گاندھی جی کا عدم تشدد نابود ‘مودی کا جنونی تنگ نظر۔ نیا بھارت
Posted date: August 24, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
گز شتہ چند ماہ پیشتر بھارت میں ایک ایسی بڑی نامور علمی شخصیت خوشونت سنگھ اچانک آنجہانی ہوگئے جنہوں نے اپنی تمام عمر بھارت دیش کے جنونی انتہا پسندہندؤں کو یہ سمجھانے میں بسر کردی کہ وہ ہوش کے ناخن لیں، بھارتی سیکولرازم کی جڑوں کو کھوکھلی نہ کریں، کیونکہ اکیسویں صدی کے آغاز سے جس راہ پر بی جے پی نے بھارت کو لا کھڑا کیا ہے یہ دیش کے مستقبل کے لئے تباہی اور بربادی کا راستہ ہے کوئی معجزہ ہی بھارتی یونین کو بچائے تو بچائے ورنہ بی جے پی نے نریندر مودی جیسے جنونی انتہا پسند شخص کو کرسی ِٗ وزارت پر بیٹھا کر نقارہ بجا دیا ہے کہ ’بھارت اب بربادی کا شکار ملک بن چکا ہے بقول آنجہانی خوشونت سنگھ کے ’ہر ہوش مند بھارتی کا فرض ہے کہ وہ انتہا پسند ہندوجنونیوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھنک دے یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہیئے تھا جب ہم گجرات میں’’ سیکولر‘‘ سول سوسائٹی کی جنگ ہا ر چکے تھے، آج وہ زندہ ہوتے تو شائد نئی دہلی کے اقتدار کی باگیں نریندر مودی کے ہاتھوں میں دیکھ کر احتجاجاً خود کشی کرچکے ہوتے، یہ خوشونت سنگھ کون تھے کوئی معمولی شخصیت نہیں تھے، بھارتی اسٹیبلیشمنٹ میں ایک زمانے تک اہم عہدوں پر فائز رہے، بحیثیت صحافی اُنہوں نے بے شمار نابغہ تحریریں رقم کیں، دی السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا ‘نیشنل ہیرالڈ‘اور انڈیا ٹائمز کی ادارت کی ذمہ داریاں بخوبی جراّت مندی سے ادا کیں، انتہائی کامیاب ادیب تھے، کلاسیک ادب کی تخلیق پر اُنہیں مکمل عبور حاصل تھا، بہت درد مند طبیعت کی حامل جنوبی ایشیا کی یہ شخصیت دیش کے کانگریسی لیڈروں اور بی جے پی کے جنونی ہندو انتہا پسندوں کی آنکھوں میں زہریلے کانٹے کی طرح سے ہمیشہ کھٹکتے رہے بھارت میں صدیوں سے آباد اقلیتوں کے لئے ہمہ وقت اِن کی آنکھیں نم رہیں، افسوس ! آج وہ بھارت کے اعتدال پسند معاشرے کی رہنمائی کے لئے موجود نہیں ہیں، آج نریندر مودی نئی دہلی سرکار کی سیاہ وسفید کا مالک بنا جنوبی ایشیا کے غالباً ڈیڑ ارب سے زائد انسانوں کے امن کو جب چاہے منٹوں سیکنڈوں میں غارت کرنے کی پوزیشن سنبھال چکا ہے، ایسی انتہائی تشویش ناک الارمنگ اسٹرٹیجک صورتحال میں مغرب اور امریکا کی کیا یہ اوّلین ذمہ داری نہیں بنتی کہ جو ہمہ وقت بھارت کی نام نہاد جنونی ’ہندوتوا ‘ جمہوریت کے نام پر بھارت کو کھلی چھوٹ پر چھوٹ دئیے چلے جارہے ہیں، ماضی کے مقابلے میں آج کا بھارت ایسا جنونی ہندو دیش کی شکل اختیار کرچکا ہے جہاں پر ریاستی سرپرستی میں معاشی ‘ سماجی اور ثقافتی حد بندیاں ہورہی ہیں، جنوبی ایشیا کے دیگر چھوٹے ممالک مثلاً مالدیپ ‘ بھوٹان ‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا کے گرد بھارتی بالا دستی کی سامراجیت کا شکنجہ کسنے کی تیاری اپنے آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہیں مغرب اور امریکا نے اپنی آنکھیں یقیناًبند کررکھی ہیں ہاں ہمارا بحیثیتِ جنوبی ایشیائی پاکستانی فرد کے یہ سوال اب بھارت کی بیدار سول سوسائٹی سے اُس وقت تک ایک گونج کی مانند بھارتی فضاؤں میں سرگرداں رہے گا ،آخر کیوں پورے بھارت میں صرف ’نریندر مودی ‘ ہی اُنہیں کیو ں ملا جسے بھارت کے سیاہ سفید کا مالک بنا دیا گیا ؟ اُس میں ایسی کونسی انسانیت نوازی کی خوبی دیکھی گئی کہ وہ پاکستان اور بھارت کے مابین نصف صدی سے زائد ایک اور عشرے تک جاری کشمکش کو پُرامن طور پر حل کروانے میں تاریخی رول ادا کرنے میں کامیاب ہوجائے گا؟ یقیناًہر معاشرے کے افراد میں جذبات اور شعور کی فکر میں اتار چڑھاؤ رہتا ہے، ایسے کسی مخصوص معاشرے میں اگر ’جذبات ‘ کو فکری ونظری جنونی رغبتوں کی عنایات سے مزین کرنا شروع کردیا جائے اور شعور کو خواہشات کی سرکش لونڈی بنا دیا جائے، تو ایسے معاشروں کی ساری سیاست جنونی جذبات کے تابعِ فرمان بن جایا کرتی ہے، ایسے معاشروں کے گروہ کبھی سیاسی وسعتِ قلبی کی بلوغت تک نہیں پہنچ پاتے، بھارت میں ماضی کی کانگریسی قیادت ہو یا حال کی انتہائی جنونی سیاسی جماعت بی جے پی ‘ جبکہ اِس جماعت کی بھارت میں دوتہائی سے زائد اکثریت رکھنے والی حکومت بھی قائم ہو اور جس کا سربراہ ایک ایسا بدنامِ زمانہ شخص ہو ،جس کے ہاتھ ہزاروں گجراتی مسلمانوں کے لہو سے رنگے ہوئے ہوں یہ وہ ہی نریندر مودی ہے نا ‘ جس نے گودھرا کیمپ کے انتہائی شرمناک ‘ انسانیت سوز فسادات اپنی ریاستی سرکار کی سرپرستی میں کروائے اور 14 ؍ اپریل 2002 کو ’راشٹریہ سہارا نئی دہلی کو اپنے انٹرویو میں انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بیان بھی دیا ’’مجھے اِس بات کا کوئی پیغام نہیں ملا جس سے پتہ چلے کہ وزیر اعظم یا وزیر داخلہ نے کوئی ناراضگی ظاہر کی یا فساد ات کو روکنے کی میری قابلیت کو لے کر وہ مجھ سے ناراض ہیں، گودھرا سانحہ منصوبہ بند اور دہشت گردی کی کارروائی تھی ریاست میں اتنے بڑے پیمانے پر فساد کرانے کے لئے ’پاکستان ‘ ذمہ دار ہے ‘ اب کوئی ہمارے وزیر اعظم نواز شریف سے پوچھے کیا وہ اب بھی نریندر مودی کو بے قصور اور معصوم سمجھتے ہیں چلیئے سب کو چھوڑتے ہیں گجرات میں 2002 کے مسلم کش فساد کی اصل ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے اِس بارے میں کالم کی طوالت کا خیال رکھتے ہوئے ہم یہاں کسی اور بھارتی لیڈر یا سول سوسائٹی کے کسی اور نامور شخصیت کا حوالہ نہیں دیتے بھارت دیش کے موجودہ صدر پرناب مکھرجی کے وہ تاثرات ضرور بیان کریں گے جو اُنہوں نے 8 ؍ مارچ2002 کو ر اشٹریہ سہارا کو دئیے جس میں مسٹر پرناب مکھرجی نے کہا تھا ’دیش کی ایکتا اور لوگوں کے جان ومال کے تحفظ کی ذمہ داری سرکار کی ہے اگر وہ اِسے نبھانے کے قابل نہیں تو اُسے اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے، اگر یہ ہی حالت رہی تو بین الااقوامی سطح پر بھارت کی شبیہ ایک فسادی ملک کی شکل میں ابھرے گی ‘یقیناًآج بھارتی ایوانِ صدر میں بیٹھے مسٹر مکھرجی اپنے ضمیر کے قیدی ضرور ہونگے ہم سوچتے ہیں کہ کس دل کے ساتھ اُنہوں نے بھارتی یونین کو چلانے کے لئے نریندر مودی جیسے سفاک شخص سے وزارتِ عظمیٰ کا حلف لیا ہوگا ؟ کیا وہ یہ نہیں سوچتے ہونگے؟ کل میں نے مودی کے بارے میں کیسے ریمارکس دئیے تھے ؟جو شخص بحیثیت وزیر اعلیٰ کھلا جانبدار ہوکر ہندؤ بلوائیوں کو اکھٹا کرکے دنیا بھر میں دیش کو بدنام کرسکتا ہے، وہ دیش کا وزیر اعظم ہوکر جنوبی ایشیا ‘ ایشیا بلکہ پوری دنیا کے لئے کیا خطرہ نہیں بن سکتا ؟گجرات کے خونی واقعات بھارت کے ماتھے پر لگے داغوں کو نہیں مٹاسکتے یہ وہی مودی ہے نا ‘ جس کو سانحہ گودھرا کیمپ کا ذمہ دار ٹھہرانے کے بعد کئی مغربی ممالک‘ جس میں خود امریکا بھی شامل ہے اِسے اپنے ہاں آنے کا ویزہ دینے سے انکار کردیا تھا اب بچھائے امریکا اور مغربی ممالک اپنے آئیرپورٹس پر سرخ قالین ایک ایسے بھارتی وزیر اعظم کے استقبال کے لئے جس کے ہاتھ ہزاروں بے گناہ مسلم آبادی کے سرخ لہو سے رنگین ہیں، مودی جیسے شخص کو بھارت کی وزارتِ عظمیٰ دیکر بھارتی سماج اور بھارتی طرزِ سیاست میں مسلم اقلیتوں سمیت دیگر اقلیتیں بھی اب اپنے آپ کو بے دست وپا اور بالکل غیر محفوظ سمجھنے لگی ہیں مطلب یہ ہے کہ اب یہ تسلیم کرلیا جائے کہ جنوبی ایشیا میں ’سموچے ہند یا اکھنڈ بھارت ‘ کی یقیناًکوئی نہ کوئی عملی شرارت کسی وقت بھی اچانک وقوع پذیر ہوجائے تو پھر کسی کو حیران اور متعجب ہونے کی ضرورت نہیں ۔