Posted date: February 04, 2017In: Urdu Section|comment : 0
افغان حکومت اورحزبِ اسلامی کے معاہدے کے بعدپہلی مرتبہ حکمت یار باقاعدہ طورپرکابل آنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں تاکہ وہاں بیٹھ کرآئندہ انتخابات میں حصہ لینے کیلئے اپنی سیاسی سرگرمیوں کاآغازکیاجاسکے جس کیلئے ان کی آمدسے قبل ان کی حفاظت کیلئے حزبِ اسلامی کے وفادارچارسوسے زائدکمانڈوزکی تربیت کاآغازکردیاگیاہے اوران میں سے ایک سو کمانڈوزحزبِ اسلامی کے سربراہ کی حفاظت کیلئےمامورہوں گے۔حزبِ اسلامی کے ماہراورپرانے فوجی کمانڈربراہِ راست اس کام کی نگرانی کررہے ہیں۔افغان فوج اور پولیس بھی ان کی حفاظت کیلئے ہمہ وقت موجودرہے گی تاہم حزبِ اسلامی کے سربراہ سے ملاقات کیلئے آنے والوں،ان کی رہائش گاہ کی تمام ذمہ داری ان کمانڈوزپرہوگی۔حزبِ اسلامی کے سربراہ مشرقی افغانستان،کابل اورشمالی افغانستان کے تین محفوظ مقامات پرقیام کرسکیں گے اورہرقیام گاہ پرایک سوکمانڈوزان کی حفاظت پر ماموررہیں گے جبکہ ان کمانڈوزکی چھٹی کی صورت میں دوسرے سیکورٹی اہلکاران کی جگہ لیں گے۔
گزشتہ دنوں حزبِ اسلامی کابل دفترکے نئے ترجمان محمدنادرافغان نے کہاکہ روس ہم سے رابطہ کیاہے کہ افغان حکومت کے ساتھ مل کرحزبِ اسلامی کے سربراہ حکمت یارکے نام کوبلیک لسٹ سے نکالنے کیلئے انہیں کوئی اعتراض نہیں اورہمیں امیدہے کہ یہ مسئلہ جلدحل ہوجائے گاجس کے بعدحزبِ اسلامی کے سربراہ کی آمدکے حوالے سے تیاریاں زورپکڑرہی ہیں۔اس سے پہلے اخبارات میں یہ خبریں آئی تھیں کہ فرانس اور روس نےگلبدین حکمت یارکانام بلیک لسٹ سے نکالنے پرشدیداعتراض کیاہے تاہم روس نے بعد میں اس کی تردیدکردی تھی۔ حزبِ اسلامی کے سربراہ نے چنددن قبل کہاتھاکہ ان کی کابل واپسی بلیک لسٹ سے مشروط نہیں ہے بلکہ ان کی واپسی کیلئے مہاجرین کیلئے رہائش گاہوں اور قیام گاہوں کابندوبست اورحزبِ اسلامی کے قیدیوں کی رہائی سے مشروط ہے۔اس حوالے سے افغان حکومت نے حزبِ اسلامی کے قیدیوں کی فہرستیں طلب کرلی ہیں۔
حزبِ اسلامی کے سینکڑوں کمانڈرز،جنگجواورسیاسی کارکن چرخی جیل میں قیدہیں۔حزبِ اسلامی اگراپنے تمام قیدیوں کورہا کروانے میں کامیاب ہوجاتی ہے، پشاوراورتہران میں مقیم اس کے اہم رہنماء کابل آتے ہیں توکابل میں سیاسی منظر نامہ مکمل طورپرتبدیل ہوجائے گا،اس حوالے سے حزبِ اسلامی کے خصوصی کمانڈوزکوتربیت دی جارہی ہے اوراس تربیت کاخصوصی مقصدہی یہی ہے کہ حزبِ اسلامی کے سربراہ کانام بلیک لسٹ میں موجودبھی ہوتوان کی سیکورٹی کے معاملات حزبِ اسلامی کے کمانڈوزکے ہاتھ ہی میں ہوں۔دوسری جانب حزبِ اسلامی فرانس کے سربراہ اورحزبِ اسلامی کے رابطہ کار امین کریم نے فرانس میں مزیدملاقاتیں کی ہیں اورفرانسیسی حکام کوقائل کرناشروع کردیا ہے کہ حزبِ اسلامی کے سربراہ کانام بلیک لسٹ سے نکالنے کیلئے طالبان کے ساتھ مذاکرات انتہائی اہم ہیں کیونکہ اگر حزبِ اسلامی کے سربراہ کانام نہیں نکالا جاتاہے توپھر طالبان بھی مذاکرات کیلئے آمادہ نہیں ہوں گے اورافغان حکومت اس سے کمزور ہوجائے گی کیونکہ اگرافغان حکومت امن مذاکرات کے بعدکسی معاہدے پر پہنچتی ہے اوریورپ اس کے راستے میں رکاوٹ بن جاتاہے توپھرسب سے بڑا مسئلہ یہ ہوگاکہ طالبان افغان حکومت کے ساتھ بالکل مذاکرات نہیں کریں گے اور وہ براہِ راست امریکااورمغرب کے ساتھ مذاکرات کریں گے،جوکبھی کامیاب نہیں ہوں گے کیونکہ افغان حکومت کوبے توقیر کرنے سے زیادہ فائدہ امن مخالف لوگوں کوہوگا کیونکہ افغان حکومت نہ پھرطالبان اورنہ حزبِ اسلامی کے ساتھ امن معاہدوں پرعمل درآمدکرنے کیلئے تیارہوگی بلکہ افغان حکومت اپنے آپ کو تنہااوربے بس محسوس کرے گی اس لئے ضروری ہے کہ حزبِ اسلامی کے سربراہ کوبلیک لسٹ سے نکالنے میں فرانس بھی مددفراہم کرے۔
دوسری جانب حزبِ اسلامی کے کمانڈوزکولائسنس یافتہ اسلحہ،ان کی تنخواہیں، خوراک افغان حکومت ہی فراہم کرے گی اوریہ کمانڈوزایک طرح افغان فوج اور پولیس کاحصہ رہیں گے تاہم چونکہ معاہدے میں یہ بات درج ہے کہ حزبِ اسلامی کے سربراہ کی سیکورٹی کے معاملات حزبِ اسلامی کے کمانڈوزکے ہاتھوں میں رہیں گے تاہم اس کے تمام اخراجات افغان حکومت برداشت کرے گی اوراس کیلئے لائسنس یافتہ اسلحہ اوردیگرسازو سامان جدیدقسم کے آلات پرمشتمل ہوگا۔ حزبِ اسلامی اپنے طورسے اسلحہ نہیں رکھے گی بلکہ حکومتی اسلحہ استعمال کرے گی جس میں جیمرز،بلٹ پروف جیکٹس،بلٹ پروف گاڑیاں،امریکی اور روسی جدیداسلحہ بھی شامل ہوگا۔
ادھرافغان طالبان نے موسم بہارمیں ہلمندپرقبضے کی تیاری مکمل کرلی ہے۔اس مقصدکیلئے افغان طالبان کی جانب سے ہزاروں جنگجوؤں کی خصوصی تربیت مکمل ہوگئی ہے۔علاوہ ازیں شمالی اورمشرقی افغانستان میں داعش کوکچلنے کے لئے افغان طالبان کی جانب سے جودوہزارتربیت یافتہ جنگجوؤں پرمشتمل خصوصی فورس بنائی گئی تھی اسے بھی ہلمندطلب کرلیاگیاہے۔ دستیاب اطلاعات کے مطابق گزشتہ دنوں افغان طالبان کی رہبرشوریٰ اور کمانڈروں نے ہلمندمیں ایک اہم مشاورتی اجلاس طلب کیاجس میں فیصلہ کیاگیاکہ موسم بہارکے بعد ہلمندپرقبضہ مکمل کرکے اسے حکومت کا دارلحکومت قراردیاجائے گاکیونکہ اس کی حفاظت کیلئے ہزاروں جنگجوؤں کوخصوصی تربیت اورجدیداسلحے سے لیس کیاگیاہے۔افغان طالبان کی رہبرشوریٰ نے افغان کمانڈرزکوہدائت کی ہے کہ ہلمندآنے والے ماہرجنگجوؤں کی فہرست تیارکرکے بجھوائی جائیں کیونکہ ہر کوئی ہلمند آنے کی کوشش کرے گاجس سے شمال اورمشرق میں افغان طالبان کی فتح رک جائے گی۔دوسری جانب افغان طالبان کے منصوبے کے انکشاف اور افغان فوج کی اپیل کے بعدامریکانے ہلمندکو بچانے کیلئے مزیدتین سوفوجی بھجوانے کااعلان کردیاہے۔امریکی فوجی اڈے پراس وقت میرین کے سواہلکار گزشتہ خزاں سے تعینات ہیں جو لشکر گاہ کی حفاظت پر مامور ہیں جومتوقع حملے کامقابلہ کرنے کیلئے ناکافی ہیں۔
ادھرافغان طالبان نے ہلمندمیں مزیدتین سو امریکی میرین کی تعیناتی پرردّ ِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ امریکاکے ساتھ لڑنے کا چیلنج قبول کرتے ہیں۔امریکی افواج کوچاہئے کہ وہ لڑائی کیلئے اپنے مراکزسے باہرنکلیں تاہم امریکانے یہ بہانہ بنایاہے کہ اس نے اپنے میرین افغان فوجیوں کی صرف تربیت کیلئے ہلمند بھیجے ہیں۔افغان طالبان کے جنوب مشرقی افغانستان کیلئے ترجمان قاری یوسف احمدی کی جانب سے پشتوزبان میں جاری ایک بیان میں کہاگیاہے کہ ۶جنوری ۲۰۱۷ء کوامریکی فوجی کمانڈروں نے اعلان کیاہے کہ موسم بہارمیں صوبہ ہلمندکوبچانے کیلئے تین سو فوجی ہلمندپہنچ رہے ہیں۔گزشتہ موسم بہارمیں بھی امریکی اسپیشل فورس کے سو اہلکار صوبائی دارلحکومت لشکرگاہ کے دفاع کیلئے بھیجے گئے تھے جوبھاری نقصان اٹھانے کے بعد بیسٹن فوجی کیمپ کی جانب فرارہوئے۔ امریکی فوجیوں نے عام امریکی شہریوں کی مددسے خفیہ طورپراب بھی کیمپ ڈائرنامی فوجی اڈے کوضلع گرمسیرمیں قائم کررکھاہے جہاں اسپیشل فورسزکے سینکڑوں اہلکارمتعین ہیں۔ اصل میں امریکی فوجی اہلکاران اسپیشل فورس کے اہلکاروں کو بچانے کیلئے آرہے ہیں۔
افغان طالبان کی جانب سے جاری بیان میں یہ بھی کہاگیاہے کہ مزیدامریکی فوجیوں کوہلمند بھیجناکابل انتظامیہ کے شکست خوردہ فوجیوں کوبہارتک طالبان کے حملوں سے بچاناہے تاکہ ان کو تربیت دیکرموسم گرمامیں ہلمندکوبچایاجائے تاہم امارات اسلامیہ کے سرفروش مجاہدین نے ہزاروں امریکی اوردیگر غاصب فوجیوں کی موجودگی میں پیش رفت کوجاری رکھا ہے توچندسوفوجیوں کی موجودگی میں بھی فتوحات کاسلسلہ جاری رہے گا۔اگرامریکی فوجی اپنی محفوظ پناہ گاہوں کوچھوڑکرمیدان جنگ میں دوبدولڑائی میں حصہ لیں توپھر انہیں پتہ چلے گاکہ طالبان کس قدرمضبوط ہوچکے ہیں۔ یہ حربے امریکی انتظامیہ کی آخری کوششوں کے طورپرہیں جس سے کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہو گا۔امریکاکو شکست کا سامنا ہے اوریہ شکست امریکاسمیت تمام اتحادیوں پرواضح ہے۔
افغان طالبان کے بیان کے مطابق افغانستان سے جانے والے ایک کینیڈین فوجی نے اپنے گھرکے پانچ افرادکواس لئے ماردیاکہ ان کولاحاصل جنگ میں دھکیل دیاگیاتھا۔گزشتہ دنوں امریکامیں عراق سے جانے والے فوجی کی فائرنگ اسی شکست کانتیجہ ہے۔معصوم اوربے گناہ افرادکومارکرامریکا کوشکست سے نہیں بچایاجاسکتا۔یہاں یہ امرقابل ذکرہے کہ کابل میں اینٹی وارآرگنائزیشن افغانستان کے مندوبین نے ایک نئی جنگ کے بادل منڈلاتے دیکھ کرکابل میں ایک پریس کانفرنس کے دوران افغان طالبان اورامریکاسے مطالبہ کیاہے کہ وہ کسی معاہدے پرپہنچنے کیلئے فوری براہِ راست مذاکرات کرکے کسی معاہدے پرپہنچ جائیں کیونکہ افغانستان میں مزیدلڑائی کے افغان عوام متحمل نہیں ہوسکتے۔