Posted date: April 01, 2017In: Urdu Section|comment : 0
علی سخن ور
بھارت کی طرف غیر معمولی جھکاؤ کے باعث ممکن ہے بہت سے پاکستانی امریکا کو پاکستان کے دوستوں میں شمار کرنے سے ہچکچاتے ہوں، لیکن بین الاقوامی مراسم کی دنیا میں دوستیوں اور دشمنیوں کی بنیادیں ہم عام انسانوں کی زندگی سے بالکل ہی مختلف ہوتی ہیں۔ ملکوں کی سطح پرروز مرہ کے واقعات، دوسروں کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں، نامناسب فیصلوں اور دہشت گردوں کے ایک بین الاقوامی نیٹ ورک کی کاروائیوں کے نتیجے میں عارضی اور وقتی نوعیت کی دوریاں ضرور پیدا ہوجاتی ہیں لیکن ان بنیادوں پر نفرتوں اور مخالفتوں کے قلعے تعمیر نہیں کیے جاتے، اگر بین الاقوامی مراسم کی بنیادیں ان ہی وجوہات پر قائم ہوتیں تو آج امریکا اور جاپان کسی صورت بھی پیار محبت اور دوستی کے گیت نہ گا رہے ہوتے۔اس بات کا یقین رکھیے کہ امریکا کسی طور بھی پاکستان کا دشمن نہیں ہے۔امریکا نے کئی بار انتہائی مشکل حالات میں پاکستان کا ساتھ بھی دیا ہے اور پاکستان کی مدد بھی کی ہے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکا پاکستان یا کسی بھی اور ملک کی طرف مدد اور تعاون کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے اپنے مفادات کو ضرور پیش نظر رکھتا ہے۔اور صرف امریکا ہی نہیں، دنیا کے تمام ممالک دوسرے ملکوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے اپنے مفادات کو ہر صورت پیش نظر رکھتے ہیں۔حال ہی میں نیپال کے وزیر اعظم مسٹر پرچانڈہ نے چین کا ایک طویل دورہ کیا، اس چھ روزہ دورے میں چین اور نیپال کے درمیان تجارت اور مواصلات کے شعبوں میں خصوصی طور پر بات چیت ہوئی۔ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کو ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا،ساتھ چلنے کے وعدے بھی کیے، لیکن اس کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں کہ چین اور نیپال کے بیچ سب کچھ ہمیشہ اچھا رہا ہے۔ 1950-51میں جب چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے تبت کے علاقے میں مداخلت کی تو نیپال نے اس مداخلت کو اپنے لیے خطرے کی گھنٹی محسوس کرتے ہوئے، بھارت کی طرف اچانک سے دوستی کا ہاتھ بڑھادیا۔چین اور بھارت کے درمیان تعلقات ہمیشہ ہی سرد مہری کا شکار رہے ہیں لہذا نیپال کے اس فوری ایکشن کے ردعمل میں چین نے اپنے ملک میں نیپالیوں کے داخلے پر پابندی لگادی تھی اور 1955میںیہ پابندی ختم کی گئی تھی۔تاہم بھارت سے دیرینہ مخاصمت کے باعث چین کے لیے ضروری تھا کہ نیپال سے اپنے روابط کو مضبوط تر کرے کیونکہ اس چار پانچ برس کے عرصے میں بھارت نے نیپال کے اقتصادی، معاشی اور سب سے بڑھ کر سیاسی نظام پر اپنی گرفت بڑی حد تک مضبوط کر لی تھی۔نیپال میں بھارت کی مداخلت اس قدر بڑھ چکی تھی کہ 1950میں بھارت نے انڈین آرمی مشن کے نام سے اپنے کچھ فوجی دستے بھی مستقل بنیادوں پر نیپال میں تعینات کر دیے۔بھارت کے اس عمل نے نیپال کے لوگوں میں شدید نفرت کو جنم دیا اور بالآخر شدید عوامی ردعمل کے بعد بھارت کو یہ دستے واپس بلانا پڑے۔ان ساری تفصیلات میں جانے کا مقصد آپ کو یہ بتانا ہے کہ عالمی سطح پر دوستیاں اور دشمنیاں قوموں کے باہمی مفادات سے براہ راست منسلک ہوتی ہیں۔اگر امریکا بھارت کی طرف جھکاؤ ظاہر کر رہا ہے تو اس کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں کہ امریکا کو بھارت سے عشق ہوگیا ہے اور اب یہ رشتہ کبھی نہیں ٹوٹے گا، پھر یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ پاکستان کی اپنی ایک الگ حیثیت ہے، چین ، جاپان،روس،ایران یا کوئی بھی ملک اگر پاکستان سے اپنے مراسم کو مضبوط کرنے کی جدوجہد کرتا ہے تو یہ پاکستان کی اسی حیثیت کا نتیجہ ہے۔آپ کو پاکستان کے قرب و جوار میں ایسے ممالک بھی نظر آئیں گے جن کی حکومتیں پاکستان کو بالکل بھی پسند نہیں کرتیں لیکن وہاں بسنے والے لوگوں کی رگوں میں پاکستان دوڑتا ہے، افغانستان اس حوالے سے سب سے بڑی مثال ہے،اگرچہ ایک خوشحال اور پر امن افغانستان ہمیشہ ہی پاکستان کی خواہش رہا ہے لیکن افغانستان کسی طور بھی پاکستان کی ضرورت نہیں، تاہم وہاں بسنے والوں کی پاکستان سے محبت پاکستان کو افغانستان سے رشتہ توڑنے نہیں دیتی۔ابھی کچھ روز پہلے پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد عارضی طور پر بند کردی، پھل سبزی آٹا چینی غرض بہت کچھ راستے میں رک گیا، افغانستان کا چند ہی دن میں کباڑا ہوگیا، صدر اشرف غنی جھوٹی سچی کہانیاں سناتے رہے، اپنے لوگوں کو دلاسے دیتے رہے کہ ہم پاکستان سے کوئی رابطہ نہیں چاہتے لیکن افغانستان میں بسنے والے بے شمار پاکستان دوستوں کی محبت میں مجبور ہوکر پاکستان کو یہ بندش ختم کرنا پڑی۔
پاکستان کو فوجی سازو سامان فراہم کرنے والے ملکوں میں چین سرفہرست ہے اور چین کے بعد دوسرا نمبر امریکا کا ہے۔اس کے علاوہ پاکستان میں عوامی فلاحی منصوبوں کے آغاز اور تکمیل کے لیے سب سے زیادہ مالی معاونت کرنے والا ملک بھی امریکا ہی ہے۔امریکی صاحبان اختیار سے یہ سوال بارہا کیا جاتا رہا ہے کہ امریکا پاکستانی عوام کی فلاح و بہبود پر اپنے بے بہا وسائل کیوں صرف کرتا ہے۔اس سوال کا ہمیشہ ایک ہی جواب دیا گیا کہ پاکستان مدت سے غیر ملکی تعاون پر پلنے والے دہشت گردوں کے قہر کا نشانہ ہے، پاکستان کی حکومت، پاکستان کے سیکیورٹی اور انٹیلی جنس ادارے اور پاکستانی عوام ایک عرصے سے ان دہشت گردوں کا بڑی بہادری سے مقابلہ کر رہے ہیں ، اس ساری جدوجہد میں پاکستان کا اقتصادی ڈھانچہ بھی بری طرح متاثر ہوتا ہے، امریکا دنیا بھر میں ہر قسم کی دہشت گردی کو ختم کرنے کی خواہش بھی رکھتا ہے اور عزم بھی، پاکستان اس خواہش اور عزم میں اس کا قریب ترین ساتھی ہے، لہذا پاکستان کو دہشت گردوں سے مقابلے کے لیے طاقتور بنانا امریکی پالیسی کا حصہ ہے۔ تاہم بھارت اور افغانستان جیسے سیاسی بصیرت سے عاری اور تعصب کے بوجھ تلے دبے ملکوں کو پاک امریکا تعلقات کی یہ گرمجوشی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔افغان میڈیا کے کچھ گروپ تو ہر لمحے اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کسی طرح پاکستان اور امریکا کے درمیان غلط فہمیوں کو فروغ دیا جائے۔یہ فروری کے آخری ہفتے کی بات ہے کہ امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل جوزف فرانسس سے BROOKINGS INSTITUTEمیں ایک کورس کے شرکاء نے سوال کیا کہ امریکا کے چھ بڑے مسائل میں سے آخری نمبر پر کون سا مسئلہ ہے۔ جنرل صاحب لمحے بھر کو مسکرا ئے اور پھر بولے،’SOLVENCY’تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جنرل فرانسس کا اشارہ ان اقتصادی ذمے داریوں کی طرف تھا جو دنیا میں امن کے فروغ کے لیے امریکا نے خود سے اپنے آپ پر لاد لی ہیں اور جن کو جاری رکھنے سے امریکا کو اقتصادی مسائل کا سامنا ہے۔ لیکن افغانستان کے TOLOنیوز چینل نے جنرل جوزف کے بیان کو توڑ مروڑ کرپیش کرتے ہوئے کہا کہ جنرل صاحب نے پاکستان کو امریکا کا چھٹا بڑا مسئلہ قرار دیا ہے۔ٹولو نیوز چینل نے یہ غلط بیانی صرف اس لیے کی کہ اس طرح پاکستانی عوام میں امریکا کے لیے نفرت اور ناپسندیدگی کے جذبات کو ہوا ملے۔اس طرح کی الزام تراشیاں بعض دفعہ خود امریکی اخبارات میں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔30جنوری 2017کے واشنگٹن پوسٹ میں بھی ایک مضمون شائع ہوا جس میں دعوی کیا گیاکہ پاکستان دہشت میں القائدہ کی اعلی قیادت پناہ گزین ہے ۔ امریکا میں تعینات پاکستان کے پریس منسٹر سینیئر سفارت کار جناب عابد سعیدنے واشنگٹن پوسٹ ہی میں اس الزام کا جواب دیتے ہوئے لکھا ،’ پاکستان نے آج تک دہشت گردی کے خلاف جو کاوشیں کی ہیں،دنیا ان سے آشنا بھی ہے اور ان کی معترف بھی ہے۔ اس طرح کی الزام تراشیوں سے اور تو کچھ نہیں ہوگا البتہ دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی کاوشوں کو زک ضرور پہنچے گی‘۔ یقیناًہمارے پاکستانی میڈیا کو بھی اس حوالے سے ایک بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔