کے مذموم عزائم Exis of Evil – کشمیریوں کا ملین مارچ
Posted date: November 01, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
ہوشیار باش!عالمی امن کے قیام کے نام پر عالمِ انسانیت کے ٹھیکیدار ’عالمی انصاف پسندوں ‘ کی دنیا اندھیر نگری نہیں تو پھر اِسے کیا کہاجائے ؟اِس اندھیر نگری میں بسنے والے بے ضمیر ‘ بے بصیرت ‘ بے حس ‘ پُژ مردہ اندھے ‘ گونگے بہرے ‘ جن کا ماضی داغدار رہا حال بھی ایسا ہی ہے چاہے فلسطین ہو یا مقبوضہ جموں وکشمیر دنیائےِ اسلام ہمیشہ اِن کی آنکھوں میں کانٹا بن کر کھٹکتا رہا، امریکا اور مغربی دنیا اسرائیلی ظلم وستم کی پشت پناہی کرتی ہے جنوبی ایشیا میں امریکا‘مغربی دنیا اور اسرائیل نے بھارت کو شہ دے کر مقبوضہ جموں وکشمیر میں مستقبل بنیادوں پر سامراجی جبرو ستم کا تاحال ختم نہ ہونے والا ستم زدہ اپنا بہیمانہ سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، جنوبی ایشیا میں آزادی ِٗ کشمیر کی لہر میں کبھی تیزی آتی ہے اور کبھی یہ تیزی حالات کی جبریت کا شکار ہوجاتی ہے چند ماہ پیشتر بھارت نے لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری کاسلسلہ شروع کرکے دنیا پر اپنا یہ جھوٹ ثابت کرنے کی مکارانہ چال چلی جو خود اُس کے گلے کی اب پھانس بن گئی ہے ،جس کی وجہ سے جموں وکشمیر کے عوام اب اور زیادہ متحرک ہوگئے ہیں، جس کا تازہ ترین ثبوت گز شتہ دنوں 26 ؍ اکتوبر کو برطانیہ اور یورپ نے لندن کے ’ٹرافگلر اسکوائر پر ہونے والے ’ آزادی ِٗ کشمیر ملین مارچ‘ کی عملی صورت میں دیکھ لیا، برطانیہ اور یورپی تاریخ میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا کامیاب ’کشمیر ملین مارچ ‘ تھا ہزاروں کی تعداد میں کشمیریوں اور لندن میں مقیم پاکستانیوں نے ایک ساتھ یکجا ہوکر کشمیری اور پاکستانی پرچم لہرا ئے‘عالمی منصفوں کے سوئے ہوئے ضمیروں کو جھنجھوڑ ااُنہیں یہ احساس دلانے میں یقیناًملین کشمیر مارچ کے شرکا ء اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں اور سامراجی طاقتوں پر باور کرادیا کہ ’نریندر مودی بحیثیت بھارت کے وزیراعظم \”Exis of Evil\” کی بھیانک صورت اختیار کر چکا ہے، نریندر مودی کی نااہل قیادت میں بھارت ایک غیر ذمہ دار (Rogue State) بن چکا ہے یعنی ’حد درجہ دنیا کے امن کے لئے سنگین خطرہ‘کھلی ہوئی بُرائی اور بدی کا محور بھارت جنگی جنونی سرطان جیسے موذی مرض کا شکار ‘ دنیا کو ممکنہ تیسری عالمی جنگ سے فوراً محفوظ رکھنے کے لئے پُرامن دنیا کو ایک نکاتی ایجنڈے پر متحدہونا پڑے گا بھارت پر اُنہیں اپنا دباؤ بڑھانا ہوگا سمجھنے کی اصل بات یہ ہے کہ مسئلہ ِٗ کشمیر کو پُرامن طور پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ قرارداروں کی روشنی میں حل کر وایا جائے ‘ لندن کے ٹرافگلر اسکوائر پر ہونے والے کشمیریوں اور پاکستانیوں کے مشترکہ ملین مارچ نے دنیا کو بھارت کا بھیانک چہرہ مزید نمایاں کرکے دکھا دیا، بھارتی حکمرانوں نے اگر ہوش مندی کا اب بھی مظاہرہ نہیں کیا ’میں نہ مانوں ‘ کی رٹ نہیں چھوڑی تو پھر یہ حقائق قیاس آرائی تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ یہ ثابت ہوجائے گا کہ بھارت ابھی تک پتھروں پر اپنا سر مارنے سے باز نہیں آ یا ہے، مقبوضہ جموں وکشمیر اور پاکستان کو للکارانے اور خوف زدہ کرکے اُس کے خلاف عالمی میڈیا پر خود ساختہ اور جو منفی پروپیگنڈا شروع کیا
گیاہے وہ اُس کی ’سہمی ہوئی ‘ دہشت کے سوا کچھ نہیں ‘ جنوبی ایشیا میں اگر اپنی ایٹمی ڈیٹر نس کی صلاحیتوں پر بھارت کو ضرورت سے زیادہ ناز اور تکبر ہے تواُسے کل سے زیادہ آج جذباتی جنونیت کی مغلوبیت کے خول سے باہر نکلنا ہوگا مسلمانوں کو اور خصوصاً پاکستان کو اپنی کسی بُرائی یا بَڑی بدی کی بد نیتی سے ٹارگٹ کرنے کی اُس نے نسلی یا مذہبی تعصب سے ’محدود ‘ پیمانے کی کوئی جنگی حکمتِ عملی اپنائی تو پھر بھارت کی جانب سے مسلط کی گئی کسی بھی ایسی جنگ کو شروع کرنے کے بعد کسی صورت میں بھی وہ اِسے ’محدود ‘ نہیں رکھ پائے گا جی جناب ! اِس میں کوئی شک نہیں ‘ پاکستان بھارت کشیدگی کا خاتمہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر ممکن نہیں ہے‘ قومی اسمبلی کی ایک قراردادمیں بجا طور پر عالمی برادری سے مسئلہ ِٗ کشمیر اقوامِ متحدہ کے مطابق حل کرنے پر زور دیا گیا جنرل راحیل شریف نے بھی واضح اور دوٹوک انداز میں اسی سے ملتے جلتے اپنے خیالات کا اظہار کاکول ملٹری اکیڈمی کی ایک تقریب میں کیا جبکہ وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے اقوامِ متحدہ کے سالانہ اجلاس میں اپنے خطاب میں اقوامِ عالم کی توجہ خصوصی طور پر کشمیر کے دیرینہ سنگین مسئلہ کو دونوں پڑوسی ایٹمی ملکوں کے مابین پُرامن مذاکرات کے ذریعے سے حل کرنے پر زور دیا تھا، 66 برس گزر گئے اِس دوران جموں وکشمیر کے عوام کی نظریں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں بیٹھے ہوئے عالمی منصفوں کی ’جانبدارانہ ‘ اور ’غیر جانبدرانہ ‘ رویوں کے مفاداتی تغیر ات کی پالیسیوں پر ہی لگی رہیں، مجال ہے جو کسی نے اِس انسانی مسئلہ کو حل کرنے پر توجہ دی ہو؟کیا جواب دیں گی وہ عالمی طاقتیں ‘ خصوصاً امریکا اور برطانیہ‘ جو آئے روز متواتر اپنا یہ سفارتی استدلال پیش کیا کرتی ہیں کہ مسئلہ ِٗ کشمیر پاکستان اور بھارت باہم مل کر طے کرلیں؟ اگر یہ سنگین جغرافیائی تنازعہ پاکستان اور بھارت نے باہم مل کر طے کرنا تھا، تو پھر
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارت نے یہ مسئلہ کیوں پیش کیا ؟ اُس وقت برطانیہ اور امریکا خاموش رہے اور کیوں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں یہ مسئلہ پیش ہوا تو وہاں امریکا اور برطانیہ نے بھی اِن دو قراردادوں کی حمایت کی تھی ’ کشمیر میں حالات نارمل ہوتے ہی وہاں حقِ استصوابِ رائے کا اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں انتظام کروادیا جائے گا‘ جنونی ایشیا ئی ممالک کی نازک و حساس علاقائی تاریخ کا ادراک رکھنے والے جانتے ہیں مقبوضہ جموں و کشمیر کے تنازعے کو بڑھانے میں جتنی نیت بھارت کی خراب رہی امریکا اور برطانیہ نے بھی کچھ کم نیت خراب نہیں رکھی ہمیشہ بھارتی موقف کے حق میں کھلی جانبداری دکھلائی ہے لاکھوں کشمیری عوام اپنی آزادی کے لئے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے، جبکہ عالمی بے حسی کا کیسا عجب انسانیت کش ستم ظریفانہ مزاج ہے جو ٹس سے مس نہیں ہورہا، مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی فوج کی ظلم ناک سفاکیت کی داستانیں سننے کے بعد بھی ’انسانی روادار تہذیبوں ‘ کے چمپئین اپنے لبوں پر تالے ڈالے خاموشی بیٹھے تماشا دیکھ رہے ہیں،افسوس! اِنہیں کیا معلوم کہ ’تہذیبوں میں رواداری‘ کس ’چڑیا ‘ کانام ہے ؟ برطانیہ انسانی حقوق کی رواداری کو سمجھتا ہے اور نہ انسانی تہذیب وتمدن کا نام نہاد علمبردار امریکا یہ سچائی ماننے کو تیار ہو تا ہے کہ قوموں کی آزادی اور اُن کے بنیادی حقوق میں نسلی یا مذہبی ’تعصب برتنا کسی کو زیبا نہیں دیتا، قوموں کے مابین یکساں سلوک روا رکھا جائے ،نسلی ومذہبی تعصب سے بالاتر ہوکر عالمی انصاف کے لئے نمایاں خدمات انجام دینے والے ’جانبدار یا غیر جانبدار ‘ نہیں ہوتے بلکہ انسانی آزادی کے علمبردار کہلاتے ہیں، اقوامِ متحدہ نے خود کو ’امریکی وبرطانوی ڈکٹیشن کردہ ‘ فیصلوں کا غلام بنا رکھا ہے 1992 میں اقوامِ متحدہ نے مشرقی تیمور کی عیسائی اکثریت کو انڈونیشیا سے آزادی دلوانے میں امریکی ایما پر متعصبانہ ’رول ‘ ادا کیا ا نسانی حقوق کی آزادی کے لئے امریکی اور برطانوی طاقتوں کے اِسی دوغلے اور متعصبانہ کردار پر ہمیشہ دنیا کو وہ متعصبانہ آلودگی میں لتھڑے نظرآئیں گے مطلب یہی ہے کل بھی یہ سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے تھے آزادی پسند ‘ حریّت پسند ‘باشعور دنیا میں ایسے ہی قابلِ نفریں \”Exis of Evil\” قابلِ مذمت کل بھی مانے گئے اور آئندہ بھی\”Exis of Evil\” مانے جاتے رہیں گے ۔