گروہ نا دانشوراں کچھ بھی کہے۔۔۔اقبال پھر بھی اقبال ہی رہے گا
Posted date: November 15, 2015In: Urdu Section|comment : 0
نغمہ حبیب
بر صغیر کے مسلمانوں پر جن چند شخصیات کا حقیقتاََ احسان ہے ان میں سے علامہ اقبال ایک قد آور شخصیت ہیں اور درحقیقت قوم کو ایک راہ راست پر ڈالنے میں اقبال کی فکر نے اہم ترین کردار ادا کیا۔ اقبال کے اس احسان میں آج تک کسی کو شک نہیں رہا لیکن معلوم نہیں ہم نان ایشوز کو ایشوز کیوں بنا لیتے ہیں اس بار ہم نے اپنے اس محسن کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کیا اور اس کے یوم پیدائش کو ایک مذاق بنا کر رکھ دیا اور چھٹی ہے چھٹی نہیں ہے کا کھیل کھیلا گیا ایک صوبے میں چھٹی دوسرے میں نہیں وفاق نے چھٹی منسوخ کر دی اور صرف دو دن پہلے اس کا اعلان کیا گیا اگر ایسا اعلان پہلے ہی سے کر دیا جاتا تو شاید اس سے اتنی کنفیوژن نہ پیدا ہوتی ۔یوم اقبال کی چھٹی پہلے بھی مستقلاََ نہیں رہی اور کسی کو اس پر خاص اعتراض بھی نہیں لیکن حکومت کے غیر دانشمندانہ اقدام نے نہ صرف اسے متنازعہ بنا دیا بلکہ علامہ اقبال کے بارے میں بھی کچھ ایسی باتیں کی گئیں کچھ ایسے خیالات کا اظہار کیا گیا جو کہ نہ صرف نا مناسب ہے بلکہ احسان فراموشی کے زمرے میں آتا ہے۔
علامہ محمد اقبال صرف ایک نام نہیں ایک شاعر نہیں ایک فکر کا نام ہے ایک ایسی فکر جس نے ایک پوری قوم کی سوچ اور فکر کا دھارا موڑ لیا اور اسے یہ احساس دلایا کہ اگر اب وہ زوال پذیر ہے تو شروع سے ایسا نہیں تھا اور نہ آخر تک ایسا ہونا چاہیے اپنے حالات بدلنے کے لیے کوشش ضروری ہے ۔ 1930 کا خطبہء الٰہ آباد بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ اس سے انکار نہیں کہ ان سے پہلے بھی ہندوستان میں دو قوموں کے بسنے کی بات ہوتی تھی مسلمان سیاست میں فعال بھی تھے اور اپنے حقوق کی جنگ بھی شروع کر چکے تھے لیکن باقاعدہ طور پر مسلمانوں کے لیے ایک الگ ملک کا تصور ایک منظم پلیٹ فارم سے پیش ہوا اور ان کو ایک واضح راستہ دکھا دیا گیا ۔ میرا یہاں یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد تاریخ لکھنا نہیں بلکہ حال کا تجزیہ کرنا ہے کہ ہم اپنے محسنوں اور اپنی تاریخ کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں ہمارے کچھ ایسے ہی میڈیا دانشوروں نے حکومت کے فراہم کردہ اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ میں انہیں میڈیا دانشور اس لیے کہتی ہوں کہ اِن کی دانشوری صرف میڈیا پروگراموں کی میز تک محدود ہے خیر ایسے ہی کچھ لوگ جب ایک چینل پر بیٹھے تو اقبال کی دانشوری اور ان کی شاعری کی اثر انگیزی سے ہی انکاری ہو گئے۔ حسن نثار جو مسلمانوں کی تاریخ پر تو اکثر اوقات بڑی کڑی تنقید کرتے رہتے ہیں اور حال کا شدید گلہ بھی کرتے ہیں لیکن انہوں نے بڑے دھڑلے سے کہا کہ اقبال کی شاعری کا اکثر حصہ آج کے حالات سے غیر متعلق ہو گیا ہے انہوں نے مثال دی کہ اب دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے کا زمانہ گزر گیا ہے تو کیا اُن کے خیال میں ہم نے اب اپنی منزل پالی ہے اور اب ہمیں اپنا شاندار ماضی یاد کرنے اور کروانے کی ضرورت ہی نہیں رہی حسن نثار کے خیالات پر دہلا امتیاز عالم نے مارا اور تاریخ کی دھجیاں یوں اڑائیں کہ علامہ اقبال نے تصور پاکستان پیش نہیں کیا ۔درست امتیاز صاحب ان کے تجویز کردہ ملک کا نام پاکستان نہیں تھا لیکن جب پاکستان بنا تو یہ اسی تصور کی تصویر تھی جو وجود میں آگئی اور مزید حیرت کہ اِن خیالات کو سن کر بھی دوسرے شرکاء خاموش رہے اور ان کی تصحیح کرنے کی کوشش نہیں کی شاید یہ خوف ہو کہ ایک دانشور دوسرے کی دانش کا بھانڈا پھوڑے گا تو دوسرا بھی اُس کی عقل پر شک کر سکتا ہے ہاں یہ ضرور گوارا کر لیا گیا کہ قومی اور ملی شاعر کے افکار کو اب ردی کا کا غذ سمجھ لیا جائے یاایک ڈسپوزبل شے جیسے استعمال کے بعد پھینک دیا جاتا ہے اِقبال نے شاید اسی گروہ نا دانشوراں کے لیے کہا تھا۔
والے ناکامی متاع کا رواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیا ں جاتا رہا
اور یہی وہ مسئلہ تھا جو یوم اقبال کی چھٹی اور نا چھٹی کی وجہ سے پیدا ہوا۔ پاکستان میں میڈیا کے نئے دور نے مثبت کردار بھی ادا کیا ہے لیکن غیر ضروری بحثوں کو بھی جنم دیا ہے اور ایسا کرتے ہوئے قومی اور ملی تقاضوں کو ہر گز مد نظر نہیں رکھا گیا بلکہ خود کو جینیئس اورنابغہء روزگار ثابت کرنے کے لیے ایک غیر ضرور ی بلکہ قومی تقاضوں کے مخالف نکتہ اٹھاکر قومی نظریات کو متنازعہ بنا دیا جاتا ہے مثلاََ کچھ عرصہ پہلے دو قومی نظریے جیسے موضوع کو متنازعہ بنا کر ہندؤں اور ہندوستان کی دل جوئی کی گئی اور اب ڈر ہے کہ اقبال کے کام کو عصر حاضر کے مطابق اور غیر مطابق قرار دینے کی فضول کی بحث نہ چھیڑ دی جائے۔ ایسے میں اگر اینکر خواتین و حضرات بھی اپنی تیاری رکھیں اور ایسی بحث کو جنم نہ لینے دیں تو بہت بہتر ہوگا۔ حکومت بھی اگر اپنی پالیسیاں قبل از وقت ترتیب دے اور انہیں واضح رکھے تو قوم اپنے نظریاتی معاملات میں خواہ مخواہ کے مسائل میں نہیں الجھے گی۔ اگر قومی یکجہتی کی خاطر یہ ایک چھٹی کر بھی دی جاتی تو کچھ ایسی بڑی بات نہ تھی ۔ ہاں اگر اس میں کوئی سیاسی مصلحت ہے جو کہ نظر آئی بھی تو اُس میں قوم کو نہ الجھا یا جائے بلکہ سیاسی مقابلہ سیاسی میدان میں کیا جائے اس کے لیے قومی نظریات اور قومی شخصیات کا سہارا نہ لیا جائے ۔ یہ یاد رکھا جائے کہ چھٹی ہو نا ہو اقبال ہے .وہ اقبال جن کے شعروں کے حوالے دے دے کر اور ان کے نظریات کا جھوٹا سچا سہارا لے لے کر ہمارے سیاست دان اپنی کرسیاں حاصل کرتے اور بچاتے ہیں اور میڈیا بھی اقبال کو کم از کم امتیاز عا لم جیسے دانشوروں کے حوالے نہ کرے جن کے کچھ کہنے سے اگر چہ خود انہی کی شخصیت پر لگے داغوں میں اضافہ ہوگا اقبال پھر بھی اقبال رہے گالیکن اس کے باوجودنہ ان کو اور نہ کسی اور کو اس بات کی اجازت دی جانی چاہیے کہ وہ یو ں قومی شخصیات کے بارے غلط بیانی اور فضو ل گوئی کریں۔