نائجیریا میں طالبات کا اغواء اور تحریک طالبان کی منفی سوچ
نائجیریا میں طالبات کا اغواء اور تحریک طالبان کی منفی سوچ
القاعدہ نے جس بے راہ روی کی بنیاد اسلام اور جہاد کے نام پر ڈالی تھی اس میں ایک بھیانک باب کا اضافہ ہوا ہے ۔ القاعدہ کی ایک حریف دہشت گرد گروہ بوکو حرام نے نائیجیریا میں 275 نوجوان لڑکیوں کو ان کے اسکول کے ہاسٹل سے اغواء کر لیاہے۔ یہ واقعہ 15 اپریل کو نائیجیریا کی ریاست بونو میں عمل پذیر آیا تھا۔ بوکو حرام کے رہنماابوبکر شاکہو نے ایک ویڈیو پروگرام میں اعلان کیا ہے کہ ان لڑکیوں کو فروخت کیا جائے گا مگر بین الاقوامی میڈیا سے خبریں آ رہی ہیں کہ ان لڑکیوں کی زبردستی بوکوحرام کے اہلکاروں سے شادیاں کرائی جا رہی ہیں۔ دونوں صورتوں میں یہ واقعہ اندہوناک ہے اور انسان اور اسلامی اقدار کے مطابق نہایت گری ہوئی حرکت ہے۔ ہمیں تحریک طالبان سے بھی اسی قسم کی شرمناک اقدام کی توقع رکھنی چاہئیے جو پاکستان میں القاعدہ کا بڑا حامی گروہ ہے اور لڑکیوں کی تعلیم کہ ضمن میں پہلے بھی اس کا کردار منفی رہا ہے۔
القاعدہ نے اپنے حامی اور حلیف گروہوں کے ذریعے سے دنیا بھر میں دہشتگردانہ اودھم مچا رکھا ہے اس تنظیم کی کاروائیوں بالخصوص خودکش حملوں کی ہرمسلمان عالم اور مفتی نے مذمت کر رکھی ہے۔ دنیا بھر سے جید علماء نے اس تنظیم اور اس کے غیر اسلامی ہتھکنڈوں کے رد میں فتوے جاری کر رکھے ہیں مگر القاعدہ اور اس کے حلیف دہشت گرد گروہ کی سرکشی میں کوئی کمی نہیں آرہی۔ بلکہ اس کے رہنما نت نئی سازشوں اور جرائم کے ذریعے سے دنیا بھر کے مسلمانوں کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ بوکوحرام کے اس اقدام سے اسلام ایک بار پھر اپنوں اور غیروں کی بےجا تنقید کا نشانہ بن رہا ہے۔ بلاشبہ اسکول کی طالبات کا اغوا ءہر پہلوسے ایک جرم ہے جو اسلام کی روح سےبغاوت ہے۔ مگر بوکو حرام کے رہنما بے بنیاد دلیلوں سے اپنےاس جرم کو جائز قرار دے رہے ہیں۔
یہ صورت حال ہر درد مند مسلمان کے لئیے تکلیف دہ ہے اور ان سب کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے جن لوگوں نے القاعدہ اور اس کے حامی گروہوں کی اندھی تقلید اختیار کر رکھی ہے ۔ ان دہشت گرد گروہوں نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہےکہ انہیں نہ تو اسلام سے کوئی تعلق ہے اور نہ وہ مسلمانوں کی بھلائی سے کسی قسم کی غرض رکھتے ہیں۔ وہ محض اسلام دشمن قوتوں کی ایماء پر اسلام کے دامن کو اپنے غیر انسانی جرائم سے داغدار کررہے ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان القاعدہ کے اسی گھناؤنے منصوبے کو پائے تکمیل تک پہنچا رہی ہے۔ مسلمان عورتوں اور لڑکیوں کی بھلائی اس کے اہلکاروں کو ذرابھی نہیں بھاتی۔ اس کے منفی کردار کی عکاسی اس کے دہشتگردانہ پیغامات سے بخوبی ہوتی ہے۔ مسلمان عورتوں اور لڑکیوں کے خلاف زہر اگلنا اس کے ترجمانوں کی نمایاں خصوصیت ہے۔ بلخصوص لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت میں تو یہ گروہ حد سے بڑھا ہوا ہے۔ خیبر پختون خواہ اور قبائلی علاقوں میں لڑکیوں کے اسکول پر حملے کر کے تحریک طالبان نے ان پر تعلیم کی راہیں بند کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ عورتوں کو بات بے بات سنگین نتائج کی دھمکیاں دینا بھی اس گروہ کے رہنماؤں اور ترجمانوں نے اپنا وطیرا بنا رکھا ہے۔
یقیناً یہ صورت حال ہماری ساری قوم کی فکر مندی کا باعث ہے اور تقاضا کرتی ہے کہ ہم اپنی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کے تحفظ کے لئیے ضروری اقدامات لیں۔ بعض صحافیوں کا خیال ہے کہ تحریک طالبان کی قیادت نے سوات میں زبردستی کی شادیوں کی سرپرستی کی تھی۔ تاہم اس گروہ کا ملالہ یوسف زئی سے سلوک نے اس کے حد سے بڑھے ہوئے شرمناک کردار کا پول دنیا بھر میں کھولا۔ اگر ہم نے بوکو حرام کے ہاتھوں نائیجیریا کی لڑکیوں سے ہونے والے ظلم سے اپنی بچیوں اور عورتوں کو بچانا ہے تو ہمیں تحریک طالبان جیسی القاعدہ کی حامی گروہوں سے مکمل نجات حاصل کرنی ہوگی۔ اس ضمن میں سب سے پہلے قبائلی علاقے کے افراد کو سامنے آنا ہو گا۔ ہم مزید تاخیر اور تذبذب کہ متحمل نہیں ہو سکتے۔