امن مذاکرات میں تحریک طالبان کی ذمہ داریاں
امن مذاکرات میں تحریک طالبان کی ذمہ داریاں
حکومت پاکستان اور تحریک طالبان کے درمیان امن مذاکرات جاری و ساری ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ سیکورٹی اہلکاروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ تحریک طالبان نے حالیہ ہونے والے تمام کاروائیوں سے مکمل لا تعلقی کا اظہار کیا ہے۔ تحریک طالبان کے مطابق ان کا ملک میں ہونے والے دھماکوں اور دہشت گردوں کی کا روائیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تحریک طالبان کے ترجمان نے تو یہاں تک کہا ہے کہ ان کے لئے امن مذاکرات کے لیے حامی بھرنے کے بعد دہشت گردی کی کاروائیاںکرنا غیر شریعی ہیں اور وعدہ خلافی ہے۔ امن مذاکرات میں پیش رفت کے بعد حکومت پاکستان بھی امن کی خواہاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حالیہ بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں ملوث افراد کے خلاف کسی بھی قسم کی فوجی کاروائی کرنے میں شش و پنج میں مبتلہ ہے۔پاکستانی عوام، حکومت ،ارباب اختیار اور فوج سب کی ہی یہی خواہش ہے کہ ملک میں امن قائم ہو جائے لیکن ہر روز ہونے والے بم دھماکوں کی وجہ سے امن مذاکرات پھر نہ کہیں تعطل کا شکار ہو جائیں۔ حال ہی میں اسلام آباد میں ہونے والے بم دھماکوں کی ذمہ داری تحریک طالبان کے نئے گروپ احرارالہند نے قبول کی ہے ۔ مختلف ذرائع کے مطابق احرارالہند حال ہی میں ایک ایسے گروپ کے طور پر سامنے آیا ہے جو امن مذاکرات کے خلاف ہیں۔ ذرائع کے مطابق احرارالہند ان لوگوں پر مشتمل ایک گروپ ہے جو امن مذاکرات کے مخالف ہیں اور اس گروپ نے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ وہ حکومت پاکستان اور تحریک طالبان کے درمیان ہونے والے کسی بھی قسم کے امن معاہدے کو نہیں مانتے بلکہ وہ ملک میں دہشت گردانہ کاروائیوں کو جاری رکھیں گے۔ ایک اندازے کے مطابق جنوبی وزیرستان میں تقریبا 43 دہشت گرد گروپ موجود ہیں یہ تمام گروپ تحریک طالبان کے زیر سایہ مختلف کاروائیوں میں ملوث ہیں حکومت وقت ان گروپوں میں سے جنوبی وزیرستان کے مولوی نذیر گروپ، شمالی وزیرستان کے حاجی گل بہادر گروپ سے مذاکرات کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ ولی الرحمن گروپ اور پنجابی طالبان گروپ کے ساتھ بھی امن مذاکرات میں مثبت پیش رفت ہے۔ احرارالہند اور اس طرح کے مزید دوسرے گروپ جو امن مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہیں اور امن مذاکرات نہیں چاہتےانہیں بھی امن مذاکرات میں شریک ہونا چاہئیے اور یہ تحریک طالبان کی ذمہ داری ہےکہ وہ اپنے زیر سایہ موجود تمام چھوٹے بڑے گروپ کو اعتماد میں لے کر امن مذاکرات کی جانب پیش رفت کرے۔ تحریک طالبان کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ امن مذاکرات کے باوجود ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث گروہوں کی نشاندہی کرے اور ان کو امن مذاکرات سبوتاژ کرنے سے روکیں۔ امن مذاکرات کے پیش نظر تحریک طالبان نے مکمل طور پر جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اس ضمن میں کوئی جنگ بندی نظر نہیں آتی۔ بلکہ ملک گیر دہشت گردی کی کاروائیاں جاری ہیں۔ معصوم نہتے لوگوں کو ظلم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔سیکورٹی اہلکاروں پر حملے کئے جا رہے ہیں۔ اور مکمل طورپر امن مذاکرات کو بے یقینی کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ تحریک طالبان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ امن مذاکرات کی کامیابی کا راز صرف اور صرف اس بات پر منحصر ہے جب تمام چھوٹے بڑے گروپ اس میں شامل ہوں۔ حکومت وقت اس ملک میں امن کے قیام کے لیے سنجیدہ ہے۔ایسی ہی سنجیدگی کی توقع تحریک طالبان اور اس کے ماتحت گروپوں سے بھی کی جارہی ہے۔تاکہ اس ملک سے سے دہشت گردی کا ناسور ختم کر کے اسے ترقی کی راہ پر گامزن کیا جائے۔ اور وہ دہشت گرد جو بے راہ روی کا شکار ہو کر اس ملک کے لئے تخریبی ہاتھ بن گئے تھے اِس ملک کی از سرِنو تعمیرکرسکیں۔