نغمہ حبیب
ایٹمی ملک تو پاکستان بھی ہے اور بھارت بھی لیکن اہل مغرب کو فکر اور پریشانی پاکستان کے ہی ایٹمی اثاثوں اور ہتھیاروں کی پڑی رہتی ہے اگر چہ کبھی کبھی وہ منہ کا ذائقہ بدلنے کو بھارت کی ایٹمی قوت کے بارے میں بھی ذکر کر دیتے ہیں لیکن پاکستان کو ہدف تنقید بنانا ان کی عادت ثانیہ بن چکی ہے جس کے ذریعے وہ مسلمانوں کے خلاف اپنا تعصب نکالتے رہتے ہیں۔ ان ہدف تنقید ملکوں میں کوریا، ایران اور لیبیا وغیرہ بھی شامل ہیں اور کوریا کے علاوہ اس تنقید کا نشانہ مسلمان ممالک ہی بنتے ہیں بلکہ ان پر ، معاشی، سفارتی، تجارتی، اور معلوم نہیں کون کون سی پابندیاں لگا دی جاتی ہیں۔ پابندیاں ہی کیا مسلمان ملکوں پر تو اسی بہانے حملہ کر دیا جاتا ہے اور اُن کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی ہے اور ہونے والے قتل عام میں فوج یا سول ، چھوٹے بڑے یا بوڑھے اور یا عورت اور مرد کی کوئی تخصیص نہیں ہوتی۔ عراق اور افغانستان کے جنگی واقعات اس کے گواہ ہیں۔ پاکستان اگر اب تک تنقید کا نشانہ بن رہا ہے اور کھلی جنگ اور حملے سے بچا ہوا ہے تو صرف اور صرف اس ایٹم بم کی وجہ سے جسے یہ لوگ اسلامی بم کا نام دیتے ہیں۔
پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں کچھ عرصے بعد کوئی نہ کوئی شوشا ضرورچھوڑا جاتا ہے اور اب کی بار یہ فریضہ مائیکل کلگمین نے سر انجام دیا ہے اور اس تنقید کو کوئی بنیاد فراہم کرنے کے لیے جو بہانہ تراشا گیا ہے وہ ہے جنرل خا لد قدوائی کی سٹر یٹیجک پلاننگ ڈویژن یعنی ایس پی ڈی کے سربراہ کی حیثیت سے سبکدوشی اور لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات کی اس ذمہ داری پر تعیناتی ۔ جنرل قدوائی ایس پی ڈی کی ابتداء یعنی 1999 سے ہی اس اہم ذمہ داری کونبھا رہے تھے اور اسے بحسن و خوبی نبھایا بھی لیکن ظاہر ہے ذمہ داریوں اور ذمہ داروں کی تبدیلی تو ایک قانون ہے جو کہ ہر جگہ لاگو ہوتا ہے اور ایسا بھی نہیں تھا کہ اب تک پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں بے جا تنقید نہیں کی گئی۔ مائیکل کلگمین کو تشویش لا حق ہے کہ دہشت گرد اور طالبان کسی اہم ائیر بیس پر حملہ کر کے یہ ہتھیار اپنے قبضے میں لے سکتے ہیں تو پاکستانیوں کا سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ نے اپنے ایٹمی ہتھیار فٹ حالت میں عام نمائش کے لیے واشنگٹن یا کیلیفو ر نیا یا نیو جرسی یا کسی اور ریاست میں کسی چوک پر یا کسی ائیر پورٹ میں کسی جہازکے ہینگر میں رکھے ہوئے ہیں جو وہ پاکستان کے بارے میں ایسی تنقید کرتا ہے ۔ وہ سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں ایک بہت بڑا اور مضبوط ادارہ یعنی سٹریٹیجک پلاننگ ڈویژن اسی کام پر مامور ہے کہ ان اثاثوں کی حفاظت کرے ۔مسٹر ماٹیکل کو یہ بھی خوف ہے کہ پاکستان ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار بنا رہا ہے جس سے وہ بھارت میں مخصوص اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے اور ان ہتھیاروں کا دہشتگردوں کے ہاتھ لگنے کا آسان امکان موجود ہے۔
مسٹر کلگمین اگر یہ تجزیہ کرتے ہوئے سوچ لیتے کہ پاکستان نے اب تک ان ہتھیاروں کے بارے میں جس ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے وہ سب سے زیادہ ایٹمی قوت رکھنے والے امریکہ نے بھی نہیں دیا ہے، وہاں ہونے والے کچھ غیر ذمہ دارانہ واقعات کے بارے میں ،میں اپنے ایک اور کالم میں ذکر بھی کر چکی ہوں اور ان صاحب کو اگر بھارت کی اتنی ہی فکر ہے تو وہ اپنے ملک کو یہ مشورہ کیوں نہیں دے دیتے کہ جہاں وہ اقوام متحدہ کو ہر معاملے میں اپنی مرضی کے مطابق چلاتا ہے وہاں وہ اُس پر کشمیر کا مسئلہ حل کرنے پر زور دے اور یا خود ثالثی کے لیے آگے بڑھے اور بھارت کو مجبور کرے کہ وہ کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق اس مسئلے کو حل کرے۔ اصل مسئلہ تو کشمیر ہے جس پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور اسی مسئلے نے دونوں ملکوں میں ہتھیاروں کی دوڑ لگائی ہوئی ہے اور دونوں ملکوں میں ملکی ترقی پر لگنے والے وسائل سے اسلحہ خریدا جا رہا ہے یعنی باالفاظ دیگر یہ سرمایہ بھارتی خواہشات کی نظر ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی تاریخ کا یہ سب سے پرانا غیر حل شدہ مسئلہ اگر حل کر لیا جائے تو پاکستان اور بھارت کے تمام تنازعات ہی ختم ہوجا ئیں اور جب لڑائی اور لڑائی کی وجہ نہ رہے تو پھر عام اور خاص، ایٹمی اور غیر ایٹمی کسی بھی قسم کے ہتھیاروں کا جھگڑا ہی نہ رہے گا۔
جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے تو دنیا بہت اچھی طرح جانتی ہے کہ بھارت بلوچستان اور فاٹا دونوں راستوں بلکہ ہر ممکنہ راستے سے اپنے دہشت گرد پاکستان میں داخل کرتا ہے اور یہاں دہشت گردی کرا تا ہے۔ اور دوسری طرف امریکہ ہے جس نے اپنے مقاصد کے لیے اِن لوگوں کو پہلے استعمال کیا اور پھر انہیں دہشت گرد اور شدت پسند قرار دے کر اِن کے خلاف کاروائی شروع کی اور اسی کاروائی کی آڑ میں پاکستان کے خلاف اپنا بغص بھی نکال رہا ہے۔ دہشت گردوں کے پاس موجود اسلحہ خدانخواستہ پاک فوج کے اسلحہ ڈپوؤں سے نہیں نکالا گیا ہے بلکہ یہ غیر ملکی آقاؤں کی مہربانی ہے۔ ہمارے قبائلی علاقے میں پتھر کے پہاڑ ہیں بارود کے نہیں جسے طالبان استعمال کئے جا رہے ہیں لیکن ختم نہیں ہو رہا۔ اگر اللہ کے کرم سے ان لوگوں کی پہنچ اس اسلحے تک نہیں ہے تو ایٹمی اسلحے تک کیسے ہو سکتی ہے۔ جتنا زور امریکہ اور یورپ پاکستان مخالف پروپیگنڈے اور پاکستان میں دہشت گردی کی تر ویج پر دے رہے ہیں اگر یہی زور اس کی بیخ کنی پر دیا جاتا اور اس معاملے میں پاکستان کی مدد کی جاتی تو اس مسئلے پر قابو پا یا جا چکا ہوتا اور اسی طرح اگر وہ اتنی محنت کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے بھارت کو مجبور کرنے پر کرتے تو آج کم از کم پاکستان ایٹمی اسلحے پر اتنا خرچ نہ کرتا۔ ہاں بھارت کا مسئلہ اور ہے اُسے چین کے ساتھ بھی تنازعات حل کرنے ہیں اور سری لنکا میں بھی مداخلت کرنی ہے، بھوٹان جیسے چھوٹے ملکوں کو بھی اپنا مطیع رکھنا ہے اور بحر ہند میں بھی اپنی اجارہ داری قائم کرنی ہے جس کے لیے اُسے اسلحہ چاہیے لیکن حیرت ہے اتنے کھلے عام منصوبے بھی مغرب کی نظر سے اوجھل ہیں ورنہ مائیکل کلگمین جیسے لوگ شاید ان کے بارے میں بھی کچھ کہتے اور پاکستان ہر وقت زیر عتاب نہ ہوتا ۔بہر حال جو بھی ہے امریکہ و یورپ کو پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی فکر چھوڑ کر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ہتھیار ہم نے اپنے دفاع کے لیے بنائے ہیں اور اِن کا دفاع کرنا ہم جانتے ہیں اور ایسا کر رہے ہیں اور بہت اعلیٰ طریقے سے کر رہے ہیں۔ جس طرح ایٹمی قوت حاصل کرنے کے معاملے میں پورا ملک اور ہر حکومت ایک رائے رکھتی رہی ہے اسی طرح ان اثاثوں کی حفاظت کے لیے ہر جرنیل اور سپاہی بلکہ قوم کا ہر فرد مستعد ہے اوراس کو اپنا فرض سمجھتا ہے ۔