ہزارہ ٹاؤن میں ایک اور خود کش حملہ،پاکستان کی سلامتی اور استحکام پر حملہ
Posted date: July 16, 2013In: Urdu Section|comment : 0
اے بی مجاہد
نئی حکومت کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد پوری قو م توقع کر رہی تھی کہ اب بلوچستان میں گزشتہ کئی سالوں سےجار ی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ رک جائے گا اور حکومتی اداروں سےخفا بلوچوں کو بھی امن و سلامتی کے راستہ پر واپس لاکر قومی دھارے میں شامل کر لیا جائے گا مگر بدقسمتی سے یہ توقعات پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی ۔ بلوچستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد زیارت میں قائد اعظم ریذیڈنسی کی آتشزدگی ،کوئٹہ میں طالبات کی بس پر خود کش حملے اور بولان میڈیکل کمپلیکس میں فائرنگ اور دھماکوں نے پوری قوم بالخصوص بلوچ پاکستانیوں کو بھی فکر واضطراب میں مبتلا کر دیا ۔
بلوچستان کی صوبائی حکومت ابھی ان سانحات میں ملوث کرداروں کو تلاش کر رہی تھی کہ 30جون کو علی آباد ہزارہ ٹاؤن میں امام بارگاہ ابو طالب کے قریب خود کش حملہ آور نے بم دھماکہ کر دیا جس میں31افرادجاں بحق اور65سے زائد افراد زخمی ہو گئے ۔ہزارہ ٹاؤن میں اسی سال جنوری اور فروری میں ہونے والے دھماکوں میں سینکڑوں افراد کی شہادت کے بعد ہزارہ ٹاؤن میں آمدورفت کے تمام راستوں پر سکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کیے گئے تھے ۔ ملک کے شورش زدہ صوبے بلوچستان خصوصاً صوبائی دارلحکومت کوئٹہ میں ایک عرصہ سے جاری دہشتگردی کے واقعات کو سختی سے روکنے کےلیے سکیورٹی ایجنسیوں اور حکومتی اداروں کے مابین اشتراک وتعاون سے حالات بہتر بنانے اور کوئٹہ کو امن کا گہوارہ بنانے کے اقدامات نتیجہ خیز ثابت ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے ۔تاہم حکومت کو بلوچستان کے حالات کی وجہ سے حساس اداروں کے خلاف ہونے والے منفی پراپیگنڈہ کے سدباب کے لیے بھی اقدامات کرنے ہونگے اور بلوچستان کے حالات پر رنجیدہ اہل وطن کو یہ باور کرانا چاہیے کہ حساس اداروں کا کام حکومت اورامن عامہ کی حفاظت کے ذمہ دار اداروں کو متوقع خدشات و خطرات سے لمحہ با لمحہ باخبر رکھنا اور تخریب کاروں کے شیطانی پروگراموں سے آگاہ کرنا ہوتا ہے اور ان اداروں کی رپورٹوں کی روشنی میں سکیورٹی کو فول پروف بنانا حکومت اور حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر جب بھی دہشت گردی کا کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے تو حکومتی اداروں کی نااہلی کا نوٹس لینے اور ان کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے عملی اقدامات کرنے کی بجائے حساس اداروں کے خلاف الزام تراشی شروع کر دی جاتی ہے جو کہ قطعی غیر ذمہ دارانہ اور احمقانہ طرز عمل ہے جس پر انتظامی اداروں کے ذمہ داران کو مناسب توجہ دینی چاہیے ۔
بلوچستان میں ہزارہ قبیلے کی ٹارگٹ کلنگ کا غمناک سلسلہ گزشتہ کئی سال سے جاری ہے اور حکومتی اداروں کی تحقیقاتی رپورٹوں کیمطابق گزشتہ سالوں کے دوران ہزارہ برادری کے825سے زائد بیگناہ افراد محض اپنے مذہبی عقائد کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں جبکہ3590سے زائد نوجوان ،بوڑھے اور عورتیں اپنے نو نہال بچوں سمیت زخمی ہو چکی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ16فروری2013 کے اندوہناک سانحہ کے بعد ہزارہ قبیلے کے ہزاروں سوگواران نے اپنے پیاروں کی لاشیں سڑک پر رکھ کر کئی روز تک اپنے مستقل تحفظ کی بھیک مانگنی شروع کی تو ان مظلومین کی حمایت میں ملک گیر احتجاج شروع ہو گیا تھا۔بلوچستان میں حالات کے اس حد تک بگاڑ کے کئی اسباب اور مختلف پہلو ہیں جبکہ بلوچستان ایک عرصہ سے عالمی قوتوں کی ریشہ دوانیوں کا بھی گڑھ بن چکا ہے ۔ اہم ترین محل وقوع کی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے بلوچستان میں بد امنی اور گڑبڑ میں امریکہ ،بھارت اور اسرائیل کا مشترکہ شیطانی نیٹ ورک ملوث ہے جس کے شواہد اور ثبوت جمع کرکے دفاعی ایجنسیوں نے حکومتوں کو پیش کیے اور حکومتی سربراہان کو مسلسل خبردار کیا کہ پاکستان خصوصاً بلوچستان میں جاری خوفناک دہشت گردی کے بھیانک کھیل میں کئی بیرونی ہاتھ ملوث ہیں جو کہ پاکستان کے داخلی امن و استحکام کو تباہ کرنے کے لیے اپنے ایجنٹوں کو سرمایہ اور ہتھیار فراہم کر رہے ہیں ۔پاکستان میں جاری دہشتگردی کے اسباب و عوامل اور پس پردہ محرکات کا بھرپور ادراک کرتے ہوئے موثر طور پر سدباب اور تدارک وقت کی اہم ضرورت ہے۔
پوری قوم موجودہ جمہوری حکومتوں سے توقع رکھتی ہے کہ وُہ وطن عزیز کو درپیش اندرونی و بیرونی خطرات اور چیلنجز سے نجات دلانے کے لیے صحیح منصوبہ بندی کریں گے ۔بلاشبہ ہمارا پاک وطن اپنی تاریخ کے خطرناک دور سے گزر رہا ہے ،اس لیے دانشمندی اور حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ ملک کی سیاسی و عسکری قیادت باہمی اعتماد اور اشتراک و تعاون کو مضبوط کرتے ہوئے قومی سلامتی کے تمام تر تقاضے پورے کرنے کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔