Posted date: May 29, 2020In: Urdu Section|comment : 0
نغمہ حبیب
بین الاقوامی دشمن خفیہ ایجنسیاں پاکستان میں مسلسل مصروفِ عمل ہیں۔سی آئی اے، را،کے جی بی، خاد، موساد، این ڈی ایس، ایم آئی سکس جب جو ایجنسی جس ملک کے لیے کام کرتی رہی پاکستان ان کے لیے ہمیشہ خاص رہااور اس کی وجہ پاکستان کا خاص تزویراتی محل وقوع ہے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان لوگوں کو پاکستان کے اندر سے ایسے ضمیر فروش اور وطن فروش مل بھی جاتے ہیں جو چند ٹکوں کے عوض اپنا آپ بیچ دیتے ہیں اور وطن کا سودا کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔یہی لوگ تھے جنہوں نے 1971 میں ”را“ کے اشاروں پر ناچ کر مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا۔دکھ اس بات کا ہے کہ پھر بھی یہ لوگ آرام سے نہیں بیٹھے یہی لوگ بلوچستان میں بار بار اُٹھ کر اپنا ضمیر بیچنے لگ جاتے ہیں بھارت خود چیخ چیخ کر اقرار کر رہا ہے کہ وہ بلوچستان میں بھی وہی کرے گا جو اس نے مشرقی پاکستان میں کیا۔ اسے مشرقی پاکستان میں اپنی کامیابی کا گھمنڈ اور زعم آج تک ہے اسے کوئی شرمندگی نہیں کہ اس نے ایک دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی وہاں فساد برپا کیا اور لوگوں کا قتلِ عام کیا اور یہ کہ اُس نے اس کام کے لیے ایک پوری فوج بنائی اور اُس کی تربیت کی۔وہ یہی کام بلوچستان میں بھی کرنا چاہتا ہے لیکن الحمداللہ کہ اب تک وہ کامیابی کے قریب بھی نہیں پہنچا۔سوائے چند سرداروں اور فراریوں کے اُسے موقع نہیں ملا تاہم اِن کے ذریعے بھی وہ کئی ایک کاروائیاں کر چکا ہے۔خیبر پختونخواہ میں ضم شدہ قبائلی علاقے میں اُس نے طویل عرصے تک دہشت گردی کا کھیل کھیلا جو اب بھی کسی نہ کسی صورت جاری ہے اور اس میں منظور پشتین کی پی ٹی ایم کا اضافہ کیا گیا جس کے منہ میں دشمن کی زبان رکھ دی گئی اور اس نے پاک فوج کے خلاف زہر اُگلنا شروع کیا۔ایسے ہی کچھ لکھاری ہیں جو پاکستان کے خلاف لکھتے ہیں اور دشمن کی خوشنودی بھی کماتے ہیں اور نام بھی اور دولت کے مزے بھی لوٹتے ہیں۔اس گروہ میں وہ صحافی اور لکھاری شامل ہیں جنہوں نے نام ہی اس سے کمایا کہ پاکستان کے خلاف لکھو۔ان میں عائشہ صدیقہ اور حسین حقانی جیسے نام شامل ہیں۔ ایک گروہ وہ ہے جو پاکستان کے اداروں کے خلاف نبرد آزما رہتا ہے اور ایک گروہ وہ بھی ہے جو ملک میں فرقہ پرستی پھیلانے کو اپنے ایجنڈے میں شامل رکھتا ہے۔ایک بڑی تعداد اُن لوگوں کی بھی شامل ہے جو قوم پرستی کے نام پر صوبائیت کو ہوا دیتے رہتے ہیں اور یہی وہ خطرناک ہتھیار ہے جو 1971 میں استعمال کیا گیا اور ملک کے دو ٹکڑے ہونے کا باعث بنا۔بلوچستان میں اب بھی یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے اور غیر بلوچ آباد کاروں کو اکثر اوقات نشانہ بنایا جاتا ہے ان حملوں میں کئی کئی ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔اسی طرح کا رویہ کم شدت سے لیکن دوسرے صوبوں میں بھی پایا جاتا ہے اور کوئی نہ کوئی بنیادی انسانی حقوق کے نام پر بے چینی پھیلانے میں مصروف ہوتا رہتا ہے۔ابھی حال ہی میں عرفانہ ملھ جو سندھ یونیورسٹی میں کیمسٹری کی پروفیسر ہیں نے ایک انوکھی تجویز پیش کی ہے کہ سندھ میں غیر سندھی گروہوں کے تجارت کرنے پر ٹیکس لگایا جائے۔ یہ محترمہ کیمسٹری کی پروفیسری کے ساتھ ساتھ کچھ اضافی ذمہ داریاں بھی سر انجام دے رہی ہیں ایک تو یہ کہ اپنی پروفیسر ایسوسی ایشن کی پچھلے دس سال سے صدر ہیں اور دوسرے بہت سارے لوگوں کی طرح خود کو انسانی حقوق کی علمبردار کہتی ہیں۔انسانی حقوق کے لیے کام کرنا بُرا نہیں مگر ہمارے ہاں انسانی حقوق کی علمبرداری سے مراد ملک اور ریاست مخالف نعرے لگانا اور گفتگو کرنا ہی لیا جاتا ہے اور دوسری بات یہ کہ اگر وہ انسانی حقوق کی علمبردای کا دعویٰ کرتی بھی ہیں تو پھر انہیں صوبائی تعصب کی بات تو بالکل نہیں کرنی چاہیے جبکہ وہ ایک ہی ملک کے اندر تقسیم کی بات کر رہی ہیں یعنی یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک ہی کاروبار چار بھائیوں کے درمیان ہو اور وہ ایک دوسرے پر ٹیکس لگائیں۔ شاید محترمہ خود بھی نہیں جانتی کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں یا اُن کے خیال میں کوئی سندھی سندھ سے باہر کاروبار نہیں کر رہا اور اگر سندھ میں غیر سندھی پر اضافی ٹیکس لگے گا تو سندھیوں پر سندھ سے باہر کیسے ٹیکس نہیں لگے گا۔ ان محترمہ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ پاکستان ایک اکائی ہے ایک ملک ہے اور ایک ہی ملک میں رہنے والے چاہے ملک کے جس کونے میں بھی رہتے ہوں پورے ملک میں اُن پر ایک ہی قانون لاگو ہوتا ہے اور ان کے حقوق پورے ملک میں ایک ہی جیسے ہوتے ہیں لہٰذا ان کا مطالبہ انتہا ئی احمقانہ بلکہ نامعقول ہے۔ ان جیسے لوگ اگر جو منہ میں آئے اُسے نکالنے سے پہلے سوچ لیا کریں تو اپنی عزت بچا سکتے ہیں۔ اگرچہ محترمہ عرفانہ کوئی بہت خاص شخصیت نہیں جو کوئی بڑا انقلاب برپاکر سکتی ہیں تاہم یہ ضرور ہے کہ یہ لوگ جب ایک بات شروع کرتے ہیں اسے آگے بڑھا سکتے ہیں لیکن کسی کو عرفانہ بی بی کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ اگر وہ اپنے پیشے پر توجہ دیں اور تعلیم کے شعبے میں کوئی انقلاب برپا کر سکیں تو زیادہ عزت کما سکیں گی۔ پاکستان میں بالعموم اور سندھ میں بالخصوص تعلیم کی ترقی کے لیے کام کریں تو زیادہ عزت پائیں گی۔ انہیں یہ بھی سمجھانا ضروری ہے کہ اگر اپنے ہی پیشے میں نام کما لیا جائے تو بھی بڑی عزت کی بات ہے اور تعلیم ایسا شعبہ زندگی ہے کہ اگر آپ نے یہاں ایمانداری سے کا م کر لیا تو آپ نے پوری قوم بنادی اور قوم بنانے کا موقعہ نصیب والوں کو ہی ملتا ہے لہٰذا اس طرف توجہ دیجیے اور خوب عزت کمایئے۔