کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر اُجاگرکرتے رہنا چاہیئے
Posted date: February 27, 2021In: Urdu Section|comment : 0
نغمہ حبیب
کشمیرواد یئ جنت نظیر جسے قدرت نے بے بہا حسن سے نوازرکھا ہے اور چاہیئے تو یہ تھا کی دنیا اسے اس قدرتی حسن کی وجہ سے جانتی لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہی وادی آگ اور بارود کی بُو سے بوجھل رہتی ہے۔کشمیر چُہترسال سے بھارت کے قبضے میں ہے اور کشمیری مسلسل اپنی جدوجہد ِآزادی میں مصروف ہیں وہ کسی مرحلے پر پیچھے نہیں ہٹے ہیں۔بھارت صرف کشمیر ہی نہیں بھارت کے ہر مسلمان کے لیے متعصب ہے وہاں کسی مسلمان کی زندگی محفوظ ہے نہ مال نہ آبرو لیکن کشمیر کے ساتھ تو ایک خاص قسم کا برتاؤ کیا جاتا ہے روزانہ کوئی نہ کوئی کشمیری ماورائے عدالت شہید کر دیا جاتا ہے کسی نہ کسی لڑکی یا بڑی عمر کی خاتون کی عصمت دری کر دی جاتی ہے اس کے لیے عمر کی قید نہیں اور یہ جُرم سرِعام کیا جاتا ہے اور گھر کے دیگر افراد کے سامنے کیا جاتا ہے اور یوں انہیں دُہرے عذاب سے گزارا جاتا ہے۔کچھ عرصہ پہلے ایک معمر شخص کو اس کے تین سالہ نواسے کے سامنے سرراہ شہید کیا گیا غرض یہ روزانہ کا معمول ہے اور اس میں کوئی لمبا وقفہ نہیں لایا جاتا بلکہ آئے روز یہ سب کچھ کیا جاتا ہے۔کشمیر اس وقت ایک بڑی جیل ہے جس میں لاکھوں افراد غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔بھارت کی آٹھ لاکھ فوج کشمیر میں متعین ہے جسے ہر قسم کے اختیارات حاصل ہیں وہ جب چاہے جس کے ساتھ چاہے جو چاہے ظلم کر لیں۔اسی کشمیر میں بھارت نے ہر قسم کے اسلحے کا آزادانہ استعمال کیا ہے اور 1989میں جدوجہد آزادیئ کشمیر کی نئی لہر اٹھنے کے بعد سے اب تک تقریباََ ایک لاکھ کشمیری شہید کئے جا چکے ہیں جب کہ لاکھوں زخمی ہوئے ہیں ان میں ایک بہت بڑی تعداد نہتے سویلین کی بھی شامل ہے۔دوطرفہ جھڑپوں میں ہر قسم کے جدید ہتھیاروں سے لیس تقریباََ ساڑھے پانچ ہزار بھارتی فوجی مارے جا چکے ہیں۔جدوجہد آزادیئ کشمیر کو 1987میں ہونے والے متنازعہ انتخابات نے مہمیز لگائی اور 1989میں یہ ایک باقاعدہ تحریک کی صورت اختیار کر گئی اور تب سے اب تک بھارت ہر قسم کا حربہ کشمیریوں پر آزما چکا ہے۔ہزاروں شہادتوں کے علاوہ ہزاروں افراد کو زندہ غائب کیا گیا جن میں اکثر کی بعد میں یا تو لاشیں ملتی ہیں یا کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ان کی لاشیں کسی گمنام اجتماعی قبر سے بر آمد ہوتی ہیں۔بھارت نے کشمیر میں ہر ظلم کو روا رکھا ہوا ہے اور بے تحاشہ جنگی جرائم کا مرتکب ہو اہے جن میں آبروریزی سے لے کر پیلٹ گنوں کا استعمال تک شامل ہے جسے بھارتی فوج اور پولیس کسی بھی اجتماع میں کھلے عام استعمال کرتی ہے جس سے بے شمار افراد اپنی بینائی سے محروم ہو جاتے ہیں جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ خود بھارتی رپورٹس کے مطابق 2016 میں صرف بتیس دنوں میں تین ہزار پیلٹ کاٹریج استعمال کئے گئے جب کہ یاد رہے ایک کاٹریج میں پانچ سو پیلٹس ہوتے ہیں یہ سرکاری اعداد و شمار ہیں جبکہ زمینی حقائق اس سے بہت زیادہ کی کہانی سناتے ہیں۔یہ کوئی ایک سنگین جنگی جُرم نہیں جو بھارت کر رہا ہے بلکہ وہ مسلسل ایسے جرائم کر رہا ہے جو جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں مثلاََ اجتماعی قتل، اجتماعی قبریں، خواتین کی آبرو ریزی، بوڑھوں اور بچوں کا قتل اور کئی ایسے دوسرے جرائم۔اسی کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت تین کھلی جنگیں لڑ چکے ہیں جبکہ سرحدی جھڑپیں اس کے علاوہ ہیں۔بھارت جب چاہتا ہے لائن آف کنٹرول کے اس پار آزاد کشمیر میں بھی نہتی سول آبادی پر بمباری کر دیتا ہے یہ اور بات ہے کہ پاکستان اس کا منہ توڑ جواب دیتا ہے۔پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی مدد ضرور کر رہا ہے لیکن بھارت کا یہ الزام کہ پاکستان کشمیر میں دراندازی کر رہا ہے ہے سرا سر بے بنیاد ہے کشمیری اپنے حق کے لیے خود لڑ رہے ہیں اور ان کا یہ عزم ہے کہ وہ اپنی آزادی تک یہ جد و جہد جاری رکھیں گے لیکن دنیا کو بھارت کی کا روائیوں کا ضرور نوٹس لینا چاہیئے کہ کیسے وہ کشمیر کی مخصوص حیثیت ختم کرنے کے لیے اپنے آئین کا آرٹیکل 370معطل کرتا ہے اور کیسے پورے کشمیر کو اپنے ملک میں ضم کرتا ہے اور پھر پورے سال کے لیے کرفیو لگا دیتا ہے اگر چہ وزیراعظم عمران خان نے اس سارے عمل کے خلاف اقوام متحدہ میں پُر زور آواز اٹھائی لیکن اس پر مسلسل کام کرنا ہے اور عالمی ضمیر کو جگانا بھی ہے اور اسے یاد بھی دلانا ہے کہ کشمیر اقوام متحدہ کے ریکارڈ پر سب سے پرانا غیر حل شدہ مسئلہ ہے اور جس طرح اس نے دنیا کے دیگر خطوں میں اپنا اثر ورسوخ استعمال کر کے ایسٹ تیمور یا سوڈان میں مسائل حل کئے اسی طرح وہ کشمیر میں بھی کرے اور اپنی ہی استصوابِ رائے کی قرار داد پر عمل کرائے تاکہ کشمیر کا مسئلہ حل ہو۔پانچ فروری کو پاکستان میں یوم یکجہتی کشمیر منانا ایک کوشش ضرور ہے اور اس سے پاکستان کے اندر اس مسئلے کو ضرور اجاگر کر لیا جاتا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری اس مسئلے کو عالمی سطح پر زندہ رکھنا اور پھر حل کروانا ہے اور دنیا کو یہ بھی احساس دلانا ہے کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تب تک بر صغیرمیں امن بحال نہیں ہو سکتااور یہ بھی یاد رہے کہ ان دو ایٹمی قوتوں کے درمیان جنگ صرف خطے کو ہی نہیں پوری دنیا کو متا ثر کرے گی لہٰذا کشمیر کی طرف توجہ دینا ضروری ہے۔