میڈیا کی آزادی پر یقین۔ پاکستان کی سلامتی کے تحفظ پر ایمان
سیّد ناصررضا کاظمی
پاکستانی فو ج پر غیر ملکی مصنفوں میں ’اسٹیون پی کوہن ‘کی کتاب ’پاکستان آرمی، تاریخ وتنظیم ‘ نہایت معمولی سے تحفظات سے قابل نظر دستاویز قرار دی جاسکتی ہے، اپنے پیش لفظ میں مصنف نے تسلیم کیا کہ ’یہ کتاب لکھنے میں تین مقاصد میرے پیشِ نظر رہے، اوّلین پاکستان کی فوج بالخصوص آرمی اور آرمی کے اندر افسر کور کا تذکرہ کرنا ہے‘ پاکستان آرمی افسر کور ناصرف دفاعی پالیسی میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے بلکہ پاکستان کی سیاست میں بھی اِس کی مرکزی حیثیت رہی ہے کتاب کا ایک بنیادی نکتہ یہ بھی ہے کہ افسر کور سے کچھ نہ کچھ آگاہی کے بغیر‘ پاکستانی سیاست کو سمجھا نہیں جاسکتا ‘مصنف کے درج ذیل تینوں ’مقاصد ‘ کا تفصیلاً تذکرے کا یہ کالم متحمل نہیں ہوسکتا، جگہ کی قلت کی وجہ سے ‘ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے مذکورہ بالا کتاب 80 کے عشرے میں شائع ہوئی پاکستانی فوج کے تنظیمی ڈھانچے کو سمجھنے کے لئے ‘ پاکستان کی قومی سلامتی کی بنیادی جغرافیائی ضرورت کو حقائق کی نظر سے دیکھنے کے لئے اِس کتاب کا اُن حلقوں کو گہر امطالعہ ضرور کرنا ہوگا ،جو گاہے بہ گاہے پاکستانی فوج کو پاکستانی سیاسست میں ملوث ہونے کا طعنہ دیتے ہوئے نجانے یہ نکتہ کیوں فراموش کردیتے ہیں کہ اپنے قیام سے آج تک پاکستان کی قومی سیاست پر پاکستانی نظرئیے پر پختہ یقین و ارادہ رکھنے والی سیاسی بصیرت سے لیس قومی سیاست دان ہمیشہ کمزور نظرآئے ہیں ایک یہ بات ‘ دوسری یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو وہ پہلی قومی سیاسی شخصیت ضرور تھے، جنہوں نے پاکستان میں جمہوریت کا راستہ دکھایا مگر کچھ حلقے بھول جاتے ہیں اُنہوں نے بھی اپنے عروجِ اقتدار میں پاکستان کے اندر سیاسی نموپذیری کو فروغ دینے سے پہلو تہی کی تھی، لوکل باڈیز کے الیکشن نہیں کروائے، جمہوری سیاست کی اصل وجوہ کو پروان چڑھائے بغیر ملک کیسے کیونکر جمہوریت کی راہ پر گامزن ہو پا تا؟ ہاں! جنرل ضیاء اور جنرل مشر ف نے ضرور لوکل باڈیز کے الیکشن کروائے مگر اُن کے اِن اقدامات کے پس منظر میں اپنے اقتدار کو طول دینے کی اُن کی غرض کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہوگی؟ ماضی میں دوباربے نظیر بھٹو ایک بار آصف علی زرداری میں اقتدار میں رہے اب تیسری بار نواز شریف اقتدار میں ہیں، سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود اب تک دور دور تک لوکل باڈیز کے الیکشن نظر نہیں آرہے، شائد یہ وجہ ہو ’اسٹیون پی کوہن ‘ کی نظر میں جیسا وہ لکھتا ہے کہ ’پاکستان کی سیاست میں بھی پاکستان آرمی کی مرکزی حیثیت ہے ؟‘ جب جب بھی جمہوری حکمرانوں کو اقتدار ملا اِنہیں کوئی توقف کیئے بغیر اقتدار کے منبع کے فوائد فی الفور عوامی نمائندوں کے دروازوں تک پہنچادینے چاہیئے تھے جو نہ پہنچائے گئے اِسی متذکرہ بالا کتاب کے باب ہشتم ’ آرمی ،حکمت عملی اور بقاء ‘ کے عنوان میں مصنف نے اُس وقت کے ایک ریٹائرڈ فوجی جنرل کا یہ ’تاریخی‘ جملہ ابتدائی تحریر کیا ہے’ پاکستان کو سہ محاذی جنگ لڑنی ہے پہلے بھارتی ہیں جو ہمارے وجود کو برداشت نہیں کرسکتے پھر’روسی‘ غیر ملکی ‘ وہ بھی ہمیں راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں، آخر میں تیسرا محاذ ‘ ملک کے اندر وہ ’لوگ‘ جو ہمیں داخلی طور پر تباہ کردینا چاہتے ہیں ‘ یہ کس ریٹائرڈ جنرل کا مکالمہ ہے نام نہیں لکھا گیا، ذرا ٹھہریں اور غور فرمائیں یہ کون سا عرصہ ہے،80 کے عشرے میں جب پاکستان کو صرف بیرونی خطرات ضرور تھے صاف نظر آرہے تھے، افغانستان میں روسی افواج کی دراندازی کے خلاف آئی ایس آئی کی جارحانہ دفاعی جنگ جاری تھی، لیکن ملک کے اندرونی امن وامان کو کہیں سے کوئی خطرہ نہیں تھا اکا دکافرقہ ورانہ فسادات کے علاوہ کسی قسم کی جنونی دہشت گردی کا کوئی خطرہ درپیش نہیں تھا ،30-35 برس قبل اُس پاکستانی ریٹائرڈ جنرل پر یہ ’الہام ‘ کیسے ہوگیا کہ پاکستانی فوج کے خلاف مستقبل میں’ اندرونی محاذ آرائی‘ بھی ابھرسکتی ہے ؟ دیکھا کہ آج کی پاکستانی فوج بیرونی سرحدوں پر مصروفِ عمل ہے اندرونی سنگین خطرات سے بھی فوج کو ’محتاط ‘ طور پر نمٹنا پڑرہا ہے، جی ہاں! یہ نہ بھولیئے کہ ملک اُس وقت ایٹمی قوت نہیں تھا ایٹمی ڈیٹرنس سے لیس ہوجانے کے بعد اب ہمیں چوکنا رہنا ہوگا عراق‘ لیبیا ‘ شام اور اب کہیں جاکر ایران کے ساتھ مسلم دشمن عالمی قوتیں جو بہیمانہ کھیل کھیل چکیں یا ایران وشام کے ساتھ یہ کھیل اب بھی جاری ہے اِن سے پاکستان کو کیا توقعات رکھنی چاہئیں ؟ مغربی اور امریکی تھنک ٹینکس نے ایران کو اپنی مٹھی میں لینے کے لئے اپنے سامراجی ہتھکنڈے کیا تہران کے مقتدر ایوانوں تک پہنچا نہیں دئیے ؟ ایسے ہی سوالات ہیں فی زمانہ پاکستانی فوج کے سامنے ‘ دنیا کو یہ ہی بات ہضم نہیں ہورہی’کیا مزید پاکستانی فوج کو منظم و متحد کرنے اِسے عسکری پیشہ ورانہ امور میں مضبوط ہونے کا موقع فراہم کیا جائے ؟‘ پاکستان کی منظم ‘ پیشہ ورانہ مہارت میں طاق دنیا کی بہترین متحرک فوج ‘ نے موجودہ صورتحال کو اپنے ماضی کے حقائق کی آزمودہ سبق آموز تاریخ کی روشنی میں پوری فہم وادراک کو بروئے کار لا کر گزشتہ چھ سات برسوں میں ایک دوٹوک اور غیر متزلزل فیصلہ کیا اب وہ کس قسم کی غیر ضروری سیاسی مہم جوئی کرنے کا نہ کل ارادہ رکھتی تھی اور یہ کیوں نہیں ہوسکتا نہ آئندہ کبھی وہ ایسا سوچے تک نہیں ‘ ملک کا سسٹم جمہوریت کی پٹرھی پر چل پڑا ہے انشاء اللہ جمہوریت کا سفر نہیں رکے گا، ملک کی اعلیٰ عدلیہ آزادانہ فیصلے کررہی ہیں جس سے ہماری پارلیمنٹ پر مستحکم دیرپا مثبت اثرات مرتب ہونگے جہاں تک آزاد میڈیا کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کاتعلق ہے اِنہیں ملک کی آئینی نکات کی حدود میں خود میڈیا کے ذمہ داروں کو اُصول وضوابط بنانے کی اشد ضرورت ہے دنیا کا کوئی بھی ذمہ دار میڈیا بحرانوں کے بل بوتوں پر زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا وفاقی وزیر داخلہ نثار احمد خا ن اور وفاقی وزیرِ اطلاعات ونشریات پرویز رشید کے بیانات سے کسی قسم کے منفی تضادات کی آڑ لے کر نہ حکومتی کابینہ پر نکتہ چینی کی جائے اور نہ ہی وزیر اعظم نواز شریف کے کراچی کے ہسپتال میں زیر علاج زخمی صحافی حامد میر کی صحتیابی کی تفصیلات معلوم کر نے لینے پر ’بچگانہ قسم ‘ کی قیاس آرائیاں کی جائیں جنرل راحیل شریف نے ِٗ آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر کا دورہ کیا تو نجی میڈیا کے کچھ حلقوں نے اِس میں سے منفی تاثر کیوں لیا ؟ ’ میڈیا ‘ حکومت اور قومی سلامتی کے اداروں کے مابین غلط فہمیوں پر مبنی ہمیشہ ’ناقابلِ حل بحرانوں ‘ کے پیدا کرنے کا یہ گھٹیا سلسلہ کب اپنی موت آپ مرئے گا؟ پہلی بات تو اپنی جگہ بالکل صحیح کہ ٹی وی اینکرپرسزاور صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے وزیر اعظم نے اِس حملہ کی شفاف تحقیقات کی تہہ تک پہنچنے کے لئے اعلیٰ عدلیہ کے ججز پر مشتمل خصوصی بنچ تشکیل دیا سب سے پہلے فوج نے اِ س کا خیر مقدم کیا ، مگر اِس تلخ حقائق کو بھی مانیں جب سے الیکٹرونک میڈیا کو ’نیوز چینل چلانے کی کھلی آزادی ملی، کچھ جنونی مہم پسندوں نوجوانوں کی ایک کھیپ ’صحافیوں ‘ کی شکل میں یکدم مشروم کی مانند اب تناور درخت بن گئی ہے کسی کو یہ توقع نہیں تھی ‘ حامد میر اور طلعت حسین‘ ناصر بیگ چغتائی ‘ مجاہد بریلوی‘ نوائے وقت اسلام آباد کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر جاوید صدیق‘ پی ایف یو جے کے سابق صدر پرویز شوکت ‘ ایاز میر ‘ کامران خان ‘ سلیم بخاری سمیت کئی اور ایسے معزز صحافی جو مختلف ٹی وی ٹاک شو کی میزبانی کرتے ہیں اِن سب کو یہ استثناٰ حاصل ہے یہ شخصیات الیکٹرونک میڈیا کی آزادی سے قبل خالص پیشہ رو انہ صحافتی کارکردگی کی وجہ سے اپنا ایک خاص مقام کل بھی رکھتے تھے آج بھی تسلیم کیئے جاتے ہیں اِن سب نامور صحافیوں کو قومی اداروں سمیت خصوصاً عسکری و سول خفیہ اداروں کو ’قابو‘ کرنے یا اُنہیں ’نیچا ‘ دکھانے یا اُنہیں بلاوجہ ’پوائنٹ آؤٹ ‘ کرنے جیسی لاحاصل بحث کا حصہ بنانے پر اب ا پنا ایک ایسا اُصول اپنانا ہوگا تاکہ دنیا میں پاکستان جیسے اہم اسلامی ایٹمی ملک کا کوئی تماشا نہ بناسکے۔
پاکستانی فو ج پر غیر ملکی مصنفوں میں ’اسٹیون پی کوہن ‘کی کتاب ’پاکستان آرمی، تاریخ وتنظیم ‘ نہایت معمولی سے تحفظات سے قابل نظر دستاویز قرار دی جاسکتی ہے، اپنے پیش لفظ میں مصنف نے تسلیم کیا کہ ’یہ کتاب لکھنے میں تین مقاصد میرے پیشِ نظر رہے، اوّلین پاکستان کی فوج بالخصوص آرمی اور آرمی کے اندر افسر کور کا تذکرہ کرنا ہے‘ پاکستان آرمی افسر کور ناصرف دفاعی پالیسی میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے بلکہ پاکستان کی سیاست میں بھی اِس کی مرکزی حیثیت رہی ہے کتاب کا ایک بنیادی نکتہ یہ بھی ہے کہ افسر کور سے کچھ نہ کچھ آگاہی کے بغیر‘ پاکستانی سیاست کو سمجھا نہیں جاسکتا ‘مصنف کے درج ذیل تینوں ’مقاصد ‘ کا تفصیلاً تذکرے کا یہ کالم متحمل نہیں ہوسکتا، جگہ کی قلت کی وجہ سے ‘ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے مذکورہ بالا کتاب 80 کے عشرے میں شائع ہوئی پاکستانی فوج کے تنظیمی ڈھانچے کو سمجھنے کے لئے ‘ پاکستان کی قومی سلامتی کی بنیادی جغرافیائی ضرورت کو حقائق کی نظر سے دیکھنے کے لئے اِس کتاب کا اُن حلقوں کو گہر امطالعہ ضرور کرنا ہوگا ،جو گاہے بہ گاہے پاکستانی فوج کو پاکستانی سیاسست میں ملوث ہونے کا طعنہ دیتے ہوئے نجانے یہ نکتہ کیوں فراموش کردیتے ہیں کہ اپنے قیام سے آج تک پاکستان کی قومی سیاست پر پاکستانی نظرئیے پر پختہ یقین و ارادہ رکھنے والی سیاسی بصیرت سے لیس قومی سیاست دان ہمیشہ کمزور نظرآئے ہیں ایک یہ بات ‘ دوسری یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو وہ پہلی قومی سیاسی شخصیت ضرور تھے، جنہوں نے پاکستان میں جمہوریت کا راستہ دکھایا مگر کچھ حلقے بھول جاتے ہیں اُنہوں نے بھی اپنے عروجِ اقتدار میں پاکستان کے اندر سیاسی نموپذیری کو فروغ دینے سے پہلو تہی کی تھی، لوکل باڈیز کے الیکشن نہیں کروائے، جمہوری سیاست کی اصل وجوہ کو پروان چڑھائے بغیر ملک کیسے کیونکر جمہوریت کی راہ پر گامزن ہو پا تا؟ ہاں! جنرل ضیاء اور جنرل مشر ف نے ضرور لوکل باڈیز کے الیکشن کروائے مگر اُن کے اِن اقدامات کے پس منظر میں اپنے اقتدار کو طول دینے کی اُن کی غرض کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہوگی؟ ماضی میں دوباربے نظیر بھٹو ایک بار آصف علی زرداری میں اقتدار میں رہے اب تیسری بار نواز شریف اقتدار میں ہیں، سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود اب تک دور دور تک لوکل باڈیز کے الیکشن نظر نہیں آرہے، شائد یہ وجہ ہو ’اسٹیون پی کوہن ‘ کی نظر میں جیسا وہ لکھتا ہے کہ ’پاکستان کی سیاست میں بھی پاکستان آرمی کی مرکزی حیثیت ہے ؟‘ جب جب بھی جمہوری حکمرانوں کو اقتدار ملا اِنہیں کوئی توقف کیئے بغیر اقتدار کے منبع کے فوائد فی الفور عوامی نمائندوں کے دروازوں تک پہنچادینے چاہیئے تھے جو نہ پہنچائے گئے اِسی متذکرہ بالا کتاب کے باب ہشتم ’ آرمی ،حکمت عملی اور بقاء ‘ کے عنوان میں مصنف نے اُس وقت کے ایک ریٹائرڈ فوجی جنرل کا یہ ’تاریخی‘ جملہ ابتدائی تحریر کیا ہے’ پاکستان کو سہ محاذی جنگ لڑنی ہے پہلے بھارتی ہیں جو ہمارے وجود کو برداشت نہیں کرسکتے پھر’روسی‘ غیر ملکی ‘ وہ بھی ہمیں راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں، آخر میں تیسرا محاذ ‘ ملک کے اندر وہ ’لوگ‘ جو ہمیں داخلی طور پر تباہ کردینا چاہتے ہیں ‘ یہ کس ریٹائرڈ جنرل کا مکالمہ ہے نام نہیں لکھا گیا، ذرا ٹھہریں اور غور فرمائیں یہ کون سا عرصہ ہے،80 کے عشرے میں جب پاکستان کو صرف بیرونی خطرات ضرور تھے صاف نظر آرہے تھے، افغانستان میں روسی افواج کی دراندازی کے خلاف آئی ایس آئی کی جارحانہ دفاعی جنگ جاری تھی، لیکن ملک کے اندرونی امن وامان کو کہیں سے کوئی خطرہ نہیں تھا اکا دکافرقہ ورانہ فسادات کے علاوہ کسی قسم کی جنونی دہشت گردی کا کوئی خطرہ درپیش نہیں تھا ،30-35 برس قبل اُس پاکستانی ریٹائرڈ جنرل پر یہ ’الہام ‘ کیسے ہوگیا کہ پاکستانی فوج کے خلاف مستقبل میں’ اندرونی محاذ آرائی‘ بھی ابھرسکتی ہے ؟ دیکھا کہ آج کی پاکستانی فوج بیرونی سرحدوں پر مصروفِ عمل ہے اندرونی سنگین خطرات سے بھی فوج کو ’محتاط ‘ طور پر نمٹنا پڑرہا ہے، جی ہاں! یہ نہ بھولیئے کہ ملک اُس وقت ایٹمی قوت نہیں تھا ایٹمی ڈیٹرنس سے لیس ہوجانے کے بعد اب ہمیں چوکنا رہنا ہوگا عراق‘ لیبیا ‘ شام اور اب کہیں جاکر ایران کے ساتھ مسلم دشمن عالمی قوتیں جو بہیمانہ کھیل کھیل چکیں یا ایران وشام کے ساتھ یہ کھیل اب بھی جاری ہے اِن سے پاکستان کو کیا توقعات رکھنی چاہئیں ؟ مغربی اور امریکی تھنک ٹینکس نے ایران کو اپنی مٹھی میں لینے کے لئے اپنے سامراجی ہتھکنڈے کیا تہران کے مقتدر ایوانوں تک پہنچا نہیں دئیے ؟ ایسے ہی سوالات ہیں فی زمانہ پاکستانی فوج کے سامنے ‘ دنیا کو یہ ہی بات ہضم نہیں ہورہی’کیا مزید پاکستانی فوج کو منظم و متحد کرنے اِسے عسکری پیشہ ورانہ امور میں مضبوط ہونے کا موقع فراہم کیا جائے ؟‘ پاکستان کی منظم ‘ پیشہ ورانہ مہارت میں طاق دنیا کی بہترین متحرک فوج ‘ نے موجودہ صورتحال کو اپنے ماضی کے حقائق کی آزمودہ سبق آموز تاریخ کی روشنی میں پوری فہم وادراک کو بروئے کار لا کر گزشتہ چھ سات برسوں میں ایک دوٹوک اور غیر متزلزل فیصلہ کیا اب وہ کس قسم کی غیر ضروری سیاسی مہم جوئی کرنے کا نہ کل ارادہ رکھتی تھی اور یہ کیوں نہیں ہوسکتا نہ آئندہ کبھی وہ ایسا سوچے تک نہیں ‘ ملک کا سسٹم جمہوریت کی پٹرھی پر چل پڑا ہے انشاء اللہ جمہوریت کا سفر نہیں رکے گا، ملک کی اعلیٰ عدلیہ آزادانہ فیصلے کررہی ہیں جس سے ہماری پارلیمنٹ پر مستحکم دیرپا مثبت اثرات مرتب ہونگے جہاں تک آزاد میڈیا کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کاتعلق ہے اِنہیں ملک کی آئینی نکات کی حدود میں خود میڈیا کے ذمہ داروں کو اُصول وضوابط بنانے کی اشد ضرورت ہے دنیا کا کوئی بھی ذمہ دار میڈیا بحرانوں کے بل بوتوں پر زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا وفاقی وزیر داخلہ نثار احمد خا ن اور وفاقی وزیرِ اطلاعات ونشریات پرویز رشید کے بیانات سے کسی قسم کے منفی تضادات کی آڑ لے کر نہ حکومتی کابینہ پر نکتہ چینی کی جائے اور نہ ہی وزیر اعظم نواز شریف کے کراچی کے ہسپتال میں زیر علاج زخمی صحافی حامد میر کی صحتیابی کی تفصیلات معلوم کر نے لینے پر ’بچگانہ قسم ‘ کی قیاس آرائیاں کی جائیں جنرل راحیل شریف نے ِٗ آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر کا دورہ کیا تو نجی میڈیا کے کچھ حلقوں نے اِس میں سے منفی تاثر کیوں لیا ؟ ’ میڈیا ‘ حکومت اور قومی سلامتی کے اداروں کے مابین غلط فہمیوں پر مبنی ہمیشہ ’ناقابلِ حل بحرانوں ‘ کے پیدا کرنے کا یہ گھٹیا سلسلہ کب اپنی موت آپ مرئے گا؟ پہلی بات تو اپنی جگہ بالکل صحیح کہ ٹی وی اینکرپرسزاور صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے وزیر اعظم نے اِس حملہ کی شفاف تحقیقات کی تہہ تک پہنچنے کے لئے اعلیٰ عدلیہ کے ججز پر مشتمل خصوصی بنچ تشکیل دیا سب سے پہلے فوج نے اِ س کا خیر مقدم کیا ، مگر اِس تلخ حقائق کو بھی مانیں جب سے الیکٹرونک میڈیا کو ’نیوز چینل چلانے کی کھلی آزادی ملی، کچھ جنونی مہم پسندوں نوجوانوں کی ایک کھیپ ’صحافیوں ‘ کی شکل میں یکدم مشروم کی مانند اب تناور درخت بن گئی ہے کسی کو یہ توقع نہیں تھی ‘ حامد میر اور طلعت حسین‘ ناصر بیگ چغتائی ‘ مجاہد بریلوی‘ نوائے وقت اسلام آباد کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر جاوید صدیق‘ پی ایف یو جے کے سابق صدر پرویز شوکت ‘ ایاز میر ‘ کامران خان ‘ سلیم بخاری سمیت کئی اور ایسے معزز صحافی جو مختلف ٹی وی ٹاک شو کی میزبانی کرتے ہیں اِن سب کو یہ استثناٰ حاصل ہے یہ شخصیات الیکٹرونک میڈیا کی آزادی سے قبل خالص پیشہ رو انہ صحافتی کارکردگی کی وجہ سے اپنا ایک خاص مقام کل بھی رکھتے تھے آج بھی تسلیم کیئے جاتے ہیں اِن سب نامور صحافیوں کو قومی اداروں سمیت خصوصاً عسکری و سول خفیہ اداروں کو ’قابو‘ کرنے یا اُنہیں ’نیچا ‘ دکھانے یا اُنہیں بلاوجہ ’پوائنٹ آؤٹ ‘ کرنے جیسی لاحاصل بحث کا حصہ بنانے پر اب ا پنا ایک ایسا اُصول اپنانا ہوگا تاکہ دنیا میں پاکستان جیسے اہم اسلامی ایٹمی ملک کا کوئی تماشا نہ بناسکے۔