سعودی عرب – ڈیڑھ بلین ڈالر
اگر سعودی عرب نے ڈیڑھ بلین ڈالر دیئے ہیں اور اتنی ہی مزید رقم دینے کا وعدہ کیا ہے تو وزیر خزانہ، اسحاق ڈار، اس کا نام لینے سے کیوں گریز کر رہے ہیں؟ اس کی ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے کہ یہ رقم ہاتھی کے دانت ہیں، دکھانے کے ہیں، کھانے کے نہیں۔
ہوا غالباً یہ ہے کہ سعودیہ نے رقم بینک دولت پاکستان میں جمع کرا دی اور اسے زر مبادلہ کے ذخیرہ میں دکھانے کی اجازت بھی دے دی لیکن خرچ کرنے کی اجازت اس وقت ملے گی جب نواز شریف ان کے مطالبات مانیں گے۔ اس طرح رقم جمع کرانے کو انگریزی میں ’’پارک کرنا‘‘ کہتے ہیں، یعنی عارضی طور پر اور شرطوں کے تحت حوالہ کرنا۔ شرطیں پوری نہ ہوں تو رقم واپس لے لی جاتی ہے۔
شرطوں کی ضرورت اس لیئے ہے کہ میاں صاحب پر سعودیوں کو اب بھروسہ نہیں رہا۔ اگر ہوتا تو وہ میاں صاحب کے حلف اٹھاتے ہی پانچ بلین ڈالر اور مفت تیل دیتے، جیسا کہ ن لیگ والوں نے افواہ پھیلا رکھی تھی۔ دس مہینے بعد اب ڈیڑھ بلین ڈالر نہ دیتے، وہ بھی مشروط طور پر۔
سعودی حکمران چاہتے کیا ہیں؟ بتایا جاتا ہے کہ ان کے بڑے مطالبات یہ ہیں، جو فوج نہیں ماننے دے گی:
سوریہ (شام) میں باغیوں کی مدد کے لیئے سابق فوجیوں کو بھرتی کرنے کی اجازت دی جائے، جو انھیں تربیت دیں، اسلحہ کا استعمال سکھائیں اور لڑائی میں بھی مدد دیں۔
سوریہ میں استعمال کے لیئے اسلحہ بھی دیا جائے۔
مشرق میں خلیج فارس کے ساحلی علاقہ میں تیل کے چشموں کی حفاظت کے لیئے فوجی دیں، جو اس علاقہ میں دہشت گردی روکنے میں بھی مدد دیں۔ اس علاقہ میں شیعہ آبادی خاصی ہے۔ اس لیئے سنی ملک کے فوجی درکار ہیں۔ اخوان المسلمون سے بھی خطرہ ہے، جو مصر میں فوجی حکومت کی سختیوں سے بچنے کے لیئے قطر میں آ رہے ہیں۔ وہ سعودی عرب کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں کیونکہ وہ فوجی حکومت کی مدد کر رہا ہے۔