پاکستان کو بدنام کرنے کی نیت ۔ ایرانی سرزمین کا استعمال؟؟
Posted date: April 21, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
کوئی قوم ‘ کوئی طبقہ ہم میں سے بالکل بے قصور نہیں ہوتا معلومات کی عدم فراہمی کی بناء پر کوئی نہ کوئی غلطی سرزد ہو جاتی ہے جدید سیاست وسفارت کی اِس مصروف ترین اکھاڑ پچھاڑ میں ایسا ہوجانا کوئی انہونی نہیں‘ مگر جہاں دوملکوں اور دوایسی قو میں جو باہم یکجا ‘ ایک دوسرے پر مخلصانہ اعتماد رکھتی ہوں، پڑوسی اور پھر ہم مذہب بھی ہوں،
جن کا ساتھ صدیوں کی شاندار قابلِ فخر تاریخ پر مشتمل ہو، ایک جیسی سماجی ومعاشرتی ثقافت ‘ جن کے مذہبی رسومات میں دوئی نہ پائی جاتی ہو، جن کی سوچ ونظر کی گیرائی وگہری اور مستقبل کے سمتوں کا ایک ہی مقصد ہو، پاکستان اور ایران د و برادر دوست ملک، جن کی دوستی ہر عہد میں پُر اعتماد رہی، ماضی میں کبھی کوئی شکایت کسی جانب سے سنی نہیں گی، پاکستان نے ہمیشہ ایران کا ایران نے ہمیشہ پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا ہے، ماضی میں جب بھی پاکستان پر بھارت نے اچانک جنگی جنونی مصائب ٹھونسے، ایران کے ہر عہد کی حکومت اور ایرانی عوام کو پاکستانی عوام نے اپنے ساتھ اپنے موقف پر اکھٹا کھڑا پایا، ایران اور پاکستان ہمیشہ یک جان رہے ،مگر اچانک یہ کیسے اور کیونکر ممکن ہوا ؟پاکستانیوں کا دل نہیں مانتا کہ ایرانی حکمران پاکستانیوں کو کبھی اِس قدر مایوس کرسکتے ہیں؟ برادر مسلم ملک ایرا ن کے سیاسی‘سماجی اور خصوصاً اقتصادی مفادات کا تحفظ ایران کا اوّلین اور پہلا حق ہے جس میں دخل اندازی کرنے کا کسی دوسری قوم کو، چاہے وہ پڑوسی ملک پاکستان ہی کیوں نہ ہو؟ کسی کو حق نہیں پہنچتا مسلم ملک ایران کے اِس حق کو کوئی چیلنج کیونکر کرئے کہ وہ مغرب سمیت امریکا سے بھارت‘ افغانستان یا مسلم دشمن ملک ’اسرائیل ‘ کے ساتھ اپنے اقتصادی مفاد ات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے داخلی اور بیرونی تعلقات کن خطوط پر استور کرئے؟ موجودہ ایرانی قیادت اِس ذاتی معاملے کو زیادہ بہتر سمجھتی ہے مگر پاکستانی بڑی درد مندی اور دلسوزی سے اپنے خطے میں جہاں کل تک پاکستان اور ایران ایک نکتہ ِٗ نگاہ رکھتے ہوئے اپنی اپنی قوم کے محفوظ مستقبل ‘ محفوظ اقتصادی مفادات اور اپنی مشترکہ ملی وثقافتی اقدار کا باہم مل جل کر فیصلہ کرنے میں شہرت رکھتے تھے شائد لگتا ہے اِسے کسی کی ’نظر‘ لگ گئی؟ وہ جوکوئی بھی ازلی ’بد نیت ‘ ہوگا پہلے بھی پاکستان کو کبھی نہ بھایا اگر ایران کی موجودہ قیادت سمجھتی ہے وہ بھارت ہے یا پھراسرائیل؟ یہاں افغانستان کو بھی شامل کرلیا جائے تو سمجھ لیں کہ وہ اِن میں شامل ہے ایران کو یہ ’نیاU ‘ٹرن لیتے ہوئے اِس فریبِ نظر کا عمیق جائزہ ضرور لے لینا چاہیئے کہ بھارت ‘ اسرائیل اور افغانستان یہ تینوں ملک ایران کے پڑوسی مسلم ملک پاکستان کے گرد اپنا گھیرا تنگ کرنے کے لئے ایران کی جغرافیائی اہمیت سے وقتی فائدہ اُٹھانا چاہ رہے ہیں ایران کو ’استعمال ‘ کرنے کی نیت سے دوستیوں کے ہاتھ بڑھانے میں اپنی اپنی اقتصادیات کی عاقبت کو مضبوط کرنے میں ’بے حد ضررساں ‘ کے تسلیم شدہ شیطانی فارمولوں کو آزمانے کی پہلی قسط اُنہوں نے ایران سے یوں ادا کر وائی جس کا خود ایران کو بھی علم نہیں ہوسکا بلوچستان سے ملحق ایرانی صوبہ سیستان جو ایک عرصہ سے تہران حکومت سے مسلسل نبردآزما دہشت گرد ’جنداللہ ‘ کے سرکشوں کا گڑھ ہے کبھی ایرانی اور کبھی پاکستانی حکومت کی سرحدوں کے اندر گھس کر یہ مسلح افراد جنہیں امریکی سی آئی اے ‘ افغانی انٹیلی جنس ‘ اسرائیلی خفیہ ادارے اور بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کی ہر قسم کی مالی معاونت حاصل رہتی ہے، ایک زمانے سے ایران اور پاکستان کے مابین تناؤ اور کھنچاؤ کو بڑھاوادینے میں مصروفِ عمل تھے اب بھی ہیں، کل کی بہ نسبت آجکل یہ دہشت گرد سمجھتے ہیں اِنہیں اب ’کچھ کامیابیاں ‘ حاصل ہونے کی امیّد پیدا ہوگئی ہے گزشتہ دنوں جہاں مغرب اور امریکا نے ایران کی جانب نظرِ التفات کی یقیناًکچھ اور وجہات اور توجیحات ہونگی ؟
جب سے ایران کی حکومت نے اپنے چند ایک سرحدی محافظوں کے اغواء کے معاملے پر پاکستان سے ’سخت ‘ ناقابلِ یقین ’دھمکی‘ جیسے درشت لہجے میں اپنے مطالبات دہرائے تو محسوس ہوا جیسے وہ اپنے کسی دشمن ملک سے بات کررہا ہو؟ ایرانی حکومت ماضی میں ایسا لہجہ ہمیشہ امریکا ‘ مغر ب اور اسرائیل کے لئے استعمال کیا کرتا تھا، پاکستان ایران تعلقات پر بھارتی اور اسرائیلی آسیب کا سایہ اچانک نہیں آن پڑا ،گزشتہ دنوں قبل اپنے قومی مفادات کی جستجو میں مگن ‘ علاقائی اور عالمی معاملات میں پاکستانی سلامتی پر نظر رکھنے والے اُن لمحات میں بڑے حیران ومتعجب ہوئے جب اُنہیں علم ہوا کہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے بڑے حصے کے نکل جانے کے بعد وہاں یعنی، افغانستان کے داخلی و بیرونی حساس انتظامی معاملات کی نگرانی کا اہم فریضہ ’نئی دہلی ‘ کے احکامات کے تابعِ فرمان ہوگا ؟وائے مقام حیرت کہ ’ایران جیسے مسلم ملک نے اِس اہم معاملہ پر مغرب ‘ اسرائیل اور امریکی خفیہ کارفرمائیوں کی ’خوبُو ‘ کی سنجیدہ سنگین حساسیت کو در خورِ عتنا سمجھنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی ‘ پاکستانی قوم کیا اب یہ سمجھ لے کہ کل کلاں کو جب بھارت کی طرح ‘ افغانستان کی طرح اب ایران سے بھی ایسی آوازیں اور چیخ وپکار دنیا سنے گی مثلاً ’ پاکستان سے ایران میں دہشت گردی درآمد ہورہی ہے؟‘ نجانے قابلِ ستائش ‘ جراّتِ مردانہ اور ایمانی طاقت وقوت سے سرشار ‘ عالمی طاقتوں کی شیطانی سرگرمیوں سے بے خوف‘ نڈر اور بیباک ایرانی قیادت کا وہ طرّہِ امتیاز کہاں سرد پڑ گیا؟ جس کی گرمیِ ایمانی کی تپش اہلِ پاکستان بھی محسوس کیا کرتے تھے ؟یہ ہے ’ولایتِ فردی ‘ کا وہ لازوال تحفہ ‘ جس میں کل کی ایمان افروز مسلم قیادت کا ایمان تھا کہ ’’مسلمان معاشرہ اپنے وجود کے باہر موجود عناصر سے نہ منسلک ہوتا ہے نہ غیر مسلموں سے حد سے زیادہ وابستہ‘ایرانی قوم اِس بات پر پختہ اور مستحکم یقین رکھتی ہے ہم ہرگز یہ نہیں کہہ رہے کہ عالمِ اسلام کو سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے اپنے آپ کو دنیا سے الگ تھلگ کرلینا چاہیئے، کسی بھی غیر مسلم قوم ‘ ملک اور طاقت سے رابطہ نہیں رکھنا چاہیئے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اُسے اُن سے وابستہ ‘ پیوستہ اور اُن کا تابع نہیں ہونا چاہیئے ایران کو دنیا کی دوسری طاقتوں میں مدغم نہیں ہونا چاہیئے بلکہ ایران اپنی خودمختاری کی حفاظت کرئے، اپنے قدموں پر کھڑا ہو، دنیا کے مسلمان ملکوں ‘ خاص کر پڑوسی مسلم ملکوں میں ہونے والی سامراجیوں کی در اندازی میں انصاف کی بنیاد پر ایران کو مسلمانوں کا جراّت مندی کے ساتھ کھڑا رہنے کی بھرپور ایمانی تاکید ہے ‘
ایران کے عظیم رہبر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ایک اہم خطاب سے نقل کیئے گئے اِس اقتباس سے موجودہ ایرانی قیادت کیا مستفید ہونا پسند فرمائے گی؟ اُنہیں یہ سوچنا ہوگا وہ اپنی سرزمین کو پاکستانی ایٹمی اثاثوں کے خلاف کسی عالمی شیطانی قوت کو استعمال کرنے کی اجازت دیں گے؟ کینڈا کے وزیرِ امیگریشن مسٹر الیگزینڈر نے اپنی بدنامِ زمانہ کتاب ’ طویل سفر‘ میں اپنی یہ مبینہ تجویر ایران کی جانب تیزی کے ساتھ تعلقات بڑھا نے والی ہر عالمی سامراجی طاقتوں کو دی ہے پاکستان پر مستقبل کی ’متوقع‘ دہشت گردی کا لیبل چسپاں کرنے میں سی آئی اے نے اہلِ ایران کو اُکسانے کا جو انتہائی نچلے درجے کا مذموم اور گھٹیا ارادہ ظاہر کیا یہ اُس کی بدترین بدنیتی کا مظہر تو ہے یہی، مگر اِس سے بڑھ کر یہ بات بھی اب ڈھکی چھپی نہیں رہی امریکا اور مغرب نہ صرف کتنے زیادہ لالچی اور خود غرض ہیں بلکہ بنیادی انسانی حقوق کے منحرف اور انسانیت کے امن وسکون کو کسی قیمت پر بھی غارت کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔