس نے وہاں کی حکومتوں کو عرصہ دراز سے ہائی جیک کیا ہوا ہے اور جو چاہتا ہے اُن سے کراتا ہے۔ یہی حال ایران کا ہے بھارت جب چاہتا ہے اسے پاکستان کے خلاف بھڑکا دیتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ مسلمان ممالک ایک سخت اسلام دشمن بھارتی حکومت کی بات مان کر ایک مسلمان ملک کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اس کی سازشوں میں شریک ہو جاتے ہیں۔ خاص کر افغانستان کی حکومتیں مسلسل بھارت کے شکنجے میں ہیں یہاں تک کہ کئی بار افغان سرحد کے اُس پار سے فائرنگ بھی کردی جاتی ہے جبکہ ضم شدہ قبائلی علاقہ جات میں دشوار اور کٹی پھٹی سرحد کا فائدہ اٹھا کر مسلسل در اندازی کی جاتی رہی ہے اور اب بھی جب موقع ملے اسے ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔ پاکستان کو مطلوب کئی دہشت گرد زیادہ تر افغانستان میں ہی پناہ لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ افغان مہاجرین کی پاکستان میں موجودگی بھی پاکستان کے لیے کسی چیلینج سے کم نہیں کہ انہی مہاجرین کے روپ میں بڑی آسانی سے ہر قسم کے ایجنٹوں کو داخل کر دیا جاتا ہے۔ بھارت سے آنے والے کارکنوں کے بھیس میں بھی کئی جاسوسوں کو داخل کر دیا جاتا ہے۔یہ بھارتی کارکن بظاہر آئے تو افغانستان میں ترقیاتی کاموں میں حصہ لینے کے لیے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ ”را“کے مقاصد بھی پورے کر رہے ہیں اور نہ صرف افغان معاشرے میں زہر پھیلا رہے ہیں اور انہیں بھارتی مقاصد کے لیے مسلسل تیار کر رہے ہیں بلکہ انہیں پاکستان کے خلاف پاکستان کی مغربی سرحد پر ایک مضبوط فٹ ہولڈ ملا ہوا ہے جہاں سے وہ پاکستان کے خلاف سبوتاژ کی کاروائیوں میں مصروف رہتا ہے۔افغان فوج بھی کسی سے کم نہیں وہ بھی گاہے بگاہے سرحد کے اس پار کاروائیاں کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ما ضی قریب میں ایسی ہی کاروائیوں میں تین سو یلین کی جانیں جا چکی ہیں۔پی ٹی ایم جو افغانستان کی مدد سے بھارت کے مطلب ومنشاء کوپورا کرنے میں مصروف ہے نے اس واقعے پر پہلے تو خاموشی سادھ لی اور پھر علاقے کے سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو گئے اور یہ باور کرانے کی کوشش کرنے لگے کہ یہ کاروائی پاک فوج کی طرف سے کی گئی ہے اگرچہ علاقے کے عوام جانتے ہیں کہ پاک فوج نے اپنے بے شمار جوانوں کی بیش بہا قربانیاں دے کر ان کے علاقے میں امن کو بحال کیا اور زندگی خوف سے آزاد ہو کر پھر سے رواں دواں ہوئی لیکن ا س سب کچھ کے باوجود ابھی بھی کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو منفی پروپیگنڈے کی زد میں آجاتے ہیں اور ان میں زیادہ تر وہ بے خبر لوگ شامل ہیں جن تک ملکی خبریں اول تو پہنچتی نہیں ہیں اور اگر پہنچ جائیں تو تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے وہ ان کا صحیح ادراک نہیں کرسکتے۔ ایسا ہی عارف وزیر کے قتل کیس میں بھی ہوا۔ عارف وزیر کو 2مئی کو وانا میں افطار سے کچھ پہلے اس وقت گولیاں ماری گئیں جب وہ اپنی گاڑی میں اپنے گھر کے قریب پہنچ چکے تھے یہ گولیاں ایک دوسری گاڑی سے ماری گئیں اور ملزمان جائے وقوعہ سے فرار ہو گئے عارف وزیر کو اسلام آباد لایا گیا جہاں وہ زخموں سے جانبر نہ ہو سکے اور اگلے دن فوت ہو گئے۔ پی ٹی ایم نے حسب معمول اس کا الزام پاک فوج اور آئی ایس آئی پر ڈال دیا اور مقامی لوگوں میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی اس سے پہلے عارف وزیر کے والد،بھائی اور چچا جو علی وزیر کے والد تھے بھی دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہو چکے تھے۔ عارف وزیر 2018میں منظور پشتین کے ساتھ شامل ہو گئے تھے۔ عارف وزیر کے قتل کے الزام میں گلمان اور ندیم عکسر کو گرفتار بھی کیا گیا۔یقینا دہشت گردوں نے خوف پھیلانے کے لیے عارف وزیر کو اس لیے چنا کہ وہ جانتے ہیں کہ اُن کی تنظیم اصل مجرموں کو چھوڑ کر الزام حکومتی اور عسکری اداروں پر لگائے گی اوروہ بڑی آسانی سے چھوٹ جائیں گے۔وزیرستان میں ذاتی دشمنیوں کی بنا پر بھی اس طرح کی وارداتیں ہونا بعیداز قیاس نہیں تاہم حسب معمول پی ٹی ایم نے آئی ایس آئی کو اس کا ذمہ دار قرار دیا لیکن اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ اصل دشمن کو پہچانا جائے اور عوام میں شعور پیدا کیا جائے کہ قومی یکجہتی کے لیے کا م کریں اور ایسے عناصر کو نہ صرف پہچانیں بلکہ ان کے عزائم ناکام بنانے کے لیے متحد ہوں اور ان لوگوں کو جو تعلیم کی کمی اور دور دراز علاقوں میں رہنے کی وجہ سے حقائق کونہیں جانتے اور یہ معصوم لوگ جو اپنے مسائل کے ہاتھوں پریشان ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کے جھانسے میں آجاتے ہیں اور باوجود دل میں وطن کی بے انتہا محبت ہونے اور اداروں کے لیے احترام کے جذبات رکھنے کے وقتی طور پر ان لوگوں کی باتوں آجاتے ہیں اور ان کے جلسوں میں شرکت کر لیتے ہیں اور ان کے پیچھے چلنے لگتے ہیں لہٰذا ان لوگوں کو حقائق سے آگاہ رکھنے کے لیے موئثراقدامات کرنے چاہیں اور یہ اقدامات نہ صرف حکومتی سطح پر ہوں بلکہ عوامی سطح پر بھی بھر پور کوشش کرنی چاہیے اور اس بات کو یقینی بنا نا چاہیے کہ معصوم عوام کو بہکنے نہ دیا جائے تاکہ قومی یکجہتی سے ان لوگوں کو شکست دی جا سکے۔