نغمہ حبیب
1979 کے اواخر میں سابقہ سویت یونین نے افغانستان پر مسلح فوج کشی کی تو جواباََ مسلح مزاحمت شروع ہوئی یہ مزاحمت غیر ملکی فوجوں کے بھی خلاف تھی اور اپنی حکومت کے خلاف بھی جس نے غیر ملکی افواج کی مداخلت کوقبول کیا تھا۔نتیجتاََ ایک ایسی خانہ جنگی شروع ہوئی جو آج بھی جاری ہے۔اس خانہ جنگی کا جو اثر افغانستان پر ہونا تھا وہ تو ہوا ہی لیکن پاکستان بھی انتہائی طور پر متاثرین میں سے تھا۔اس جنگ کے نتیجے میں لاکھوں افغانیوں نے افغانستان کے اندر اور باہر ہجرت کی اور مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد نے پاکستان کا رُخ کیا چونکہ ہمارے دو صوبوں کی سرحدیں افغانستان سے جُڑی ہوئی ہیں لہٰذا سب سے زیادہ مہاجرین خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں آئے اور پشاور اور کوئٹہ سمیت ان صوبوں کے کئی شہروں کے کئی علاقوں میں پاکستانیوں سے زیادہ افغانی نظر آنے لگے۔پاکستان نے بحیثیت ریاست اور پاکستانیوں نے بحیثیت مسلمان بھائیوں کے اپنی حیثیت سے بڑھ کر ان مہاجرین کی مہمان نوازی اور آؤ بھگت کی ان کا بوجھ بڑی خوشدلی سے اُٹھایا پاکستان نے ان کو ہر ممکن سہولت فراہم کی۔اِن کی دونسلیں ادھر ہی پیدا اور جوان ہوئیں اورپڑھیں لکھیں بلکہ اپنے ملک سے کہیں بہتر تعلیم حاصل کی آ ج بھی آپ کوپشاور کے پرائیویٹ ہسپتالوں میں کئی افغانی ڈاکٹر نظر آئیں گے۔ کئی افغان خاندانوں نے کسی نہ کسی طرح یہاں اپنے ذاتی گھر خریدے کئی نے اپنے چھوٹے بڑے بزنس سیٹ کیے اور یوں بیرونی امداد کے ساتھ ساتھ اپنے ذرائع آمدن بنائے۔ان میں سے کئی خاندان بڑے بڑے کرایوں کے بڑے بڑے گھروں میں رہ رہے ہیں اور وہ وسائل وذرائع جو پاکستان کے اپنے شہریوں کے لیے بھی نا کافی یا بمشکل کافی ہیں اُن میں حصہ دار بن رہے ہیں۔یہ تو وہ اقدامات تھے جو پاکستان نے کیے لیکن اس کے جواب اور بدلے میں پاکستان کو جس عظیم نقصان کا سامنا کرنا پڑا اس کا حساب کرنے بیٹھیں تو افغانستان صدیوں تک اُس کا ازالہ نہیں کر سکتا۔ انہی افغان مہاجرین کی آمد کے ساتھ پاکستان میں کلاشنکوف کلچر در آیا، ہیروئن کی آفت ٹوٹ پڑی، پاکستانی بم دھماکوں سے آشنا ہوئے، خودکش دھماکوں کا غیر انسانی اور غیر اسلامی سلسلہ چل پڑابلکہ اب بھی چل رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ان میں زیادہ تر لوگ پُر امن تھے لیکن انہی کی آڑلے کر دہشت گردوں نے پاکستان میں قدم رکھا اور آج بھی اپنی کاروائیوں کو کسی نہ کسی طرح جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بات صرف یہاں تک محدود نہیں بلکہ ان کی پاکستان میں موجو دپناہ گاہوں کو جب ختم کیا گیا تو مولوی فضل اللہ جیسے درندوں کو افغانستان میں ہی پناہ دی گئی۔ بلوچستان میں بدامنی اور ملک دشمنی کے ذ مہ داروں کو اسی افغانستان سے بھرپور مدد ملتی رہی اور مل رہی ہے۔اسی افغانستان نے پاکستان کے خلاف بھارت کو مدد فراہم کرتے ہوئے اس کی سرحد کے ساتھ ساتھ ایک درجن سے زیادہ قونصل خانوں کے لیے جگہ اور سہولت فراہم کی۔وہی بھارت جس نے سویت یونین کو افغانستان کے خلاف سپورٹ کیاافغانستان کے لیے اہم اور دوست ٹھہرا اور وہی پاکستان جس نے افغانستان کے لیے اپنے بے شمار فوجی اور سول شہریوں کی قربانی دی اپنے پر امن ملک کے امن کو داؤ پر لگا دیا اُسی افغانستان نے ہمارے ہر دشمن کے لیے اپنی سرحدیں اور دل کھول دیے،خاص کر بھارت کو اپنے معاملات میں اتنا دخیل کیا کہ وہی افغانی جو پاکستان میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے پاکستان کے خلاف کمر بستہ ہو گئے بلکہ اس کے خلاف پروپیگنڈے کا حصہ بن گئے۔ پاکستان نے اس سب کچھ کے باوجود بھی افغان مہاجرین کو اپنی ذمہ داری سمجھے اور بنائے رکھا۔ ہم اہلیان پشاور جا نتے ہیں اور آپ کو بتا سکتے ہیں کہ ابتداََ بے یارو مدد گار یہ افغان مہاجرین آج پشاور میں اپنے کاروبار اور دکانوں کے مالک ہیں اور اِن کے بچے شہر کے بہترین سکولز سسٹمز میں او لیولز اور اے لیولز کر رہے ہیں۔مجھے ان کے کاروبار کرنے پر بھی اعتراض نہیں لیکن کیا اس کے جواب میں انہیں پاکستان کا رکھوالا نہیں بن جانا چاہیے لیکن ایسا نہیں بلکہ اس کے اُلٹ سلسلہ چل رہا ہے اور حامد کرزئی نے جو سلسلہ چلایا اور اپنے آقا بھارت کی محبت کے جو بیج افغانیوں کے دل میں بوتا رہا وہی سلسلہ آگے بڑھا یا گیا،بات یہاں تک بھی نہیں رُکی بلکہ ساتھ ساتھ وہی افغان جو خود کو بہت اچھا مسلمان کہتا ہے ایک برادر اسلامی ملک کے خلاف غیر مسلموں کے ساتھ مل کر صف بستہ ہو گیا اور وہ بھی وہ ملک جس نے اس کے تیس لا کھ باشندوں کا بوجھ کئی دہائیوں تک اٹھایا اور اٹھا رہا ہے اور اگر یہ افغان مہاجرین کم از کم اس احسان کے بدلے میں ہی پاکستان کے ساتھ کسی وفاداری کا ثبوت دیتے تو شاید خود کو انصار ِ مدینہ کے جانشین سمجھنے والے پاکستانی مزید بھی اس بوجھ کو اٹھانے کو تیار ہوتے۔ جن مسائل نے اِن کے آنے سے جنم لیا اِن کو تو برداشت کر لیا گیا لیکن جن مسائل کو اِن لوگوں نے جان بوجھ کر خود یا اپنی حکومتوں کی ایما پر جنم دیا وہ یقینا ََ نا قابلِ برداشت ہیں۔ پاکستان میں ہونے والی انسانیت سوز دہشت گردی کے بے شمار واقعات میں یہ لوگ ملوث رہے ہیں اور یہ بات پایہء ثبوت کوپہنچی ہے کہ دہشت گردی کی منصوبہ بندی میں یہ لوگ شامل رہے ہیں۔حکومتِ پاکستان نے کئی کئی بار اِن مہاجرین کے قیام کی مدت میں توسیع کی ہے اور اب ایک بار پھر تیس جون کو اِن کے قیام کی مدت ختم ہو رہی ہے جس کے لیے حکومت خیبر پختونخوان نے مزید توسیع نہ دینے کا فیصلہ کیاہے۔اپنے اِن مجبور مسلمان بھائیوں کو یوں حالات کے دھارے پر چھوڑدینا کوئی خوشگوار کام نہیں ہے لیکن اُس سے زیادہ ناخوشگوار وہ سب ہے جو اِن کے اندر موجود دشمن کے کا رندے سرانجام دیتے ہیں یعنی دہشت گردی۔اور اب افغانستان کو اپنے امن و امان کے مسائل کی ذمہ داری لیتے ہوئے اِن مہاجرین کو اپنے ملک واپس بلا لینا چاہیے۔پاکستان نے چار دہائیوں تک اِن کی تین نسلوں کا بوجھ اُٹھا لیا اور دکھ کی بات یہ کہ اِن کو اپنا نہ بنا سکاآج بھی اِن میں سے کئی ایک شکوہ کرتے ہیں کہ وہ اور اِن کے بچے پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں تو اِن کو افغانستان کیوں بھیجا جا رہا ہے یعنی ایک ایسے ملک جو انہوں نے کبھی دیکھا ہی نہیں لیکن وہ صرف پاکستان میں پیدا ہونے کی بات کرتے ہیں اس کو اپنا سمجھتے نہیں اور جب بات دونوں ملکوں کی اکٹھی آجائے تو یہ پاکستان کے مخالف بن جاتے ہیں۔کئی تو اِن میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم پٹھانوں ہی کی زمین پر بیٹھے ہوئے ہیں اِن ہی میں سے ہزاروں منظور پشتین کے ہمنوا بن کرلر اور بر”ایک افغان“ کا نعرہ لگا کر کھلم کھلا پاکستان دشمنی کرتے ہیں پھر اِن کو کیسے مہمان بنا کر رکھا جائے۔ یہ سب میں اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات کی بنا پر کہہ رہی ہوں اور اِن کی چشم دید گواہ ہوں اور بات یہ ہے کہ اسی ”لر اور بر“ کے نعرے کو ہی لے کر افغانستان نے کئی بار پختونستان کا مردہ تراشا بھی اور اسے زندہ کرنے کی بھی کوشش کی تو ایسے غیر ملکیوں کو ملک میں کسی بھی صورت کیسے چھوڑا جا سکتا ہے اوراگر انہی کے نعرے کو لیا جائے تو پاکستان میں پختونوں کی تعداد افغانستان سے زیادہ ہے لہٰذا انہی کے علاقوں کا پاکستان میں شامل ہو جانا زیادہ بنتا ہے لیکن پاکستان نے نہ کبھی یہ بات کی نہ اُسے اس کی ضرورت ہے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ افغان افغانستان میں رہیں اور پاکستانی پاکستان میں کیونکہ یہ دوالگ قومیں اور ملک ہیں یہ اور بات ہے کہ جب بھی افغانستان کو ضرورت پڑی پاکستان نے اُس کی مدد کی لیکن ایسا اپنے ملک کے امن کی قیمت پر گز نہیں ہو نا چاہیے اور اب ایساہی محسوس ہو رہا ہے بلکہ ثابت ہو رہا ہے کہ ان مہاجرین میں ہی ایک کثیر تعداد پاکستان کے امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے لہٰذا پاکستان اپنی کمزور معیشت کے ساتھ انکا مزید بوجھ اٹھانے کا پابند نہیں۔ اب یہ ممکن نہیں کہ اپنی آبادی کے ساتھ ساتھ ان کی ضروریات کا بھی بندوبست کرے اور جواباََ یہ لوگ اس کے امن کو تباہ کریں اور پاکستان کی سرزمین پر کھڑے ہو کر اس کے خلاف بولیں اور سازش کریں اور اس کے دشمن کی مدح سرائی۔ ایثار اور قربانی کا جذبہ دونوں طرف سے ہو تو ہی کامیاب رہتا ہے ورنہ موجودہ صورت حال میں نفرت اور بدامنی ہی پیدا ہوتی ہے اور ان جذبوں کے شدید ہونے سے پہلے ہی اقوام متحدہ اور افغانستان کو ان چالیس سال کے مہاجرین کی افغانستان میں آبادکا ری کا بندوبست کر لینا چاہیے۔