Posted date: March 23, 2015In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
پتھروں کے زمانے میں مذاہب کے نام پر پتھر کے بنائے گئے بتوں کی بجائے انسانوں کی پوجا کی جاتی رہی کئی صدیاں بیت گئیں جو جتنا زیادہ بہارد ‘ بلکہ جو جتنا زیادہ بڑا درندہ صفت نما انسان تھا وہ اپنے سے کمزوراور مجبور و محکوم لوگوں کو اپنے سامنے اپنے سینے تان کر سجدہ کرواتا اور اُن پر بے تحاشا ظلم و بربریت کرتا اور اُن کے مال مویشی اُن کے کھیت کھلیان طاقت کے زور پر اُن سے زبردستی چھین لیتا ماضی بعید میں مذہب کی پوجا پرستی کی آڑ میں انسانوں نے انسانوں کو غلام بناکر بھیانک جرائم کی تاریخ رقم کی ‘ یہ زمانے ’بت پرستی ‘ کے عروج کے زمانے تھے وقت کے ساتھ ساتھ جہاں جہاں علم وشعور کی آگہی کی روشن کرنیں نمودار ہوئیں وہاں بت پرستی اپنی موت آپ مر گئی زمین وآسمان کے مالک واحد ربّ العالمین نے انسانوں کی رہنمائی کے لئے اپنے فرستادہ انبیاء مبعوث فرمائے جو اپنے وقت کے ’بت شکن ‘ بھی کہلائے اور انسان کی رہنما ئی کا آفاقی فریضہ بھی ادا کیا بت پرستی نے دنیا کے مختلف خطوں کے علاوہ خاص کر جنوبی ایشیا کے ’ہند ‘کے علاقے میں بڑی تیزی کے ساتھ اپنی جڑیں مضبوط کیں ہم آج بھی موجودہ بھارت میں جو کبھی صدیوں تک ’ہندوستان ‘ کہلاتا رہا اور اب جاکر کہیں 1947 میں ماضی کا یہ عظیم الشان ہندوستان دوآزاد وخود مختار ملکوں پاکستان اور بھارت کے نام سے منقسم ہوا ہے نجانے کیوں تقسیمِ ہند کے بعد بھی آج بھی کچھ لوگ اِسے ہندوستان کہتے ہیں؟ بھارت کو اُس کے سرکاری نام سے پکارا نہیں جاتا؟ بحرحال یہاں پر یہ بحث نہیں بات اصل میں یہ ہے کہ بھارت نے ماضی بعید کی بت پرستی کو اب کھلم کھلا اپنا سرکاری مذہب کہلوانا شروع کردیا ہے بت پرستی کے ساتھ اگر بھارت کو جنوبی ایشیا ئی ممالک اِس علاقہ کا ’تھانیدار ‘ یا ’سامراج عزائم کا ‘ ملک کہنا شروع کردیں تو اِس میں کون سی بُرائی ہے امریکا عالمی سامراج ‘ روس ماضی کا سامراج ‘ جس نے کبھی ’سوویت یونین ‘ کے نام سے اپنے پڑوسی ملکوں پر اپنی غاصبانہ علمداری جما رکھی تھی مغربی ممالک کی ’نام نہاد ثقافتی وتمدنی قدریں اپنی جگہ ہونگی؟ مگر اُن کی معاشی واقتصادی لالچی سامراجیت ‘ اپنی غیر منطقی اور یکطرفہ دلائل سے موجود ،جسے کوئی ’یورپی یونین ‘ کا نام دے یا G-8 ممالک کہہ لے، لیکن یہ سب کے سب سامراجی ممالک ہیں یہ ممالک دنیا جنہیں ترقی یافتہ کہتی ہے، انسانی حقوق کی علمبرداری کا لیبل بھی اِن ہی ممالک پر چسپاں کیا جاتا ہے یاد رہے ’بت پرستی ‘ اور ’سامراجیت ‘ دونوں اپنے بنیادی معنوں کے لحاظ سے انسانی حقوق کے خلاف متحد ویکجا ہیں اِنہیں مسلم دنیا کی مظلوم قوموں مثلاً فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے انسانی حقوق کی کھلی پائمالی دکھائی نہیں دیتی کشمیر اور فلسطین کے انسانی حقوق کو عالمی سامراجی طاقت ور ملکوں نے کبھی کسی عالمی فورم پر نہ اُٹھانے کی اجازت دی نہ کبھی خود اِن ممالک کے ہر عہد کے حکمرانوں نے نئی دہلی اور تل ابیب پر اپنا دباؤ یا اپنا سیاسی پریشر بڑھایا کہ وہ اپنے غصب شدہ مسلم علاقوں میں انسانی حقوق کی بحالی کو مستقلاً حل کرنے کی سعی وجستجو کریں سوال پھر وہی یہ سب ایسا کریں تو ایسا کیوں کریں یہ سب بت پرستی اور عہد جدید کی سامراجیت کی جارحانہ سیاست کے ان داتا ہیں، کبھی کسی حالت میں بھی یہ انسانی حقوق کی بحالی کو تسلیم کر نے پر یہ کبھی آمادہ نہیں ہونگے انسانی عظمتوں کی عہدِ رفتہ کی تاریخوں سے استفادہ کرنے والو ں کو یہ ہی کچھ پڑھنے کو ملے گا ،چاہے امریکا ہو یا مغرب ہو ‘ بر طانیہ ہو یا دنیا کا کوئی اور غیر اسلامی ملک معاشی واقتصادی بت پرستی اور سیاسی سامراجیت پر سخت قسم کے ڈھیٹ بنے ڈٹے رہنے والے یہ سبھی ( نام کے ) بڑے ممالک فی زمانہ آجکل دنیا ئےِ اسلام خصوصاً اسلامی دنیا کے واحد ایٹمی ملک پاکستان کے خلاف اپنے دلوں میں بہت زیادہ اور بہت بڑے سائز کے ’بغض وحسد ‘ کے بت چھپائے بیٹھے ہیں مسلم علاقے مشرقِ وسطیٰ میں اِن سامراجی ممالک نے نئے دور ا ور نئے نام سے جسے کبھی ’لارنس آف عربیا‘ کہا جاتا تھا اِن بڑے ممالک نے آجکل مشرقِ وسطیٰ میں داعش کی تنظیم بنا رکھی ہے اور افغانستان اور پاکستام میں ’ طالبان کے نام سے پہنچانے جا نے والے نئے عہد کے اِنہوں نے ایک نہیں بلکہ کئی قسم کے ’لارنس آف عربیا ‘ کے لشکر کے لشکر داخل کردئیے ہیں یہاں پاکستان میں کیا ہورہا ہے ؟ پاکستانی فو ج جن کا آئینی فرض سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے رینجرز پیرا ملٹری فورس سرحدوں کے اندر امن وامان کے لئے مقامی انتظامی کی مدد کرتی ہے دنیا کے اِن سامراجی عزائم کے حامل ’دوست نما دشمن ملکوں ‘ نے یہ کیسی مکارانہ چال بنی ہے کہ پاکستانی شہروں میں اپنے دہشت گرد گروہوں کو پھیلا کر پاکستانی فوج اور رینجرز کو اندرونی امن وامان کی بحالی میں اِنہوں نے مصروف کرادیا، بحرحال‘ یہ اُن کی خام خیالی کی نمایاں پستی کی صورت ہے موقر اور موثق اطلاعات کے مطابق بڑی خطرناک خبریں گردش کررہی ہیں کہ’’ بھارت کا نریندر مودی آجکل جنوبی ایشیا میں ’پاور ویکیوم ‘ کی خطرناک چال چلنے کے لئے پے درپے اسرائیل کے ساتھ مسلسل مذموم رابطے میں اِس کوشش میں ہے کہ جیسے اسرائیل نے 1998 میں پاکستان کے ایٹمی ڈیٹرنس کے دھماکوں سے قبل اُنہیں تباہ کرنے کی ایک بہیمانہ کوشش کی تھی ’کیا وہ یہ کوشش دوبارہ کرسکتا ہے ‘ چونکہ 1998 میں جو سیاسی حالات پاکستان کے تھے آجکل ویسے حالات نہیں ہیں اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ قوم یکسو نہیں ہے ؟اگر نریندر مودی واقعی اس قسم کے بھیانک جنونی بخار میں مبتلا ہے اور اگر یہودی بھی یہی چاہتے ہیں ،تو اِن بت پرستوں اور سامراجیت پسند عالمی طاقتوں بشمول امریکا اور برطانیہ تک پاکستانی قوم اپنا یہ پیشگی پیغام پہنچا نا انتہائی ضروری سمجھتی ہے دینِ اسلام بھی یہی سبق سکھا تھا ’امن کا پیغام پہنچادیا ‘ اگر یہ عیار ومکار طاقتیں باز نہ آئیں تو جارحیتوں کی تاریخ کے باب کا عبرت ناک ملاحظہ کر لیں اور سمجھ لیں پاکستان نہ تو عراق ہے اور نہ لیبیا‘ افواجِ پاکستان اور قوم دونوں جاگ رہے ہیں یاد نہیں تو یاد کرادیتے ہیں کہ عراق اور لیبیا کے ایٹمی پروگرامز دومطلق العنان حکمرانوں نے اپنی سیاسی شہرت کے حصول کی غرض کے لئے بنائے تھے اور جن کا کوئی نظریہ نہیں تھا وہ خوف اور دہشت کی علامت بننے کے جنون میں مبتلا تھے اور پھر عراق اور لیبیا کے عوام کی بھی اِن ایٹمی پروگراموں کے ساتھ کوئی دلی والہانہ وابستگی نہیں تھی پاکستانی قوم اور پاکستانی فوج اپنے اور کائناتِ عالم کے ربّ العالمن کے حضور سجدہ ریز ہوتی ہے پاکستانی قوم بت پرست نہیں ‘ جبکہ پاکستان اپنے پڑوسی ملکوں کے خلاف کسی قسم کی سامراجیت کا تصور نہیں رکھتا مگر اِس بات میں کوئی شک ہے اور نہ تردد پاکستان کے 18 کروڑ عوام کے دل پاکستانی ایٹمی پروگرام کے ساتھ دھڑکتے ہیں ہاں شب خون مارنے کے شوقین یہ بھی یا درکھیں کہ ہمار ایٹمی پروگرام اب سائنسی ترقی سے بڑھ کر ہمارا ملی عقیدہ بن چکا ہے اور اب ہمیں کوئی ڈرا دھمکا نہیں سکتا ہمارے دشمنوں نے خود ہمارے ایٹمی بم کو اسلامی بم کا نام دیا تھا نا، چلیئے آپ کے دئیے ہوئے اِس نام کو آج ہم قبول کرتے ہیں اب اِس کا دفاع ہمارے عقیدے کا لازمی حصہ بن چکا ہے اِ س کی حفاظت اور تحفظ پاک فوج کی ذمہ داری ہوگی اور وہ اپنی یہ ذمہ داری ہر قیمت پر نبھائیں گے لیکن یہ سن لیجئے کہ 18 کروڑ عوام کی بھی اب پاکستانی فوج کا حصہ ہے بھارت اور اسرائیل مل کر پاکستانی ایٹمی ڈیٹرنس کو’ عراقی اور لیبائی اسٹائل‘ میں شکست د ینے میں کامیاب ہوجائیں گے؟ یہ اور ایسی طفلانہ سوچ احمقوں کی جنت میں رہنے والی بات ہے ۔