Posted date: February 11, 2014In: Urdu Section|comment : 0
نغمہ حبیب
ن 9/11 کو گزرے تیرہ سال سے زیادہ ہو چکے اور تقر یباََ اتنا ہی عرصہ اس دہشت گردی کو ہو گیا ہے جس نے پاکستان کے درو دیوار ہلا دیے ہیں۔ ہر روز دھما کے، قتل، ظلم، دہشت ووحشت کی نئی کہانی رقم ہوتی رہی۔
سوات ، وزیرستان، خیبر، مہمند، ہنگو، شاور، راولپنڈی، کراچی، کوئٹہ غرض ہر صوبہ اس سے متاثر ہوتا رہا ،اپنے مکینوں کی اپنے جوانوں، بوڑھوں اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی لاشیں اٹھا تارہا، پاکستان روتا رہا اور دہشت گرد اپنا مقصد پورا کرتے رہے اور ان کے آقا پاکستان کو کمزور کرنے کا جشن مناتے رہے۔ ہماری ایک نسل اس جنگ کے دوران پیدا ہوئی اور ایک اسی دوران جوان ہوئی انہوں نے ہر روز جو دیکھا جو سنا اُس نے ان کو ذہنی طور پر جس خلفشار میں مبتلاء کیا وہ ایک اور محاذ ہے جس پر ہمیں لڑنا ہے اور ہر صورت اس سے نبرد آزما ہونا ہے اور اس کو شکست دینی ہے ورنہ ہم اگلی نسل تک بھی اس جنگ کے نتائج بھگتنے رہیں گے ۔ ہم یہ تو کہتے ہیں کہ آج کا بچہ شدت پسند ہے لیکن کیوں، اس لیے کہ وہ اپنے معاشرے میں تشدد دیکھتا ہے اور شدت پسند کو آزاد بھی دیکھتا ہے یا اگر وہ گرفتار کر لیا جاتا ہے تو عدالتیں انہیں سزا نہیں سنا تیں اور سزا سنا دی جائے تو اُن پر عمل نہیں کیا جاتا اور یوں ایک ایسا معاشرہ تشکیل پا رہا ہے جس میں مجرم خوف محسوس نہیں کرتا یعنی ایک ایساوار جس سے سنبھلنا بہت مشکل ہوگا۔ سزا و جزا کا عمل دراصل معاشرے کی تعلیم و تربیت اور اس کے سدھار کا ایک عمل ہوتا ہے جس پر عمل نہ کرکے حالات کو اُس نہج پر لایا گیا ہے کہ آج کبھی ہم آپریشن اور کبھی مذاکرات کے مسائل میں پڑے ہیں۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس جنگ میں نوجوانوں کو ہی اس کا ایندھن بنا کر استعمال کیا گیا ۔خود کش حملوں کے لیے ان ہی معصوم نوجوانوں کی برین واشنگ کرکے ان کو جنت کے خواب دکھا کر ان کے جسموں کے پرخچے اڑائے گئے ۔ تعلیمی اداروں میں اس فساد کا بیج بونے کی کوشش کی گئی اور یونیورسٹیوں، کالجوں اور حتیٰ کہ سکولوں میں ایک ایسی ذہنیت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جو معاشرے میں شدت پسندی کو ترویج دے اور ایسا اسلام کا نام لے کر کیا گیا۔ بجائے اسلام کا اصل چہرہ لوگوں کو دکھانے کے کبھی اسے شدت پسند اور کبھی روشن خیال بناکر پیش کیا گیا اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام روشن خیال ہے لیکن اس کی روشن خیالی میں بے راہروی کا شائبہ تک نہیں، نہ ہی یہ شدت پسند ہے بلکہ یہ تو میانہ روہے اور یہ امت، امت وسط ہے یعنی درمیانی امت اور جب ایسا ہے تو ہم اس رویے کو معاشرے میں پروان چڑھانے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ ہمیں تو رواداری اور برداشت کو معاشرے میں فروغ دینے کے لیے کام کرنا چاہیے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ کبھی ایک انتہا اور کبھی دوسری انتہا اس نسل کے سامنے رکھ رکھ کر ہم دوقسم کی انتہا پسندی کو جنم دے رہے ہیں اور ہمارا میڈیا انہیں کچھ اس طرح گلیمرائز کرکے دکھا تا ہے کہ جیسے کوئی بہت عظیم کا رنامہ سرانجام دیا گیا ہو۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کو لڑتے لڑتے قوم کے اعصاب شل ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک بار پھر مسئلے کو مذاکرات سے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، دعا ہے کہ اللہ کرے ملک میں امن قائم ہو اور یہ نسل کسی اچھی یاد کو بھی اپنے سے اگلی نسل کو منتقل کرے ۔لیکن ایک طالبعلم نے مجھ سے پوچھا کیا ہم اُن مجرموں کو بھی رہا کر دیں گے جنہوں نے لوگوں کے سر کاٹے اُن سے فٹ بال کھیلا، ان کی جسم کے اعضاء کاٹے اور میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ کاش کہ جزا و سزا کا عمل پہلے ہی اتنا سخت ہوتا کہ نو بت یہاں تک پہنچتی ہی نہ اور پاکستان کو امن کی خاطر ایسی تجویز پر غور ہی نہ کرنا پڑتا۔ لیکن وہ وقت جب ہم مسائل پر قابو پا سکتے تھے اس وقت انہیں بریکنگ نیوز کے شوق میں اچھالا گیا اورعدالتوں کے پاس ثبو توں کی عدم فراہمی کی ایک خوبصورت توجیہہ بھی تھی۔ میڈیا طالبان یا دہشت گردوں میں عہدے تقسیم کر رہا تھا، ان کے ترجمان کے بیانات نشر کرتا تھا، اینکر حضرات بڑے فخر سے اِن سے اپنے رابطوں کا ذکر کرتے تھے لیکن یہ سوچ کسی کے پاس بھی نہ پھٹکتی تھی کہ دہشت گردی کی تباہی کے ساتھ ساتھ ہم ایک غیر اسلامی رویے اور شدت پسندی کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔ ہمارے میڈیا نے ان متشدد نظریات کے مقابلے پر ایک ایسے طبقے کو پیش کیا جو سوشل ورک کو اپنی نمود و نمائش کا ذریعہ سمجھتا ہے یا ایسے ماڈرن علماء کو لایا گیا جو اسلام کی اپنی ہی تشریح کرتے ہیں ایسے لوگوں کو نہیں ڈھونڈا گیا جو واقعی اسلام کو سمجھتے ہیں۔
اس وقت تو صرف ایک دعا ہے کہ اللہ کرے ملک میں امن قائم ہو اور مذاکرات کا نتیجہ پاکستان کی سلامتی کی صورت میں نکلے لیکن معاشرے کی تعمیر اور نسل نو کی تربیت ایک حساس اور مسلسل عمل ہے جس کے بارے میں ہر ’’بڑے‘‘ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ تعلیمی ادارے، عدالتیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے، قانون ساز ادارے یعنی اسمبلیاں، میڈیا اور سول سو سائٹی ہر ایک اس کو اپنی ذمہ داری سمجھے گا اور اپنے اپنے دائرہ کار میں سب کو اس پر کام کرنا ہوگا۔ ان کے لیے تعلیم ، تربیت اور روز گار کا بندوبست کرنا ہوگا تاکہ وہ دہشت گردی، شدت پسندی اور بھتہ خوری میں اپنی جائے امان نہ ڈھونڈے اور ملک کے کار آمد شہری بن سکیں اور اسلام کو امت وسط اور پاکستان کو اسلام کا ایسا قلعہ بنا دیں جہاں ہر مسلمان بلکہ غیر مسلم کے بھی جان و مال محفوظ ہوں اور خود یہ نوجوان صحیح معنوں میں ایک با عمل مسلمان کی بہترین مثال ہوں۔