کالعدم تنظیم القاعدہ شدید اندرونی انتشار کا شکار
ایس اکبر
کالعدم تنظیم القاعدہ کے کمانڈر نے باقاعدہ طور پر اعلان کیا ہے کہ القاعدہ تنظیم کا اب عراق اور شام میں سرگرم دہشت گرد گروپوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اطلاعات کے مطابق القاعدہ کا سربراہ ایمن الظواہری کافی عرصے تک انتھک کوششوں میں مصروف رہا ہے کہ کسی طرح عراق اور شام میں مصروفِ عمل گروہوں کے آپسی اختلافات ختم کر سکے۔ لیکن اس کی ہر کوشش بے کار رہی۔ اطلاعات کے مطابق ایمن الظواہری نے یہ فیصلہ اس لیے کیا ہے کیونکہ اسلامک سٹیٹ آف عراق (آئی ایس آئی ایس )کے سربراہ ابو بکر البغدادی اور محمد جیلانی النصرہ کا سربراہ آپسی جھگڑے میں اب تک ہزاروں کارندوں کو قتل کر چکے ہیں۔القاعدہ کے جنرل کمانڈر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اب اس تنظیم کا آئی ایس آئی ایس عراق اور شام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی یہ تنظیم ان کے کسی افعال کی ذمہ دار ہے۔ اس بیان میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اب القاعدہ عراق میں موجود نہیں ہے۔ آئی ایس آئی ایس عراق میں امریکی فوجیوں کی مداخلت کے خلاف معرض وجود میں آئی ۔ جبکہ اس اندرونی انتشار کی وجہ سے ہی القاعدہ نے شام میں مصروف دہشت گرد تنظیم النصرہ سے بھی مکمل لا تعلقی کا اعلان کیا ہے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق القاعدہ تنظیم شدید اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ القاعدہ نے اپنی گرتی ہوئے ساکھ بچانے کے لیے عراق اور شام میں موجود دہشت گرد گروپوں سے اپنا گٹھ جوڑ کر لیا تھا تا کہ وہ بین الاقوامی سطح پر ایک طاقتور تنظیم ہی گردانی جاتی رہے۔ آئی ایس آئی ایس اپنے مالی مدد اور ہدایت کے لیے کبھی بھی القاعدہ کی محتاج نہیں رہی بلکہ القاعدہ نے ہی اپنی خود ساختہ سوچ کے تحت اپنے آپ کو ان گروپوں سے منسلک رکھا ہو ا تھا۔ دہشت گرد گروہ آئی ایس آئی ایس اور النصرہ ایک عرصے سے آپسی اختلاف کا شکار ہیں۔
کسی بھی تنظیم کو منظم اور متحرک رکھنے کے لیے اس کے رہنما میں قائدانہ صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے۔ تحریک کے سربراہ میں قائدانہ صلاحیتوں کا فقدان بڑی سے بڑی تنظیم کو بھی آناً فاناً منتشر کر دیتا ہے۔ بلکہ دہشت گرد تنظیموں کو تو اپنے راہنماؤں کی قائدانہ صلاحیتوں کی اشد ضرورت رہتی ہے۔ چونکہ یہ تنظیمیں عام اور پسندیدہ نظریات کے برعکس نفرت اور انتقام کے جذبے پر پرورش پاتی ہیں اس لیے ان کو ہر وقت ایک ایسے راہنما کی ضرورت رہتی ہے جو تنظیم کے افراد میں پنپنے والے جذباتی الاؤ کو کبھی بجھنے نہ دے۔ ایسے میں قائد کا فقدان ان دہشت گرد تنظیموں کو آپسی انتشار کا شکار کر دیتا ہے جس کے باعث یہ اپنی افادیت کھو دیتی ہیں اور ان میں کسی قسم کی موثر کاروائیاں کرنے کی صلاحیت بھی معدوم ہو جاتی ہے۔
اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد سے القاعدہ زبوں حالی کا شکار ہوتی چلی گئی۔ پہلے پہل تو القاعدہ کے کئی بڑے راہنما ایمن الظواہری کو لیڈر ماننے کے لیے ہی تیار نظر نہیں آتے تھے۔ ایمن الظواہری کی شخصیت شروع سے ہی تنازعات کا شکار رہی ہے اور اس کی بڑی وجہ ان کی یہی شدت اور انتہاپسندانہ سوچ ہے۔ ایمن الظواہری اپنی قدامت پسندی، تنگ نظری اور متنازعہ شخصیت کے باعث القاعدہ کو کمزور اور غیر موثر ہونے سے بچانے میں ناکام رہے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ القا عدہ کسی بھی قسم کی موثر کاروائی کرنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ اب اپنی نظریاتی مقبولیت بھی کھو چکی ہے۔ اس کا اندازہ عرب ممالک میں آنے والے حالیہ انقلابات ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے القاعدہ مسلم اور خاص کر عرب ممالک میں غیر مقبول اور امریکہ نواز ڈکٹیٹروں کی حکومتوں کے خاتمے کے لیے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں مصروفِ عمل رہی۔ مگر ان ممالک میں آنے والے حالیہ انقلابات القاعدہ کے دہشت گردوں کے برعکس لبرل اور ترقی پسندانہ سوچ رکھنے والی آزاد نوجوان نسل کی جمہوری جدوجہد کا نتیجہ ہیں۔ ایمن الظواہری نے اپنی مختلف ویڈیوز میں عرب ممالک میں وقوع پذیر ہونے والے ان انقلابات کا کریڈٹ لینے کی بھی ناکام کوشش کی۔ مگر لگتا ہے کہ مسلم ممالک میں موجود باشعور نوجوان نسل کو بھی القاعدہ کے انتہاپسندانہ نظریات سے قطعی دلچسپی نہیں۔ اسی نظریاتی مقبولیت کے فقدان کی بدولت القاعدہ کے دہشت گرد اب معصوم غیر ملکیوں کے اغواء رچا کر توجہ حاصل کرنے کی ناکام اور بے سود کوشش کر رہے ہیں۔
گزشتہ چند ماہ میں دہشت گردانہ کاروائیوں میں وقوع پذیر ہونے والی کمی اس بات کی علامت ہے کہ القاعدہ اور اس جیسی دوسری دہشت گرد تنظیمیں تیزی سے زوال کا شکار ہو رہی ہیں اور دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مزید موثر کاروائیاں ان کے جلد خاتمے میں نمایاں کردار ادا کر سکتی ہیں۔