خواجگانِ حکومت کی بد فہمی
نغمہ حبیب
خواجہ آصف اسمبلی میں بول رہے تھے، مسلم لیگ (ن) کے عظیم ارکان ڈیسک بجا بجا کر داد دے رہے تھے اور ملک کے عوام حیرت سے کھلے منہ کے ساتھ سن رہے تھے کہ ان کے ملک کا وزیر دفاع اپنی فوج کے خلاف اس زور شور سے بول رہا ہے اور فوج کے بارے میں ایسے ایسے الفاظ استعمال کر رہا ہے کہ دشمن ملک کا وزیر دفاع بھی وہ الفاظ استعمال نہ کرے۔ خواجہ آصف اپنی فوج کی تمام قربانیوں کو بھلا کر اسے مجرم ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور 1948کے کیپٹن سرور شہید اپنے سینے پر نشان حیدر سجا ئے اپنی عزت افزائی پر نوحہ کنا ں تھے تو 1965کے میجر عزیز بھٹی، 1971کے میجر محمد اکرم، 1987کے کیپٹن محمد اقبال اور 1999کے کیپٹن کرنل شیر خان اپنے خون کی اس تضحیک پر ششد ر تھے۔ وہ سپاہی، افسراورجرنیل جو طالبان سے سیاسی حکومت کے حکم پر لڑتے رہے، مرتے رہے،کٹتے رہے، جواں سال مییتیں گھروں میں جاتی رہیں مائیں بہنیں بین کرتی رہیں اور باپ پنے بڑھاپے کے سہارے کو مٹی کے حوالے کرتے رہے اور یہ سلسلہ تا حال چل رہا ہے لیکن خواجگانِ نون لیگ کے اپنے بیٹے اللہ سلامت رکھے، سلامت ہیں۔ دوسرے کا دکھ تب محسوس ہوتا ہے جب خود دل دکھی ہو خود جوان اولاد کی موت کا تو سوچ کر بھی رونگٹے کھڑے ہوں تو یہ کہاں کا انصاف ہیں کہ دوسروں کی شہادت کا مذاق اُڑایا جائے اور شہیدوں کی تذلیل کی جائے۔ فوج ریاست کا ایک معزز اور محترم ادارہ ہے اورملکی سرحدوں کی حفاظت کی ضامن ہے اور یہی قومی بقاء کی جنگ لڑ تی ہے، کفر واسلام کے معرکے میں جان دینے والے کو ہی شہادت کا سب سے اولیٰ درجہ عطا کیا گیا ہے اور اُسے جنت کی بشارت سنائی گئی ہے۔ پھر 1948،1965اور دوسری جنگوں پر وزیر دفاع کا سر شرم سے جھک کیسے جاتا ہے۔وزیر دفاع کا کہنا یہ ہے کہ یہ تقریر 2006 کی ہے تو سوال یہ ہے کہ ان خیالات کے حامل شخص کو وزارتِ دفاع سونپی کیسے گئی کیا میاں صاحب نے سوچا بھی یا صرف اپنے ایک سینئر ساتھی کو ایک اہم وزارت دے کر انہیں نوازا گیاجبکہ خواجہ صاحب کا کہنا یہ بھی ہے کہ تقریر تو پرانی ہے لیکن میں آج بھی اپنے ان کہے ہوئے الفاظ پر قائم ہوں یعنی فوج کے لیے ان کے دل میں آج بھی نفرت اور غصہ موجود ہے جس کا اظہار انہوں نے ایک فوجی آمر کی اسمبلی میں اسمبلی ممبر کی حیثیت سے کھڑے ہو کر کیا تھا۔ سیا ست میں فوج کا کردار اگر چہ پسندیدہ نہیں لیکن فوج کے وقار پر سیاسی حملہ بھی کوئی مثبت رویہ نہیں بلکہ انتہائی منفی رویہ ہے کیونکہ یہ کسی بھی قسم کی نا خوشگوار صورت حال کو جنم دے سکتا ہے۔ ایسا نہیں کہ فوج تنقید سے بالا تر ہے لیکن جس طرح پار لیمیٹیرین اپنی بے عزتی برداشت نہیں کر سکتے اُسی طرح سر ہتھیلی پر رکھے ہوئے وطن کی خاطر جان قربان کرنے کو حاضر کیے ہوئے فوجی کے لیے بھی اپنی بے عزتی برداشت کرنا مشکل ہے اور ظاہر ہے کہ اس حکومتی سطح پر ہونے والی بے عزتی کا جواب اگر ادارے کا سربراہ نہیں دے گا تو پورا ادارہ اس سے جواب مانگے گا بالکل اُ سی طرح جیسے عدالت کے خلاف ایک لفظ بولنے پر توہین عدالت کا ملزم چیف جسٹس کی زد میں آئے، پارلیمنٹ کی ریشہ دوانیوں، اراکین کی عیاشیوں پرتنقیدکے خلاف تو خواجے ببانگ دہل بولیں بلکہ کسی مزدور یونین، ٹرانسپورٹرز کی تنظیمیں،خواجہ سعد رفیق کی ریلوے کے ملازمین کی تنظیم یا صحافیوں کا کوئی گروپ تو یہ حق رکھے کہ اپنے خلاف کسی کاروائی پرہڑتال کرے لیکن ملک کا یہ محافظ جس نے اپنے بھائی کے نشان حیدر پر فخر کے ساتھ اس مشن کو اختیار کیا اپنے ادارے کی سبکی پر چپ رہے حیرت ہے۔ خواجہ آصف کہہ رہے تھے کہ دفاعی بجٹ کا مطالبہ بھی نہ کیا جائے تو کیا بھارت ہماری سرحدوں سے کہیں دور چلا گیا ہے یاخواجہ صاحب سمجھتے ہیں کہ وہ بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دے کر ہندو ذہنیت کو بدل دیں گے اور یا وہ پاکستان کو ان کے رحم وکرم پر چھوڑنے کے بدلے وہا ں کی منڈی استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ملک میں کچھ جنرل تو ہوں گے جو عیاشی کر رہے ہوں لیکن پارلیمنٹ لاجز کے بارے میں بھی عوام بے خبر نہیں اور نہ ہی ملک کی امیر ترین شخصیات میں کسی فوجی کا نام شامل ہے اس فہرست میں جو لوگ موجود ہیں وہ خواجہ آصف اور خواجہ سعد کے ہی ہم پیشہ ہیں۔ ایک مشہور فوج دشمن اینکر ”بلڈی سویلین“کے لفظ کو بار بار بول کر بلکہ غیر ضروری حد تک بول کر فوج کے خلاف عوام کو بھڑنے کی کوشش میں مصروف تھے اور اپنے متکبرانہ مزاج کے مطابق یہ سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کر رہے تھے کہ کسی بھی ادارے کی طرح یہ ادارہ بھی احترام کا مستحق ہے۔اگر یہ نکتہ سمجھ لیا جائے کہ ہر ادارہ اسی طرح محترم ہے جتنا پارلیمنٹ اور ہر جان اتنی ہی قیمتی ہے جتنی کسی صحافی کی تو اداروں کے درمیان خلیج پیداہی نہ ہو۔لیکن ہوتا یہ ہے کہ جب جب، جس جس کا مفاد جہا ں جہاں وابستہ ہو وہاں وہاں، تب تب، ویسے ویسے خیالات یا ان کا اظہار بدل جاتا ہے۔ خواجہ آصف کو یقیناوہ وقت یاد ہو گا جب ان کے والد محترم ایک فوجی آمر کی مجلس شوریٰ کے چیئرمین کی کرسی پر بیٹھتے تھے اور ان کے رہبر ورہنما جناب نواز شریف مارشل لاء کی چھتری سر پر تانے تخت لاہور پر جلوہ افروز تھے۔ سیاستدانوں کو وہ وقت بھی یاد ہو گا جب فوجی جرنیل کو وہ اعتماد کا ووٹ دیتے تھے اور وہ وقت بھی جب اُسے وردی میں دس بار منتخب کرنے کاوعدہ کیا جاتا تھا۔ اگر ایسا کوئی ثبوت موجود ہے کہ کسی فوجی جرنیل نے یا چلیے کسی سپاہی نے ہی کسی مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر کو پارلیمنٹ میں ووٹ دے کر کوئی اختیار سونپا ہو تو اسے پیش کر دیا جائے۔ ہمارے ملک کے سیاو سفید کے مالکان اگر یہ سوچ لیں تو بہتر ہو گاکہ کس وقت کیا کہنا ہے اور کوئی اپنی بے عزتی کس حد تک برداشت کرلے گا۔ ظفر علی شاہ صاحب ایک پروگرام میں ارشاد فرما رہے تھے کہ آرمی چیف نے جواب کیسے اور کیونکر دیا وہ یہ حق نہیں رکھتے کہ جواب دیں حالانکہ سچ یہ ہے کہ جانور کو بھی چھیڑا جائے تو وہ بپھر اُ ٹھتا ہے یہاں تو خاصا نپا تلااور معقول جواب دیا گیا ہے۔
قوم اس وقت بد امنی، بے روزگاری، افراط زر اور بے شمار دیگر مسائل سے دو چار ہے لیکن خواجگانِ حکومت تیغ تفنگ لے کر اپنی فوج کے خلاف بر سر پیکار۔ فوج کے افسروں کو عدالت میں ذلیل کر کے تو فتح کے پرچم لہرائے جاتے ہیں لیکن کیا وزیر اعظم صاحب اپنے ان شیروں کو سمجھانے اور ماضی کی کچھ یاد دلانے کی کوشش کریں گے یا سیاستدان پھر اپنی کج فہمی سے ملک کو کسی نا خوشگوار صورت حال سے دو چار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اللہ کر ے جنرل راحیل ان کے اس دام میں آنے سے بچ جائیں اور ”بے وقوف فوجی“”عقلمند سیاستدان“ کو یہ سبق پڑھا سکیں کہ قومی سلامتی اور بقاء کے لیے وہ اندرونی محاذ کوبھی پُر امن رکھ سکتے ہیں۔ ہاں ایک تجویز عوام دے رہے ہیں کہ خواجہ آصف کاتبادلہ اگر بھارت کے وزیر دفاع کے طور پر نئی دلی کر دیا جائے تو اُنکی کارکردگی خاصی بہتر رہے گی۔