Posted date: April 22, 2017In: Urdu Section|comment : 0
نغمہ حبیب
پاکستان میں بھارتی جاسوس پکڑا گیا نہ کوئی نئی بات ہے اور نہ حیرت انگیز ۔ ایسے درجنوں نام موجود ہیں جو بھارت سے آئے پاکستان کے خلاف کام کرتے رہے اور پکڑے گئے بس ایسا ہی ایک کیس کلبھوشن کا بھی ہے مگر ایک بہت بڑا فرق اور انفرادیت موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ کلبھوشن بھارتی بحریہ کا حاضر سروس اعلیٰ افسر تھا ۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا کلبھوش بھارت کا بیٹا ہے بلا شبہ وہ اپنے ملک کا بہت وفادار بیٹا ہے لیکن اپنے ملک اور مالک سے وفاداری کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ دوسروں کو نقصان پہنچایا جائے ،دوسرے ملک میں یوں خون بہایا جائے، وہاں بم دھماکوں میں لوگوں کو اڑا یا جائے، وہاں دہشت گردوں کو مدد فراہم کی جائے، انہیں پناہ دی جائے اور انہیں مظلوم بنا کر پیش کیا جائے۔ بھارت مسلسل ایسا کر رہا ہے وہ ایک کے بعد دوسرا جاسوس بھیج رہا ہے جو نہ صرف جاسوسی کرتا ہے بلکہ یہاں موجود غداروں کو بھی ہر طرح کی مدد اور تعاون فراہم کر رہا ہے۔ کلبھوشن ایسے ہی مقاصدلے کر پاکستان آیا اُس نے پکڑے جانے کے بعد اپنے جرائم کا اعتراف کیااور تسلیم کیا کہ اُس نے بلوچستان اور کراچی میں دہشت گرد کا روائیاں کی ہیں۔ اس نے اقرار کیا کہ حاجی بلوچ نامی شخص سے اس کا رابطہ تھا اور اس شخص کا رابطہ سانحہ صفورا کے مجرموں کے ساتھ بھی تھا یاد رہے کہ اس حملے میں اسماعیلی برادری کے 45 افراد جان بحق ہوئے تھے۔ یادیو نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ اُس نے فرقہ ورانہ کشیدگی پیدا کرنے کے لیے بھی کام کیا اور فرقہ ورانہ فسادات بھی کروائے اب ایسا مجرم ملک کے اندر سے ہو یا غیر ملکی ہو ظاہر ہے کہ اِن جرائم کی سزا موت ہے اور اگر یہ جرائم ایک جاسوس کرے تو اسے چھوڑنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لہٰذا فوج کی عدالت سے کلبھوشن کو بھی پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے جو یقیناًپاکستانی عوام کی توقعات اور مرضی کے عین مطابق ہے جبکہ بھارت میں ہونے والا رد عمل بالکل بے جا ہے کیونکہ کیا بھارت نہیں جانتا تھا کہ دہشت گرد کی سزا کیا ہوتی ہے جبکہ وہ خود کشمیر میں آزادی کے لیے لڑنے والے مجاہدین کے ساتھ جو بہیمانہ سلوک کر رہا ہے وہ ساری دنیا کے سامنے ہے ،بہر حال قصہ مختصر جاسوس کو وہی سزا سنائی گئی ہے جو سنائی جانی چاہیے تھی لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی پاکستان میں کئی ایک جاسوس پکڑ ے گئے ہیں انہیں پھانسی کی سزا بھی سنائی گئی کلبھوشن کو بھی سزا تو سنا دی گئی ہے لیکن سوال بلکہ بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اس سزا پر عملدرآمد بھی ہو سکے گا یا پھر یہ خطرناک دہشت گرد اور جاسوس بھی عملدرآمد کے انتظار میں رہے گا اور پھر یا تو حکومت دباؤ میں آجائے گی یا انسانی حقوق کا کوئی علمبردار سامنے آجائے گا اور نام کمانے کی خاطر ملک کے دشمن کا مدد گار بن جائے گا۔ کلبھوشن پہلا شخص نہیں جو اپنے گھناونے عزائم لے کر پاکستان آیا اور پہلا نہیں جو پکڑا گیا بھارت پاکستان بننے کے بعد روز اول سے ہی پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے چار کھلی جنگوں کے علاوہ اپنے جاسوس بھیج کر چانکیہ چالیں بھی چلتا رہا ۔نبی احمد شاکر، سرجیت سنگھ، سربجیت سنگھ اور کئی نام اس فہرست میں شامل ہیں، ان سب کو پکڑا گیا پھانسی کی سزائیں سنائی بھی گئی لیکن سزا پر عملدرآمد نہیں ہوا کلبھوشن کو بھی سزا تو سنا دی گئی لیکن عوام کے ذہن میں یہ سوالات مسلسل اٹھ رہے ہیں کہ کیا اُسے بھی سزا دی جائے گی اور کب اُس پر عمل ہوگا اور کیا عمل ہونے تک کلبھوشن کے پاکستانی ہمدرد اٹھ کر میدان میں تو آنہیں جائیں گے اور یا وہ بھی جیل میں طبعی موت مر جائے گا اور اس کے طبعی موت مرنے پر الزامات کا سلسلہ شروع ہو جائے گا کہ اُسے سازش کر کے مارا گیا ہے۔ ایسا ہونے سے بھی پاکستان ایک دشمن سے چھٹکارا حاصل تو ضرور کر لے گا لیکن ضرورت اِس امر کی ہے کہ ایسے دشمنوں کو نشان عبرت بنا دیا جائے تا کہ بھارت سے بھی کوئی جاسوس پاکستان آتے ہوئے یہ ضرور سوچے کہ اُس کا انجام ایک یقینی موت ہے ۔ کلبھوشن ہو کوئی دوسرا بھارتی جا سوس یہ جتنے پاکستانیوں کا خون بہا چکے ہیں اس کے بدلے میں اُن کے لیے معافی کا سوچنا بھی اُن پاکستانیوں کے خون سے غداری ہے۔ بھارت کے یہ چند جاسوس تو منظر عام پر آئے لیکن اُس کا کردار جو وہ پاکستان میں دہشت گردی کی طویل لہر میں ادا کر رہا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں مگر ہماری حکومتیں نہ تو اس کو بین الاقوامی سطح پر اُس زور و شور سے پیش کر سکی ہیں جس کا یہ متقاضی ہے اور نہ ہی کلبھوشن کے معاملے کو ،بلکہ اس معاملے پر تو ہمارے وزیراعظم سمیت حکومتی اہلکاروں نے جس سرد مہری کا مظاہرہ کیا وہ قابل غور اور قابل اعتراض ہے۔ اس کی گرفتاری سے لے کر اُس کو سزا سنائے جانے کے ایک سال کے دوران کئی مواقع آئے جب وزیراعظم اس معاملے کا ذکر کر سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور عوام کے ذہنوں میں بہت سے سوالات چھوڑ گئے جن کاجواب وہ خود سے تلاش کر رہے ہیں۔ بہر حال حکومت یاد رکھے کہ قوم سزا پر عملدرآمد کا انتظار کر رہی ہے اور اس بار اسے عوام کی توقعات اور مرضی کے مطابق ہونا چاہیے تاکہ انہیں بھی یہ احساس ہو سکے کہ ان کے خون بدلہ لینے کے لیے کوئی موجود ہے۔