Posted date: September 10, 2015In: Urdu Section|comment : 0
ناصررضا کاظمی
حکمرانوں کی عالمی تاریخ کا ایک سرسری ساجائزہ لے لیں، چاہے وہ کسی عہد کی تاریخ ہو حکمران چاہے کسی زمانے کا ہو عالمِ انسانیت نے جب سے متمد ن عہد میں قدم رکھا دنیا کی کسی بھی قوم پر بدقسمتی سے یا کسی حادثاتی نتیجے میں کسی قوم یا کسی ملک پر کوئی رزیل‘کم اصل ‘ کمینی صفت‘پست ہمت ‘پست ذہنیت یا پھر کم فہم یا نا فہم اور متعصب شخص نے حکومتی امور میں اپنے لئے کوئی اہم عہدہ حاصل کرلیا یا آڑی ترچھی سازشوں کے میل ملاپ سے منصوبے بناکر حکامِ اعلیٰ کے مقربین میں وہ اپنی جگہ بنالینے کی مقصد میں کامیاب رہا اور پھر موقع پاتے ہی شیطان نما صفتوں کا حامل یہ شخص اتفاقاً ملک کے فیصلہ ساز وں کی صفوں میں بھی جا بیٹھا ملک وقوم کے اہم فیصلوں کا وہ مختارِ کُل بن گیا تاریخ دیکھ لیں، ایسے کم ظرف ‘نااہل ‘ نالائق ‘ متعصب ‘ انسان دشمن ‘امن دشمن ہمہ وقت ذاتی بغض وعناد کے زہر یلے گھناونے خیالات رکھنے والوں نے اپنے زیر اثر ملکوں اور قوموں کی کیسی ’کایا ‘ پلٹی ایسے سماجوں اور معاشروں کی کوئی ایک چیز بھی اپنی جگہ نہیں رہی کس کس کانام لیں شیطان صفت ایسے حکمرانوں نے دنیا کے ہر زمانے میں انسانوں کے خون کی ہولیاں کھلیں انسانیت کو بے دریغ لہولہان کرتے رہے ماضی بعید اور ماضی قریب کے شریف النفس ‘معتدل مزاج ‘وفاداری میں افضل اور عدل و انصاف میں بے مثال شہرت رکھنے والے حکمران چاہے مسلمان ہوں یا غیر مسلم، تاریخ نے جہاں اُن کا تذکرہ کیا اُنہیں اور اُن کے کارناموں کو عزت و احترام
اور معزز ووقار سے یاد رکھااکثر دیکھا گیا ہے کہ اِن کا عہدِ حکومت جہاں اپنی رعایا یا قوم کے لئے باعثِ نعمت رہا وہیں اِن کے عہدِ حکومت کا دورانیہ تاریخ میں ہمیں کم ملا یہاں پر اِن بیان کردہ سطور کی ضرورت ہم اپنے قارئین کی نذر چند خاص وجوہات کی بناء پر کر رہے ہیں گزشتہ دوچار ماہ سے پاکستان اور بھارت کی کنٹرول لائن پر بگڑتے حالات ہیں کہ سنبھلنے کا نام نہیں لے رہے سیالکوٹ سے مظفرآباد کے بارڈر تک کوئی دن نہیں جاتا جب وہاں سرحد پار سے بھارتی فوجوں کی بلا اشتعال فائرنگ کے نتیجہ میں بے گناہ پاکستانی شہیری شہید اور زخمی نہ ہوتے ہوں بھارتی فوج کے چیف جنرل بکھرم سنگھ اور بھارتی وزیر دفاع کے شعلے اگلتے بیانات کی تیزیاں جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کررہی ہیں بھارت کے یہ دونوں ’حضرات ‘ کیا کم تھے، اُوپر سے نریندرمودی جیسا شخص جس کی حد سے بڑھتی ہوئی مسلم دشمنی صفت فاشیت نے بھارت کو آج ایک ایسے مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں وہ اکیلا وتنہا ملک’ دیش‘ اِس وقت دنیا بھر میں بھارتی نژاد مسلمانوں کی دشمنیوں کے نفرت بھرے ‘حقارت آمیز اور گھناونے متعصبانہ قدیم تمدن کا ’زعفرانی عَلَم ‘ تھامے دنیا کو دکھائی دیتا ہے گجرات کے گودھرا کیمپ ریلوے اسٹیشن کے چائے کے کھوکھے سے پہلے گجرات کی وزارتِ اعلیٰ اور پھر نئی دہلی کی وزارتِ عظمیٰ تک پہنچنے والے نریندرامودی کی ذاتی ’چھلانگ پھلانگ‘کی پھرتیاں ملاحظہ فرمائیے جو ہندو توا متشد د پروگرام کو دیش بھر میں پھیلانے اور کروڑوں بھارتی نژاد مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کو بھارت سے نکال باہر کرنے یا اُنہیں زبرد ستی اپنے ’پرکھوں کے ہندو مذہب ‘ پر واپس لانے کے غیر اخلاقی اور غیر انسانی اطوار اپنائے ہوئے بڑی ڈھٹائی پر تلا دکھائی دیتا ہے ابتداء میں جب گجرات میں اِس کی ’مار ڈھار ‘ کی خبریں ایک کونے سے دوسرے کونے تک دہشت زدہ کرنے میں مزید معاون ثابت ہوئیں تو ایک چائے فروش کا یہ لڑکا جب پوری طرح سے جوان ہوا تعلیمی میدان میں تو نام نہ کمایا ‘سماجی میدان میں کوئی معزز مقام حاصل کرنے میں بھی ناکامی کا منہ نریندرا مودی کو دیکھنا پڑا سستی شہرت اور ہر قیمت پر سستی شہرت کا بھوکا یہ جوان نریندرا مودی جنونی تو تھا ہی، جنونیت میں گجرات بھر میں اِس جیسا کوئی دوسرا نہ تھا آر ایس ایس تنظیم کو اور کیا چاہیئے تھا گجرات کی سیاست کے میدان میں اِس ’چرب زبان ‘ ہندی مقرر کو اتاردیا گیا جو بلا آخر گجرات کا وزیر اعلیٰ بن بیٹھا نریندرا مودی نے آر ایس ایس تنظیم میں جو مسلم دشمنی کو بھارت بھر میں کچلنے کی تنظیم ہے اُس کی وفاداری نبھانے کا اِس نے حلف اُٹھایا اب جبکہ بھارت کی مکمل طاقت اِس کے ہاتھ کا کھلونا بن گئی ہے وہ اپنے آر ایس ایس سے کیئے گئے حلف کی کیسی پاسداری نبھا رہا ہے ’گودھرا سانحہ ‘ آر ایس ایس کے کارسیکوں کی کھلی غندہ گردی کی منہ بولتی تصویر تسلیم نہیں تھی ؟ جہاں پروزیر اعلیٰ کی ذاتی نگرانی میں ہندو فسادیوں کو ہتھیار اور پیٹرول پولیس کی گاڑیوں سے فراہم کیا گیا ریاستی مشنری ’گودھرا سانحہ ‘ میں مسلسل استعمال ہوتی رہی مودی کا نفرت آمیز یہ رویہ گجرات میں بھی مسلم مخالف تھا او ر آج جب کہ بھارت کی سبھی سیکولر جماعتیں اپنی تنظیمی کمزوریوں سے تباہ حال ہیں، آر ایس ایس کا سیاسی ونگ جسکا وائٹ کالر نام’ بی جے پی ‘ ہے جس نے ہر نسخہ آزمانے کے بعد بھارت میں اب اپنے ایک ایسے شخص کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدہِ جلیلہ پر لا بیٹھایا ہے گجرات میں پہلے ہی جس کے ہاتھ ہزاروں مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں ایک ایسا ملک جو ایٹمی ڈیٹرنس رکھتا ہو اُس ملک کا ’مدارالمہام‘ اعلیٰ ترین قیادت میں کیسی صفات ہونی چاہئیں؟ جس میں بہت زیادہ گہر ی برداشت کی تحمل مزاج فکری صلاحیت ہو وہ انسان دوست ہو‘امن کا خوگر ہو اور سیاسی عالمانہ بصیرت رکھتا ہو، ماضی میں جتنے بھی (چند ایک تحفظات کے علاوہ) خاص طور پر اندراگاندھی کے سوا بھارت میں وزرائےِ اعظم گزرے آر ایس ایس کا یہ بنیادی جھگڑالو طبیعت نریندرامودی اُن کے پیروں کی دھول بھی نہیں ہوسکتا روشن خیال اعتدال پسند امن کے خوگر اور اعلیٰ تعلیم یافتہ سیکولر ذہین رکھنے والے بھارتیوں کے ساتھ کتنا بڑا انتخابی دھوکہ کیا اُنہیں فریب زدہ کیا یہ کہا گیا کہ نریندرا مودی نئی دہلی کا اقتدار حاصل کرنے کے بعددیش بھر میں ترقی یافتہ معاشی انقلاب لے آئے گا مسلم دشمنی یا پاکستان کو ’سبق ‘ سکھلانے کے نام پر مودی کو بھارتی اعلیٰ تعلیم یافتہ ووٹ کبھی نہ ملتا ایک اور تاریخی حقیقت ‘جس سے نظریں نہیں چرائی جاسکتیں بھارت کے جاگیردارانہ معاشرے میں‘یہاں پر یاد رہے کہ جو حلقے بھارت میں جاگیردارانہ معاشرے سے انکاری ہیں اُن کی اطلاع کے لئے عرض ہے اب اُنہیں ’سرمایہ دارانہ معاشرہ‘ کہا جاتا ہے چاہے بندہ جاگیردار ہو یا سرمایہ دار یہ اپنے سے کم نچلے درجے کے انسانوں کو انسان نہیں سمجھتے چاہے بھارت ہو یا پاکستان یہ ایک رویہ کا نام ہے ابتداء میں جیسا عرض ہوا کہ نسلی وخاندانی بنیادوں پر معاشروں میں منصب وعہدے اور حکومتی امور کی مراعات براہمنوں کی فطرتِ ثانیہ کا ایک حصہ ہے نریندرا مودی ایک نچلی درجہ کا نچلی ذہنیت رکھنے والا شخص ہے جس میں نہ تو کسی قسم کا کوئی تحمل وبرداشت پایا جاتا ہے ہمہ وقت غصیلی گفتگو اُس کامشغلہ ‘مسلمانوں اور خصوصاً پاکستان کے خلاف انتہا درجہ کی نفرتوں کا اظہار اُس کی نمایاں خصوصیت ‘ یہ سب وہ بھارتی درمیانی طبقہ کے تعلیم یافتہ کروڑوں ووٹروں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے بروئےِ کار لاتا ہے اب نہیں تو کل جلد یا بادیر خود بھارتی سول سوسائٹی کو یا مغربی دنیا کو سوچنا ہو گا بقول بی بی سی کے معروف پاکستانی نژاد صحافی وسعت اللہ خان کے کہ ’بندر کے ہاتھوں سے اُسترا کون لے گا‘ اُن سے معذرت کرتے ہوئے ہم اگر یہ کہیں تو کیا غلط ہے کہ ’نریندرا مودی کے ہاتھوں میں آیا ہوا ایٹمی ریموٹ کنٹرول واپس کیسے لیا جاسکتا ہے ‘۔