نغمہ حبیب
بھارت کے وزیر اعظم
The Prime Minister, Shri Narendra Modi visits the Prime Minister of Pakistan, Mr. Nawaz Sharif’s home in Raiwind, where his grand-daughter’s wedding is being held, at Lahore, Pakistan on December 25, 2015.
مودی پاکستان کے مختصر دورے پر آئے یا یوں کہیں کہ جناب نواز شریف کے گھر آئے اور چلے گئے۔ اتنے مختصر دورے کا فائدہ نہ تھا نہ ہوا،اس میں نہ تو دو طرفہ معاملات پر تبادلہ خیال ہو سکتا تھا نہ عالمی صورت حال ، لیکن مودی نے اپنی ذات کے لیے اس سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی ہے اور اس کے بعد بننے والے حالات وواقعات نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ دورہ اچانک نہیں بلکہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔مودی جیسے شدت پسند سے یہ توقع کرنا کہ وہ پاکستان کے لیے خیر سگالی کے کوئی جذبات رکھے گاخود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے اور دشمن کو جانتے بوجھتے نظر انداز کر کے خود کو نقصان پہنچانے والی بات ہے۔ اُس وقت بھی میں نے لکھا اور آج بھی میںیہی سمجھتی ہوں کہ مودی نے یہ دورہ اس بین الاقوامی دباؤ کو کم کرنے کے لیے کیا جواُن حالات کی وجہ سے پیدا ہوا جو اُس کے ملک میں شدت پسند تنظیموں نے خود اس کی ایماء پر پیدا کیے۔جبکہ حقیقت میں خود مودی اور اس کی جماعت بھی انہی کا حصہ ہے اور وہ ہمیشہ اس پر فخر کرتا ہے۔بہر حال پچھلے کچھ ماہ سے جس طرح ہندو شدت پسندذہنیت کی پذیرائی کی گئی اُس نے سیکولر بھارت کی قلعی کھول دی تھی اور چونکہ ساری دنیا جانتی تھی کہ ان کی پشت پر اس ملک کا وزیر اعظم موجود ہے لہٰذا وزیر اعظم نے مکمل منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کا ’’اچانک‘‘ دورہ کر دیا یوں دنیا تک اپنی امن پسندی اور ہمسایوں کے لیے خیر سگالی کے جذبات کا پیغام پہنچا دیا گیا اور صرف چند دن کے بعد منصوبے کی اگلی قسط پر کام شروع کر دیا گیا اور پٹھانکوٹ ائر بیس پر حملہ ہو گیا۔مودی نے یہاں بھی مکمل منصوبہ بندی کے تحت پاکستان پر فوری الزام نہیں لگایا لیکن اپنے میڈیا کو اس کے لیے آزادی دے دی اور اُس نے بھارتی حکومت کا نکتہء نظر بلواسطہ طور پر دنیا کو پہنچا دیا اور حسب معمول حملے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی یوں سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹی۔اس نے اپنے ہی تین لوگوں کو شک کی بنیاد پر گرفتار بھی کر لیا اور چھوڑ بھی دیا۔یہ تین لوگ گورداسپورکے ایس پی سلویندر سنگھ، اس کا ڈرائیور گوپال اور اُس کا سناردوست راجیش ورما تھے۔ ان پر شک کی وجہ یہ تھی کہ واردات میں سلویندر سنگھ کی جیپ استعمال ہوئی تھی جس میں یہ تینوں افراد سوار تھے انہیں جمعرات کو پکڑا گیا اور جمعے کو علی الصبح دو بجے رہا کر دیا گیا۔یوں منصوبے کا ایک اور حصہ مکمل ہوا کہ بھارت پاکستان کی بجائے اس بار اپنے شہریوں کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔ہمارے کچھ تجزیہ نگاروں نے بھی اسے بھارت حکومت کی طرف سے مثبت رویہ بنا کر پیش کیاہمارے وزیراعظم نے بھی اس کا شکریہ ادا کیا اور ان کے رویے کی تعریف کی۔ لیکن ہوا یہ کہ پھر بھارت حکومت میدان میں آگئی اور پہلے سے مختلف انداز اپنا کر پاکستان پر الزام دھر دیااور کہا کہ پاکستان کو قابل عمل ثبوت مہیا کر دیے ہیں تاکہ وہ تحقیقات میں مدد کرے اب یہ مدد پاکستان نے ظاہر ہے پاکستان میں ہی کرنی تھی جس پر وزیراعظم کے زیر صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس میں بتایا گیا کہ اب تک ان معلومات سے کوئی لیڈ نہیں مل سکی ہے مزید معلومات فراہم کی گئیں تو بات آگے بڑھ سکتی ہے۔بھارت یہی محنت اور کوشش اپنے ملک میں کر لیتا توشاید اس کے مجرم زیادہ آسانی سے مل جاتے لیکن وہ ایسا کرے گا نہیں کیونکہ یہ سارا حملہ انتہائی منصوبہ بندی سے کیا گیاہے۔یہاں بھارت سے ایک غلطی ضرور ہوئی کہ اس حملے کو بھی ممبئی کی طرز پر کیا گیا یعنی چند دہشت گرد ،قبضہ کرنے کی کوشش ،پھر ایک لمبے مقابلے کے بعد حملے کی ناکامی اور بھارت سرکار کی کامیابی اور میڈیا کی طرف سے فوراََ واقعے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دینا کچھ دہشت گردوں کو فوراََ ہلاک کر دینا اور کچھ کو مقابلے کے لیے زندہ چھوڑ دینا ہاں یہاں آخری دہشت گرد بھی مار دیا گیا۔ان جزئیات میں اگر کچھ تھوڑی بہت تبدیلی کر لی جاتی تو بہتر ہوتاکیونکہ بھارت کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ آئی ایس آئی ایک انتہائی پیشہ ور ایجنسی ہے اس لیے اگر اُس نے یہ دونوں حملے کیے ہوتے تو اِن میں ضرور کافی فرق ڈالتا ایک ہی طریقہء واردات نہ اپناتاہاں اس بار بھارت سرکار نے مختلف طریقہء واردات اپنایا ہے یعنی اپنے ہی منصوبے کو پاکستان کے ذمے لگانے کا انداز بدلا لیکن کیا وہی جو ہمیشہ سے کرتا آرہا ہے یعنی اپنے ہا ں ہونے والے کسی بھی بدامنی اور دہشت گردی کے لیے پاکستان کو ذمہ دارٹھہرانا۔دوسری تبدیلی یہ کی گئی کہ ڈرامے کے اس منظر سے پہلے سشما سوراج اور مودی دونوں پاکستان آئے اگر چہ یہ دونوں پاکستان کے باضابطہ دورے نہیں تھے، سشما سوراج ایک کانفرنس’’ِ ہارٹ آف ایشیا‘‘ میں شرکت کرنے آئیں اور مودی افغانستان سے جاتے ہوئے جاتی عمرہ میں کچھ دیر کو رُکے لیکن دونوں نے اپنے لہجوں میں شائستگی رکھی تاکہ دنیا کو پہلے ہی یہ بتا سکے کہ وہ دوستی کے خواہش مند ہیں اور پھر مرکزی منظرفلمایا گیا تاکہ یہ بھی باور کرایا جائے کہ بھارت کے خیرسگالی کے جذبات کے باوجود پاکستان اُس کے ہاں دہشت گردی کرا رہا ہے حالانکہ ایساکرنے کے لیے بھارت میں چلنے والی آزادی کی تحریکیں ہی کافی ہیں ۔کیا بھارت کی ہندو سرکار یہ سوچ رہی ہے کہ پنجاب کے سکھ 1984 میں گولڈن ٹیمپل کی بے حرمتی بھلا چکے ہونگے، اور یا کشمیر کے مجاہدین ہر بار پاکستان کی مدد کا انتظار کریں گے، یا نکسل باڑی اپنے مطالبے سے دست بردار ہو چکے ہیں۔سکھوں نے پچھلے کچھ عرصہ میں کشمیریوں کی آواز میں آواز ملائی جو دراصل ان کے اپنے جذبات کی عکاس تھی۔بھارت اگر پاکستان سے زیادہ اپنے ملک پر توجہ دیتاتو وہ اپنے ملک میں بھی حالات قابو میں رکھ سکتا تھا اور خطے میں ہونے والی دہشت گردی سے بھی نجات ممکن ہو جاتی لیکن ہو یہ رہا ہے کہ وہ افغانستان ،کشمیر، پنجاب، سندھ ہر طرف سے پاکستان میں تخریب کاری کر رہا ہے اور پاکستان کے اندرونی علاقوں تک بھی پہنچ رہا ہے اور جہاں اُس کی متصل سر حدیں نہیں ہیں وہاں بھی ،جسکی بڑی مثال فا ٹا اور بلوچستان ہے۔
بھارت اگر اسی واقعے سے شروع کر دے اور اپنے مجرم اپنے ملک میں تلاش کرے اور بدلہ پاکستان سے نہ لے تو دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن وہ تو ہر پیش رفت کے بعد اور مذاکرات سے پہلے ایسے حالات پیدا کر کے ہر کوشش کو ناکام بنا دیتا ہے۔اب بھی اگر وہ امن کے حصول کے لیے سنجیدہ کوششیں شروع کر دے تو بر صغیر کا امن بحال اور قائم کیا جا سکے گا۔