نیٹو کنٹینرز کی گمشدگی ’’تحقیقات‘‘۔ صفر بٹہ صفر
سیّد ناصررضا کاظمی
در جرائم پر مبنی عذابِ مسلسل میں سراسر مبتلا شہرِ کراچی‘ ڈیڑھ کروڑ سے زائد پاکستانیوں کے ماضی کا عروس البلاد ‘آجکل’شہری‘ دہشت گردی کی گمنام وارداتوں کی آمجگاہ بنا ہوا ہے کراچی کے شہری اب تلملانے،جھنجھلا نے لگے ہیں ہر قیمت پر امن کے خوگر بنے ‘ مستقل امن وامان کی خواہشوں ، تمنا ؤں اور آرزوؤں میں اپنا سب کچھ داؤ پر لگاکر کیا وہ اپنے شہر میں حقیقی امن کے دیرپا ماضی کا عہد پا سکیں گے ؟ اہلِ کراچی کے تشنہ طلب اِس سنگین سوال کا تشفی جواب شائد کسی حکمران کے پاس ہو؟ مندرجہ بالا سطور میں ’شہری ‘ دہشت گردی نما جنگ کی اصطلاح استعمال کرنے کی اصل وجوہ‘ جرائم کے عناصرِ ترکیبی کی جزوئیات پر کامل دسترس رکھنے والے تفتیش کا ر ماہرین ہی جانتے ہوں گے کہ آئین و قانون کی حاکمیت کو نافذ کرنے والی فورسنز شہروں کی بہ نسبت زیادہ آسانی اور سہولت سے کھلے میدانوں‘ پہاڑی درّوں‘غاروں اور کھا ئیوں میں چھپے دہشت گردوں کو شناخت کر نے میں دیر نہیں لگاتے اُن کے ’کھرے ‘ اِنہیں ڈھونڈنے میں اکثر وبیشتر کامیاب ہوجا تے ہیں اگر دہشت گردی نما ’ٹارگٹ کلنگ کسی بڑے گنجان آباد شہر میں شروع ہوجائے ،کہیں دور قریب سے شہری اجتماعی آبادیوں پر گولیوں کی بوچھاڑ اچانک آبرسے ‘ شہری علاقے بم دھماکوں سے گونجنے لگیں ‘ پورا شہر خوف وہراس کی لپیٹ میں آجائے، شہر میں بھگدڑ مچ اُٹھے، ہر کوئی مدد مد د کی چیخ وپکار میں چلانے لگے ایسے میں یہ پتہ کیسے چلے گا کہ ’ظالم وسفاک ‘ کون تھا یا ہے ؟ مرنے‘ شدید زخمی ہونے والے کون ؟ یہ شہری ہی تو ہیں، کون آیا خونریز قیامت مچا کر پل بھر میں کہاں جاکر چھپ گیا ؟ کس گلی نے وحشی ظالموں کو ’پناہ ‘ دیدی؟ جو سیکورٹی حصار کوتوڑ کر اُ ن کی آنکھوں میں دھول جھونک کر پل بھر میں غائب ہونے میں ہر بار کامیاب رہتے ہیں کراچی ‘خاص کر پورے ملک میں ایک عرصہ سے انسانیت کے احترام کی دھجیاں بے دریغ درندگی کے انتہائی بھیانک اطوار اپنا کر اُڑا ئی جارہی ہیں ’تاک ‘ کر بے گناہ معصوم پاکستانیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے‘ قانون کی گرفت میں آ نہیں رہے ،کیوں؟ اِس ’کیوں ‘ کا جواب اہلِ کراچی کو کبھی نہیں ملے گا ،گزشتہ دِنوں ایک اور سنگین سوال اُٹھا کہ کراچی میں آئین وقانون کا سرعام تمسخر اُڑانے والوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کہیں بہتر جدید مہلک ہتھیار کہاں سے مہیا ہوتے ہیں یہ ہتھیارِ ان ’اَن دیکھے ‘ دہشت گردوں کو کون فراہم کرتا ہے ؟ کراچی شہر کی اکثریتی نمائندہ سیاسی جماعت ایم کیو ایم یہ کہا کرتی تھی کہ ’ کراچی کو مہلک اسلحہ کا مرکز بنانے میں بڑا ہاتھ خیبر پختونخواہ صوبے کا ہے، فاٹا اور پنجاب کے علاقوں سے ہوتا ہوا ‘ سندھ کی نگرانی چوکیوں سے ’بچ ‘ کر آنے والا یہ اسلحہ اہلِ کراچی کی خونریزی میں استعمال ہوتا ہے، اِسی اسلحہ کے زور پر کراچی کے امن وامان کو تہہ وبالا کیا جاتا ہے، اب جبکہ قرار’ واقعی امن‘ اہلِ کراچی کے ساتھ اہلِ پاکستان کی آواز بن گیا ہے تو جناب‘ بہت ہوگئی اب بس بھی کیجئے!9/11 کے ’واقعہ ‘ کے بعد جب امریکا اور نیٹو افواج اپنے ’مذموم مقاصد ‘ کی آڑ میں ’انتقام کی آوہ بکا کے ساتھ افغانستان میں اتریں تو امریکا پاکستان کے مابین ’لاجسٹک سپورٹ ‘ کا معاہد ہ ہو ا، ظاہر ہے بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری مہذب قوموں کا شیوہ ہوتا ہے مگر دوطرفہ معاہدے کی پابندی کی نگرانی کیا ضروری نہیں ہے ؟ جواب اپنی جگہ ‘ مگر کوئی یہ تو سنئے چندماہ پیشتر حکومت نے جب کراچی میں ’آپریشن کلین اَپ ‘ کا اہم فیصلہ کیا کراچی کو کلی طور پر پیراملٹری فورسنز (رینجرز) کے حوالے کیا گیا کراچی بھر میں پولیس کے اختیار ات رینجرز کو دیدئے گئے اِن ہی گزرے دنوں میں ڈی جی رینجرز نے پریس بریفنگ میں بتا یا کہ ’ کراچی کی بندر گاہ سے 1900 کنٹینرز امریکی اور نیٹو افواج کا سامان لے کر باہر نکلے اور کراچی کی حدود میں یہ1900 کنٹینرز کہیں غائب ہوگئے یقیناًیہ انکشاف اہل کراچی کے لئے ایک سنگین ’آفت ‘ سے کم نہ تصور کیا جائے ملکی نجی میڈیا نے ڈی جی رینجرز کے اِس انکشاف کو سنجیدگی سے نمایاں کرنا ضروری نہیں سمجھا ’کیوں نہیں؟ ‘ یہ نکتہ بھی اپنی حساس سنجیدگی میں کروڑوں ڈالر کا سوال سمیٹے ہوئے ہے ایم کیو ایم کو اِن ’غائب ‘ کنٹینر ز کا کوئی علم نہیں ‘ گز شتہ اد وار میں پورٹ اینڈ شپنگ کے ایک نہیں دو ‘وفاقی وزیر‘ ایک وفاقی وزیر کا تعلق ایم کیوایم سے کافی دیرینہ، جبکہ دوسرا وفاقی وزیر حال ہی میں ایم کیو ایم میں شامل ہوکر آجکل رکنِ قومی اسمبلی ہے، یہ دونوں اصحاب نہیں جانتے نہ مانتے ہیں کہ امریکی سازوسامان سے لدھے1900 کنٹینرز کہاں گئے؟ کراچی کی ’ٹول پلازہ ‘ سے نکلے یا نہیں؟ غالب امکان یہی نظر آتا ہے کہ ایساف اور نیٹو کنٹینرز کی گمشدگی کا معاملہ اتنا سادہ نہیں ،جیسے اُسے لپیٹا گیا ہے اِن کنٹینرز کے اچانک غائب ہونے کی تشویش ناک اطلاعات میں اُس وقت اور زیادہ حیران کن موڑ آیا جب نیٹو اور امریکی خود اِن کنٹینرز کے غائب ہونے کی باتیں کررہے تھے جب کراچی رینجرزکے ڈائریکٹر جنرل نے سرکاری سطح پر اِس مسئلے کو میڈیا میں نمایاں کیا تو نیٹو اور امریکی حکام نے یہ کہہ کر معاملہ کی شدت کو اور زیادہ اہم کردیا کہ ’ ایک بھی ا مریکی کنٹینر غائب نہیں ہوا ‘ کراچی میں مستقل امن کے لئے بے تاب سنجیدہ عوامی حلقوں میں امریکی ’اطمنان ‘ کی اِس مبہم خبر نے مزید بے چینی کو ہوا دی ہے آخر اِن ’لاپتہ‘ کنٹینرز کے اندر کیا سامان تھا ؟ کہیں 1900 غائب ہونے والے کنٹینرز مغربی و امریکی اسلحے سے بھرے ہوئے تو نہیں تھے؟ آخر اِن کی تحقیقات سے جان بوجھ کر پہلو تہی کیوں کی جارہی ہے؟ کیوں نہیں بتایا جارہا ’ اصل معاملہ ہے کیا؟ ’پاکستان ایساف نیٹو‘ لاجسٹک سپورٹ کے معاہد ہ کی کہیں کوئی سنگین خلاف ورزی تو نہیں کی گئی ؟ سوچ لیں جو گمان رکھتے ہیں کہ امریکی سفارت خانے کی طرف سے جاری بیان کے بعد ’کنٹینرز گمشدگی ‘ کا معاملہ رفع دفع سمجھئے، جن کا سامان تھا وہ کہتے ہمیں ہمارا سامان وصول ہوگیا؟ 1900 نیٹو کنٹینرز ‘ سوچیں کراچی میں اسلحے کے انبار کی وجوہ تو نہیں ؟ کراچی‘ پاکستان کا واحد ساحلی تجارتی اہم شہر ‘ اِس شہر کو بے یارو مدگار چھوڑ دیا جائے؟ملکی سیکورٹی نکتہِ نگاہ سے کراچی کے امن وامان سے صرفِ نظر کر نا سنگین قومی جرم تصور ہوگا ویسے ہی ملک میں بڑھتی ہوئی شدید لاقانونیت‘ سماجی خرابیاں‘ نفسیاتی بے چینی و اقتصادی بدحالی کے نوحے مرثیہ سن سن کر قوم میں مبتلا ہوچکی ہے ، معاشرے کے طبقات کے درمیان جنونی افراتفری اور فرقہ ورانہ انتشار کم ہونے کا نام نہیں لے رہا دوسری طرف بڑے پیمانے پر جدید اسلحے کی اسمگلنگ کے انکشافات پر اب ملکی جمہوری ایوانوں سے طاقت ور اور دوٹوک فیصلوں کی امیّد قومی امنگوں کی آئینہ دار تصور ہو اور ملکی میڈیا کی اپنی قومی ذمہ داریوں کا احساس کرئے آخر کہاں گئے امریکی کنٹینرز ۔