تین کے نام سے متعارف کرایا گیا ہے۔جب امن کا زمانہ آیا جنگ ختم ہوئی تو اِن کا احتجاج شروع ہواکیونکہ دشمن کو یہ امن ایک آنکھ نہیں بھا رہاکہ اُس کی تمام تر کوششوں کے باوجوداُس کے منصوبے ناکام بنا دیے گئے ، اِس قوم اور اس کی افواج نے دشمن کو شکست دی اور اپنے آپ کو اِن کے وار سے محفوظ کیا ۔یہی بات نہ امریکہ سے ہضم ہو رہی ہے کہ ایک اسلامی ایٹمی قوت نے اپنی اندرونی شورش پر قابو پا لیاہے نہ ہی بھارت کو یہ امن گواراہے کہ اُس نے کروڑوں اربوں روپے اِس بدامنی پر خرچ کیے پاکستان میں قتل و غارت گری پر اپنی تمام تر قوتیں صرف کیں اور آخر میں اُسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اوریہی حال جب اسرا ئیلی منصوبوں کا ہواتو اِن تمام قوتوں نے اپنے خزانوں کے منہ ایک نوجوان لڑکے کو لیڈر بنانے پر کھول دیے کچھ اطلاعات کے مطابق پشتین کو امریکہ سے کروڑوں روپے دیے گئے اور اُس نے اپنا سودا کر لیا۔اطلاعات یہ بھی ہیں کہ اِس گروپ کے چند نوجوان لڑکے لڑکیوں کو اسرائیل کا دورہ بھی کرایا گیا،سیر کی غرض سے نہیں بلکہ ظاہر ہے انہیں نوازنے کی غرض سے اور اپنے لیے استعمال کرنے کی غرض سے۔منظور نہ تو کوئی لیڈر ہے اور نہ ہی کسی فہم و فراست کا مالک وہ بیچارہ صرف ایک مہرے کے طور پر استعمال ہورہا ہے لیکن انٹر نیشنل میڈیا نے اُسے ایک ہوا بنا کر پیش کر دیا، سستی شہرت اور لیڈری کے شوقین کچی ذہنیت کے کچھ لوگ اُس کے پیچھے چل پڑے، اس کے جلسے منعقد کروائے گئے اورپھر اُسے میڈیا کوریج دی گئی اس کی ٹوپی کو ہی جناح کیپ بنانے کی کوشش کی گئی اس کو غیر مسلح جد وجہد کا حامی بتایا گیا لیکن اس بات کو نظر انداز کیا گیا کہ یہی غیر مسلح شخص ہر جلسے اور پورے پاکستان میں ریاست اور مسلح افواج کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا پھر رہا ہے اور محمود خان اچکزئی اور اسفندیار ولی جیسے خود کو پختونوں کے حقوق کے علمبردار کہنے وا لے سیاستدان مسلسل اُس کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں یعنی جو کام اُن سے نہ ہو سکا وہ اُس سے لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔