وقتی مصلحتوں سے عظیم تر ۔پاکستان چین دوستی کا سنگِ میل
Posted date: February 12, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
پاکستان کا عظیم پڑوسی ملک ’عوامی جموریہ چین ‘مستقبل کی عظیم ایشیائی سپر طاقت، دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کو چین نے اپنی تیزرفتار حیران کن ترقی وخوشحالی کے’’ جدید ثمرات‘‘ سے آنناً فانناً بہرور کردیا، اہلِ پاکستان اور اہلِ چین دونوں پڑوسی ملکوں کے عوام اِس اعتبار سے بہت زیادہ خوش قسمت ہیں کہ قدرت نے اِنہیں اپنی آزادی کی نعمتوں میں سے ایک اہم یہ نعمت بھی عطا کی ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے پڑوسی ملک ہیں کہتے ہیں دوست بدلے جاسکتے ہیں پڑوسی کبھی تبدیل نہیں ہو سکتے، پاکستان چین دوستی کو ہمالیہ سے بلند دوستی کہا جاتا ہے پاکستان چین دوستی کو سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی دوستی قرار د یا جاتا ہے واقعی‘ بے شک پاکستانی اور چینی عوام بتداء سے آج تک اپنے سیاسی وسفارتی تعلقات کے عمل وکردار سے یہ حقائق ثابت کرچکے ہیں کہ دونوں پڑوسی ملکوں کے پاکستانیوں اور چینیوں کے مابین دوستی اور قربت کے یہ انمٹ رشتے ہمالیہ سے بلند ‘ سمندر سے گہرے اور شہد سے میٹھے رشتے ہیں، یاد رہے اپریل 1997 میں چین کے سابق وزیر اعظم اور پیپلز کانگریس کے چیئر مین مسٹر لی پنگ نے اپنے دورہ پاکستان کے موقع پر منعقدہ ایک تقریب میں یہ تاریخی الفاظ ادا کیئے تھے کہ ’’پاک چین دوستی ہمالیہ سے بلند، سمندر سے زیادہ گہری اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے،
دنیا ‘خاص کر مغرب اور امریکا عوامی جمہوریہ چین اور پاکستان کے روز افزوں بڑھتے ہوئے پُرخلوص دوستانہ تعلقات کو ہمیشہ تیکھی اور کینہ پرور نگاہوں سے دیکھنے کے تقریباً عادی ہیں پاک چین دوستی کو سمندر سے گہری دوستی قرار کیوں کر دیا جاتا ہے؟ کوئی کیوں نہیں سوچتا؟ یاد ہے نا ،عوامی جمہوریہ چین جب آزاد ہوا تو اسلامی ممالک میں پاکستان وہ پہلا ملک تھا جس نے چیئر مین ماؤزے تنگ کی قیادت میں چین کی حکومت کے قیام کو باضابطہ طور پر ابتدائی 3 ماہ میں تسلیم کرلیا تھا پاکستان نے چین کو تسلیم کرنے کا اعلان جنوری 1950 کو کیا ایک سال 5 ماہ بعد مئی 1951 کو عوامی جمہوریہ چین سے سفارتی تعلقات قائم کیئے یہ وہ زمانہ تھا جب چین اور تائیوان کے درمیان اقوامِ متحدہ میں قانونی بحث چل رہی تھی کہ’ ’تائیوان چین کی نمائندگی کرسکتا ہے ؟‘‘ معلوم نہیں لوگ پاکستان کو امریکا کے سامنے اِس قدر بے بس اور مجبور کیوں گردانتے ہیں کہ پاکستان نے ہر دور میں امریکا کے کہنے پر اپنے فیصلہ کیئے گزشتہ چند برسوں یقیناًہمارے مفادات پرست حکمرانوں سے کچھ فاش غلط فیصلے ضرور ہوئے انکار نہیں کیا جاسکتا کیا یہ تاریخی حقائق ہماری موجودہ جواں نسلوں کے لئے باعثِ فخر نہیں ہے کہ پاکستان کی اوّلین خشت بہت ہی مضبوط و مستحکم خودداری کی بنیادیوں پر رکھی گئی تھی فروری1948 میں ایک امریکی صحافی کو اپنے انٹرویو میں بانی پاکستا ن قائداعظم محمد علی جناح نے کھلے دوٹوک انداز میں یہ واضح کردیا تھا ’دنیا کی مظلوم اور زیردست اقوامِ کی مادّی و اخلاقی امداد واعانت نیز اقوامِ متحدہ کے منشور کے اصولوں کی سربلندی میں پاکستان کبھی کسی سے پیچھے نہیں رہے گا ‘
تاریخ گواہ ہے پاکستان نے ایک نوزائیدہ مملکت ہونے کے باوجود دنیا بھر سے اپنے قد کاٹھ کو اپنے اہم فیصلوں سے منوایا اپنے اُسی ابتدائی زمانے میں خوددار پاکستان نے امریکا کی پُرزور مخالفت کی رتی برابر پرواہ نہیں کی اور ستمبر1950 میں جنرل اسمبلی میں ’اصل عوامی جمہوریہ چین‘ کی رکنیت کا اہم سوال اُٹھایا اور چین کو اقوامِ متحدہ کا باقاعدہ رکن بنانے کی اپنی آواز اُٹھائی یہ ہی نہیں ہوا بلکہ جب کوریا کی جنگ شروع ہوئی تو پاکستان نے شمالی کوریا اور اُ س کے حلیف عوامی جمہوریہ چین کے خلاف لڑنے کے لئے اقوامِ متحدہ کی افواج میں اپنے فوجی دستوں کو شامل کرنے سے انکار کردیا اِسی پر پاکستان نے بس نہیں کیا ایک قدم آگے بڑھ کر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکا کی پیش کردہ اُ س قرار داد کے حق میں ووٹ دینے سے خود کو علیحدہ کرلیا جس میں عوامی جمہوریہ چین کو ’جارح‘ قرار دے کر اُس کے خلاف تجارتی پابندیاں لگانے کا غیر اخلاقی مطالبہ کیا گیا تھا آج عوامی جمہوریہ چین اقوامِ متحدہ کی ’ویٹو پاور ‘ ہے تاریخی حقائق کی پَرتیں کھولیں توسہی حقائق خود بولیں گے پاکستان نے ہر آڑے وقت میں چین کی نمائندگی کی حمایت کرکے نہ صرف اقوامِ متحدہ کے منشور کی روح کی سربلندی کا اہتمام کیا بلکہ عالمی امن کے فروغ میں بھی نمایاں معاونت کا فریضہ نبھایا ہے، جس کے اب میں چین نے بھی پاکستان کو برابری کی بنیاد پر دنیا کے دیگر ممالک سے بڑھ کر ہر قسم کے تعلقات کو اپنی وسیع النظری کے کھلے دل سے وسعت دی چین و پاکستان کے مابین 1963 کے اوائل میں تعاون اور دوستی کی جو راہ ہموار ہوئی وہ کہیں رکے بغیر مزید استوار ہوتی چلی گئی یہ ہی تاریخی دور تھا جب پاکستان اور چین باہم یکجا ہوگئے قدیم شاہراہِ ریشم کاتجارتی راستہ کھولا گیا یہ وہ ہی رواستہ ہے جس کے ذریعے ممتاز عالمی شہرتِ یافتہ چینی سیّاح ’فاہیان ‘ برصغیر میں داخل ہوا تھا اِسی راہ سے مارکوپولو بھی گزرا اِس راستے کو آمد ورفت کے قابل بنانے میں عوامی جمہوریہ ِٗ چین نے بڑی فراخ دلی سے تعاون کیا اِسی شاہراہ سے چین کا پہلا تجارتی قافلہ 24 ؍اگست 1969 کوچینی علاقہ سنکیانگ سے گلگت پہنچا تھا ’شاہراہ ِٗ قراقرم ‘کی تعمیر میں افواجِ پاکستان نے بڑی قابلِ رشک شاندار تاریخی خدمات انجام دی ہیں اِس عظیم شاہراہ کی دشوار گزار تعمیراتی تگ ودو کی راہ میں ہماری جانب پاک فوج کے کئی جوان اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ چین کی جانب چینی انجینئروں اور تکنیک اروں نے اپنی جانوں کی بے مثال قربانیاں دی ہیں شاہراہ ِٗ قراقرم پاکستان اور چین کے مابین کبھی نہ مٹنے والا ایک ایسا سنگ میل ہے جس پر کئی صدیوں تک چین اور پاکستان کی نسلیں فخر کریں گی شاہراہِ قراقرم سے بلوچستان کے ساحلِ گوادر تک پاکستان اور چین سیاسی‘ سفارتی ‘ دفاعی اور اقتصادی شعبوں میں ایک دوسرے پر کھل کر بے حد اعتماد کرتے ہیں کل بھی کرتے تھے دوقوموں کے بلین افراد کے مابین اعتماد اور بھروسے کے یہ احساسات انسانی لہو کے ذرات میں رچ بس چکے ہیں، چند مغربی ملکوں سمیت امریکا اور بھارت 9/11 کے واقعہ کے بعد اپنے زرخرید ایجنٹوں کی مدد سے کبھی سنکیانگ میں اپنی مذموم دہشت گردی کرواتے رہتے ہیں کبھی بلوچستان میں جہاں گوادر پورٹ پر چینی انجینئرز ترقیاتی امور میں مصروفِ عمل ہیں وہاں دہشت گردی کرادی جاتی ہے چین اور پاکستان کی کبھی نہ ختم ہونے والی دوستی کی راہ میں چین اور پاکستان کے عالمی دشمن اپنی معاندانہ مذموم کارروائیوں سے نہ کل کوئی روڑے اٹکا سکے نہ کبھی اُنہیں کوئی کامیابی نصیب ہوگئی پاک چین دوستی کی تاریخ اور باہمی ہمدردی کے بہتر یں حساسات ہر موسموں کے ثمر بار پھل ثابت ہونگے جنوبی ایشیا میں اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کا چین پاکستان کا یہ سفر مستقبل قریب عالمی منظر نامہ کو حیرت زدہ کردے گا جب امریکی اور نیٹو افواج افغانستان کو چھوڑیں گی یاد رہے ابھی پاکستان اور عوامی جمہوریہ چین نے اپنے ’پتے ‘ شو نہیں کیئے دنیا کو آج نہیں تو کل یہ بات ضرور سمجھ میں آجائے گی کہ چین اور پاکستان وقتی مصلحتوں پر مبنی سفارتی تعلقات استوار نہیں کرتے بلکہ پاکستان اور چین کے تعلقات موثر ‘ دیرپا اور مسلسل بنیادوں پر اپنا انفراسٹریکچر کھڑا کرچکے ہیں جن کا سلسلہ مصلحتوں سے کبھی بھی منقطع نہیں ہوگا ۔