Posted date: March 19, 2015In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
کوئی پاکستانی تجزیہ کار اور سیاسی دانشور اِس بیّن حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان کے معاشی قلبِ ماہیّت کے لئے وضع کی جانے والی کسی بھی تخلیقی اور حقیقت پسندانہ منصوبے یا اسکیم کا مرکز ومحور ’زراعت ‘ کے شعبہ کے علاوہ کوئی دوسرا شعبہ بھی ہے؟ پہلے ہم یہ سمجھ لیں کہ پاکستان کی معاشی واقتصادی ترقی کی کلید ’زراعت کی ترقی ‘ ہے جو ہماری مجموعی قومی پیدا وار کا آج بھی غالباً 50-60 فی صد تو حصہ بنتا ہی ہے اور تقریباً70-75% آبادی کا بلواسطہ اور بلا واسطہ تعلق زراعتی شعبے سے وابستہ ہے، اگر یہ باتیں قوم کی سمجھ میں آجائیں ہمارے قومی قائدین یہ مان بھی لیں یہاں ماننے سے صرف کام نہیں چلے گا، بلکہ پاکستان کی زراعت کی طرف ہنگامی ترقی کرنے کی جانب توجہ دینے سے ہی موثر بات بنے گی یعنی یہ کہ پاکستان کی ترقی اور عوام کی معاشی خوشحالی کے لئے زراعت کی ترقی ناگزیر سمجھی جائے، صرف بلند بانگ دعوے نہ کیئے جائیں‘ ملک کے سبھی لیڈران‘ چاہے اُن کا تعلق حکومتی بنچوں سے ہو یا وہ حزبِ اختلاف سے تعلق رکھتے ہوں وہ اپنے تمام تر سیاسی حکمتِ عملی کے قیمتی وسائل پوری ہمہ گیر شدت کے ساتھ اپنے ملک میں زرعی انقلاب بپا کرنے کے لئے وقف کردیں 22؍ مارچ آج دنیا بھر میں ’پانی کا عالمی دن ‘ منایا جارہا ہے، یہ یاد رہے کہ ’پانی اور کائنات ‘ کا چولی دامن کا ساتھ ہے، قرآنِ حکیم میں پروردگارِ عالم نے کئی مقامات پر مختلف انداز میں ارشاد فرمایا ہے کہ ’ہم نے ہر چیز پانی سے بنائی ہے ‘ پانی جیسی نادر و بے مثال اور قیمتی نعمت کی اہمیت و افادیت اہلِ ایمان اقوام سے زیادہ کوئی اور نہیں جان سکتا، شائد یہ ہی وجوہات ہونگی کہ عہد جاہلیت میں کئی اقوام کے درمیان میں کئی برسوں تک ’پانی ‘ کے حصول پر بڑی بڑی خوفناک مشہور جنگیں لڑی گی ہیں، عہدِ ماضی کی طرح آج بھی یہ ہی پانی ہماری آپ کی اوّلین ضرورت ہے جس کی افادیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا، عالمی اقوام کے ساتھ اہلِ پاکستان بھی آج22 ؍ مارچ کو ’پانی کے عالمی دن ‘ موقع پر قدم بہ قدم دنیا کے ساتھ اپنا یہ عہد کرتے ہیں ،’پانی جیسی الہیٰ نعمت ‘ کے تحفظ کے لئے وہ دنیا کی کسی قوم سے کبھی پیچھے نہیں رہیں گے، قدرت نے ‘ پر وردگارِ عالم نے اپنے منصفانہ عدل کی بنیاد پر اِس کرہّ ارض پر بسنے والی ہر قوم کے انسانوں کے لئے جہاں بھی اور جتنا بھی وافر یا محدود مقدار میں پانی کے حصول کے مواقع فراہم کیئے ہیں بحیثیتِ پاکستانی مسلمان قوم ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم پنے حصہ سے زیادہ کسی دوسری قوم کے حصے میں آنے و الے پانی پر نہ تو قبضہ کریں گے اور نہ اُ ن کے پانی کو کہیں کسی بہانے سے روکنے کی کوئی مذموم انتہائی کوشش کریں گے چونکہ ہمارے سامنے عہد جاہلیت کی وہ خونریز جنگیں بطور ’عبرت ‘ آج بھی موجود ہیں پانی ہر انسان کا بنیادی حق ہے کوئی کسی کا ایک قطرہ پانی روک نہیں سکتا یہ طویل تمہیدی اور تفصیلاتی بحث ہے طوالت سے پہلو بچاتے ہوئے یہاں ہم اپنا اشارہ اپنے اُس غصب شدہ پانی کے حصہ کی طرف اقوامِ عالم کی توجہ دلانا چاہتے ہیں، ہمارے حصہ کے جس قدرتی اور فطری پانی پر ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے ’سندھ طاس معاہدے ‘ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہمارے دو بڑے دریاؤں میں بہہ کر آنے والے پانی کو مقبوضہ جموں وکشمیر میں غیر قانونی طور پر نہ صرف روکنے کے لئے ناجائز ڈیمز اور آبی توانائی کے منصوبے بنائے رکھے ہیں یا اُن غیر قانونی منصوبوں کو پاکستانی آبی ماہرین کی پیشہ ورانہ رائے کو خاطر میں نہ لاکر آج اُن غیر قانونی آبی منصوبوں پر اپنا تعمیراتی کام جاری رکھا ہوا ہے بین السطور عرض کیئے گئے نکات کی روشنی میں بھارت کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ 22؍ مارچ یعنی آج ’پانی کے عالمی دن ‘ کے موقع پر اپنے ہاں کوئی سمینار منعقد کرئے، یا دنیا کے کسی بھی عالمی فورم پر پانی کی اہمیت وافادیت پر اپنا کوئی بیان جاری کرئے مگر پانی کی عالمی منصفانہ تقسیم کے معاملہ پر خود چپ کا روزہ رکھ لے یا دیدہ دلیری کا مظاہر ہ کر تے ہوئے پاکستان کے غصب شدہ پانی پر اپنا کوئی منفی تجزیہ پیش کرکے دنیا کو گمراہ کرئے ایسا بھارت ضرور کرئے گا آج چونکہ دنیا بھر میں ’پانی کا عالمی دن ‘ منایا جارہا ہے سب قوموں کو اپنے گریبانوں میں بھانک کر یہ فیصلہ کرنا ہے، بہت سی انصاف پسند اقوام ضرور یہ فیصلہ کرچکی ہونگی کہ اُنہوں نے کہیں جانے انجانے میں اپنے کسی پڑوسی ملک یا قوم کے حصہ میں قدرتی طور پر آنے والے پانی کے راستہ کو روکنے یا اُسے کہیں ’بلاک ‘ کرنے یا کسی اور مذموم مقاصد کے تحت اپنے پڑوسی ملک کے پانی کو اسٹور کرنے کی کوئی انتہائی غیر انسانی اور غیر مہذبا نہ مذموم کوشش تو نہیں کی ؟ ’کشمیر پاکستانی کی شہ رگ ہے ‘ یہ معنی خیز جملہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا ؟ جب بانیِ پاکستان یہ فرما رہے تھے تو اُس وقت
کانگریسی لیڈر ایک دوسرے سے کانا پھوسی کرتے ہوئے پائے گئے تھے ’ پاکستان زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہ سکتا ‘ یہ ولبھ بھائی پٹیل جیسے انتہا پسند جنونی ہندو لیڈر‘ جو اصل میں تو آر ایس ایس کی متشدد تنظیم سے وابستہ تھے مگر گاندھی اور نہرو کو دھوکہ دینے کے لئے اپنے اُوپر ایسوں نے ’کانگریسی لبادہ ‘ اُوڑھا ہوا تھا ’پاکستان کی زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہنے کی ’تھیوری ‘ ولبھ بھائی پٹیل جیسے جنونی ہندو لیڈروں نے نہرو کو سوجھائی اور یہ بھی یا درہے کہ اُس وقت تک مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی فوجیں اتر چکی تھیں غالباً1948 کی پہلی پاک بھارت جنگ کی عالمی فائربندی ہوچکی تھی‘ معاملہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پہنچ چکا تھا نہرو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کروانے کا باقاعدہ اقرار تک کرچکا تھا ویسے یہ بڑا نازک اور حساس موقع تھا کہ پاکستان اور مسلمانوں کے بدترین دشمن بلکہ خطرناک درندہ صفت ولبھ بھائی پٹیل نے اُن دنوں یہ بیان دیا تھا کہ پاکستان اب زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہ سکتا ؟( خداکی اُس پر بے شمار لعنت ہو ) بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی سیاسی دور اندیشی ‘ دور بیں بصیرت نے مقبوضہ جموں وکشمیر کو ہر حالت میں آزاد کر وانے کی جہاں ضرورت کا احساس کیا وہاں وہ یہ بخوبی اندازہ لگا چکے تھے کہ پاکستان کا ’دریائی پانی ‘ مقبوضہ جموں وکشمیر سے آتا ہے اہلِ کشمیر کی ملی و قومی آزادی جہاں اُن کے لئے بے حد ضروری ہے‘ وہاں کشمیر سے بہہ کر پاکستان میں آنے والے پانی سے پاکستان کی زندگی کا بنیادی سوال وابستہ ہے افسوس صد ہا افسوس! ہمارے حکمرانوں نے بہت وقت ضائع کردیا مہلت پر مہلت کی وجہ سے بھارت نے مسئلہ ِٗ کشمیر کی جگہ کئی بنیادی نوعیت کے مزید الجھے ہوئے گنجلک اور پیچیدہ مسائل کے انبار کھڑے کردئیے، لے دیکے دوطرفہ تجارت کا ایک اور مسئلہ کھڑا کردیا گیا ؟کہتے ہیں حوصلہ مند لوگ مشکل وقت گزار جاتے ہیں حوصلہ مند قائدین آج کے پاکستان میں کسی کو نظر آ رہے ہیں 9/11 کے بعد مسئلہ ِٗ کشمیر کی بنیادی نوعیت ہی تبدیل ہوگئی ہے، پاکستان کے دونوں مشہور دریا جہلم اور چناب جنہیں پاکستانی اپنی شہ رگ قرار دیتے رہے وہ خشک نظر آتے ہیں پاکستان کا موجودہ پنجاب جو اِس خطہ میں کبھی ’خوراک کا گھر ‘ کہلا تا تھا آج خود’دانے دانے ‘ کا محتاج ہو گیا ہے ؟اِس انسانی جرم کا اصل ذمہ دار کون ہے ؟ جرائم کی یہ ایک اور نئی تاریخ خودبخود بن رہی ہے لیکن‘ یہ تاریخ پڑھے گا کون ؟ نریندر مودی کا بھارت پاکستانیوں کو زندہ رہنے دے گا ؟ پاکستان کا ہر ذمہ دار حکمران چاہے وہ ماضی کا ذمہ دار حکمران ہو یا آج کا حکمران ‘اُسے فی الفور ا پنے گریبانوں میں جھانک لینا چاہیئے کاش کہ وہ باضمیر بھی ہو۔