Posted date: August 26, 2017In: Urdu Section|comment : 0
نغمہ حبیب
ٹرمپ اپنے انتخاب کے چھ ماہ بعد بولے اور پاکستان کا ذکرکرنا نہیں بھولے ذکر کیا اور بڑے زور وشور سے کیا لیکن حیرت ہے پاکستان سے پھر بھی فوری جواب نہیں آیا حالا نکہ چین نے پاکستان کا دفاع کرتے ہوئے فوراََ جواب دیا لیکن پاکستان کے جمہوری حکمرانوں کا ڈرا ڈرا سا ، گھسا پٹا، معمول کا جواب چار دن بعد آیا اور یہی رویہ اور بلاوجہ کی خوفزدگی یا خو شامد ہی امریکی حکمرانوں کی شہ کا سبب بنتی ہے بلکہ کسی بھی دشمن اور بد خواہ کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔پاکستان عرصہ دراز سے دہشت گردی کے خلاف پرائی جنگ لڑ رہا ہے اور اس کی اپنی ہزاروں جانیں اس جنگ کی نظر ہو چکی ہیں، مالی نقصان اندازے سے باہر ہے یوں کہنے کو تو اس کی گنتی کر لی جاتی ہے لیکن یہ وہ نقصان ہے جو نسلوں کو متاثر کر ے گی مگر اس سب کچھ کے باوجود امریکہ خوش نہیں وہ اس پر بھی خوش نہیں کہ اس کے فوجی افغانستان میں زندہ ہیں تو پاکستان کی مدد کی وجہ سے ورنہ افغانستان کے جغرافیائی حالات ہی اُنہیں مار دینے کو کافی ہیں۔ جنگ سے تباہ حال افغانستان نہ تو ان کی غذائی ضروریات پوری کر سکتا ہے اور نہ ان کو وہ رہائش فراہم کر سکتا ہے جس کے وہ اپنے ملک میں عادی ہیں امریکی فوجی اگر بیمار بھی پڑ جائیں تو دوائیں بھی پاکستان کے راستے ان تک پہنچتی ہیں ۔افغانستان تو اپنی گندم ،اپنی سبزیوں اوراپنے گوشت تک کی ضروریات کے لیے بھی پاکستان کا محتاج ہے اور ایسے ہی اشرف غنی کے امریکی آقا بھی پاکستان کی مدد کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے اور یہ سب کچھ اُن تک پہنچتا ہے پاکستانی سڑکوں کے ذریعے اور یہ سڑکیں خطیر رقم کے ذریعے بنتی ہیں جو امریکی امداد سے کہیں زیادہ ہوتی ہے لیکن پھر بھی امریکہ کے صدر کے بقول وہ پاکستان کو بہت بڑی امداد دے رہا ہے۔امریکہ وہ ملک ہے جو صرف اپنے مفادات کی حفاظت کرتا ہے ان کے لیے وہ دوسرے ملکوں کے رہنے والے انسانوں کو انسان ہی نہیں سمجھتا اُس کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جب وہ بغیر کسی وجہ کے کسی ملک پر چڑھ دوڑا اور اُس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ویتنام کے درودیوار آج بھی اُس کی وحشت کے گواہ ہیں یہی حال اُس نے کوریا ، شام،عراق اور افغانستان میں کیابلکہ جن ممالک میں وہ کھلی مداخلت نہیں کر سکا وہ بھی اُس کے شر سے محفوظ نہیں بلکہ وہاں وہ زیادہ خطرناک ہے کیو نکہ وہاں تو وہ معاشرے کی جڑوں پر حملہ کر تا ہے اپنی فوج نہیں بھیجتا ہے بلکہ دہشت گردوں کے ذریعے اُس کے بے گناہ شہریوں کا قتلِ عام کرتا ہے اور یہ تاثر دیتا ہے کہ خود عوام میں پھوٹ ہے اور وہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں اور یوں انہیں بیرونی دشمن کی ضرورت ہی نہیں رہتی لیکن حیرت ہے کہ ٹرمپ پھر بھی پاکستان کو دہشت گرد قرار دے رہا ہے اور یہ رویہ صرف ایک ٹرمپ تک ہی محدود نہیں بلکہ ہر امریکی صدر یہی راگ الاپتا ہے۔ ہمیشہ کی یہ احسان فراموش اور دوسروں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کر کے انہیں بیچ منجد ھار چھوڑ دینے والی امریکی قوم اور حکمران کبھی خوش نہیں ہو سکتے تو آخر ہم اُ نہیں خوش کرنے کی کوشش ہی کیوں کریں۔ امریکہ کسی ملک کی مدد بھی تب تک کرتا ہے جب تک اُسے ضرورت ہو بلکہ ضرورت کے وقت بھی وہ اپنی شرائط منواتا ہے اور یہ شرائط خالصتاََ طاقت کے غلط استعمال پر مبنی ہوتی ہیں اور وہ اپنی اس طاقت کا استعمال بے دریغ اور غیر انسانی طریقے سے کرتا ہے ۔دوسروں کو دہشت گرد اور دہشت گردوں کا حامی قرار دینے والا امریکہ کتے،بلی کے حقوق کا زیادہ خیال کرتا ہے لیکن جس ملک پر وہ حملہ کرتا ہے اس کی فوج تو فوج سول آبادی بھی اُن کی کارپٹ بمباری کا نشانہ بنتی ہے، اُس میں بچوں بڑوں کی بھی کوئی تخصیص نہیں ہوتی۔ ویتنام سے لیکر عراق اور افغانستان تک میں اُس کے جنگی جرائم کی ایک لمبی فہرست مو جودہے۔ اُس کی سی آئی اے اپنے بلیک فنڈ سے غریب ملکوں کے غریب عوام کو خریدتی بھی ہے اور پھر اسے مارتی بھی ہے لیکن اُٹھ کر امریکہ کا ایک نا معقول صدر جو خود امریکہ میں بھی غیر مقبول ہے پاکستان کے خلاف الزامات عائد کرتا ہے حالانکہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ دہشت گردوں کا سر پرست اعلیٰ سی آئی اے اور امریکہ ہی ان کو اسلحے سے لے کر مالی مدد اور تکنیکی تعاون تک سب فراہم کرتا ہے۔ہمارے خطے میں افغانستان اور بھارت اُس کے معاون بنے ہوئے ہیں اسی لیے تو بھارت کی تعریف کی گئی اور اُسی تقریر میں کی گئی جس میں پاکستان کو دھمکیاں دی گئی، ڈومور کے مطالبے کے ساتھ ساتھ امداد روکنے کی بھی بات کی گئی جس کا دو ٹوک جواب تو ہمارے آرمی چیف نے یہ کہہ کر دے دیا کہ ہمیں امریکی مدد کی ضرورت نہیں ۔اس موقعے پر حکومت کا موقف تا خیر سے آیا جسے فورا آجانا چاہیے تھا اگر ٹرمپ یہ چاہتا ہے کہ حکومت پاکستان اور افواج پاکستان اپنے محب وطن عام شہریوں کو بھی نشانہ بنائے تو یہ نہیں ہو سکتا آخروہ کس کے خلاف اور کتنی کاروائی چاہتا ہے اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کاروائی کی آڑ میں وہ کیا چاہتا ہے۔ و ہ یہی توجہ افغانستان میں چھپے بلکہ چھپائے گئے یا پالے گئے دہشت گردوں کے خاتمے پر د یتاتو بہت صفائی ہو چکی ہوتی لیکن وہ ایسا نہیں کر رہا اور نہ وہ اس جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے کیونکہ اس صورت میں وہ اس علاقے میں رہنے کا زبردستی کا پیدا کیا ہوا جواز بھی کھودے گا ویسے اب بھی اُسے یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا لیکن افغانستان کے ان بے ضمیر اور احسان فراموش حکمرانوں کا کیا کیا جائے جو امریکہ کو خوش کرنے کے لیے اپنے عوام اور اپنے پڑوسی مسلمانوں کا قتلِ عام کرا رہے ہیں اور مسلمانوں کے سقہ دشمن بھارت کو اپنے ملک میں دخیل کرا رہے ہیں اور یہ بھول ر ہے ہیں کہ ہندو اگر اپنے ملک کے مسلمانوں کو جینے کا حق نہیں دے رہا تو افغانستان کے مسلمانوں کی بھلائی کیسے چاہے گا۔ امریکہ کا صدر تو اپنے مفادات کے لیے بھارت کی تعریف کرے گا کیونکہ وہ اقرار کر رہا ہے کہ بھارت سے امریکہ کے بہت سے مفادات وابستہ ہیں وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے بڑی منڈیاں ہیں امریکی اسلحے کا بھی بھارت بڑا خریدار ہے اور یہ دونوں ملک مل کر موت بانٹتے ہیں لہٰذا ان کا ایک دوسرے کے قریب آنا بہت قدرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکی ایماء پر افغانستان میں تعمیر نو کے منصوبوں میں ہر جگہ بھارت نظر آرہا ہے اور اس تعمیر نو کے بدلے میں وہ رقم بھی لے رہا ہے اور پاکستان کے خلاف افغانستان کی زمین بھی استعمال کر رہا ہے۔امریکہ کے صدر نے پاکستان کو دھمکیاں بھی دیں،الزامات بھی لگادیے اور بھارت کی تعریف بھی کی لیکن اب سوچنا یہ ہے کہ ہم کیا کریں۔آرمی چیف نے ایک حل تو بتا دیا کہ ہمیں امریکی امداد کی ضرورت نہیں اور یہ کہ امریکہ ہماری قربانیوں کا احساس اور اعتراف کرے ،میں تو کہتی ہوںیہ بھی نہ ہوتو کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے کہ ہم واقعی خود انحصاری پر توجہ دیں اگرکچھ عرصہ ہم مشکل اور کسمپرسی میں بھی گزاریں تو کوئی حرج نہیں کم از کم ہم ایک غیرتمند قوم تو کہلائیں گے اور ٹرمپ جیسا مسخرہ بھی صرف طاقت کے بل بوتے پر اپنے محسن یعنی پاکستان کے خلاف بولے اور یہ بھول جائے کہ اُس نے افغانستان میں اگر روس کو کو شکست دی تو اصل فاتح پاکستان تھا اگر آج وہ افغانستان میں ابھی تک کچھ کچھ زندہ ہے تو صرف اسی پاکستان کی وجہ سے تو اس بار ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ اپنی صلا حیتیں اپنے ملک کے لیے استعمال کی جا ئیں امریکہ کی فتح کے لیے نہیں تو یقیناًہم ایک نامعقول شخص کے نا معقول الزامات سے بھی بچ سکیں اور اپنے پیروں پر بھی کھڑے ہو سکیں گے۔