پاکستان کے خلاف۔ عالمی طاقت کی آڑ میں سامراجیت کا آغاز
Posted date: April 16, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
سوچیں غور فرمائیں وہ حضرات جو پاکستان کو درپیش ممکنہ خطرات کے پیش آئندہ حالا ت وواقعات پر سنجیدگی سے سوچنا چاہتے ہیں نہ یہ ماننے کے لئے تیار ہو تے ہیں کہ دنیا کے کچھ حصوں میں پاکستا ن کو غیر ذمہ دار ملک ثابت کرنے کی نیت سے سفارتی کاری کی زبان میں(SNUB) پالیسی اختیار کرنے کی تیاریاں ابتدائی مراحل سے بہت جلدعملی طور پرجلوہ گر ہونے ہی والی ہیں پاکستان کو نشانہ بناکرایسی مذموم خفیہ سرگرمیوں کا آغاز ہونا پاکستان کے لئے کوئی نئی بات نہیں‘ 1965 اور 1971 میں کھلی بے وفائی اور دھوکہ دہی کے جس مقام پر پیٹھ کیئے کل امریکا کھڑا تھا آج بھی بالکل ویسی ہی صورتحال ہے بھارت کے مقابلے پر امریکا نے کبھی پاکستان کو برابری کی سطح پر دیکھنے کی کوشش نہیں کی‘ہمیشہ وائٹ ہاؤس اور پینٹاگان نے پاکستان کے ساتھ دوغلے پن اور دہرے معیار کا برتاؤ کیا جو آج تک جاری ہے 1976 یہ وہ اہم سال تھا اہلِ پاکستان کے لئے ‘ جب فرانس سے ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ پاکستان آنے والا تھا اچانک ہنری کسینجر پاکستان آگیا اُس وقت کی پاکستانی قیادت مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کو مختلف ’ترغیبات ‘ کا جھانسہ دینے کی پُرفریب باتیں کیں جنہیں مسٹر بھٹو نے یکسر رد کردیا پاکستان کے انکار پر ناراض ہنری کیسنجر فرانس جا پہنچا فرانسسی زعماء کو پٹی پڑھا کر یہ اہم ’سودا‘ منسوخ کرادیا، امریکا اور مغرب شروع دن سے پاکستان سے خوف زدہ رہے بھارت کی سرپرستی کرنے میں لگے رہے اور پاکستان کی قومی سلامتی کو زک پہنچانے اُسے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کی کوششیں کبھی ترک نہیں کی گئیں اور کتنا کچھ لکھا جائے؟قوم کے حافظے میں کل کے یہ المیئے تازہ ہیں، 1979 میں جب روسی اشتراکی عسکری در اندازی افغانستان میں ہوئی چونکہ افغانستان کی طویل اور گنجلک دشوار گزار سرحد پاکستان کے ساتھ ملی ہوئی ہے اِس موقع پر پاکستان کو کچھ بھی کرکے روسی افواج کے افغانستان میں جارحانہ عزائم کو مزید آگے بڑھنے سے روکنا تھا تو یوں پاکستان ’فرنٹ لائن اسٹیٹ ‘ بنا پاکستان کے پاس وہ وسائل نہیں تھے کہ یہ جنگ وہ اکیلا لڑتا یقیناًیہ صحیح بات ہے امریکا کی اِس ’پراکسی وار ‘ کو پاکستان نے سینہ سپر ہوکر اِس طرح لڑا جس کی گواہی تاریخ نے دی، پاکستان کے خفیہ ادارہ آئی ایس آئی کو اِس جنگ کا کریڈٹ جاتا ہے یہاں پر یہ حقائق فراموش نہ کیئے جائیں کہ ملکی قومی سلامتی کے اِس اہم ادارے نے ’یک رخی ‘ بنیاد پر روس کے قدم کابل سے باہر نہیں نکلنے دئیے بلکہ مستقبل کے پاکستان کی سلامتی کو آئی ایس آئی نے ہر عہد میں اپنے پیشِ نگاہ میں رکھا امریکیوں کو اُتنا ہی کچھ بتایا جتنا ’بتانا ‘ ضروری سمجھا ؟1979 سے1998 کا عرصہ پاکستان کے لئے اِس لحاظ بہت اہم اور حساس تھا، ایک طرف روس اور دوسری طرف امریکا ’جنگی امداد ‘ کی آڑ میں پاکستان میں جاری’ نیوکلیئر اتھارٹی ‘تک اپنی مذموم پہنچ کو ہر ممکن یقینی بنانے کی کوشش وجستجو بھی لگا ہوا تھا، اُس کی اِن مذموم خفیہ کوششوں پر بھی آئی ایس آئی کی بڑی گہری نظریں گڑی ہوئی تھیں، اور جب جونہی امریکی مخالفت کے باوجود ’جنیوا معاہدہ ‘ ہوا روسی فوجیں افغانستان سے چلی گئیں، مغربی ممالک اور امریکا بھی ہاتھ ملتا ہوا اِس علاقہ کو ایک بوجھ سمجھ کر اپنا بوریا بستر سمیٹ کر پاکستان کو شدید قسم کی سماجی واقتصادی مصائب کا مقابلہ کرنے کے لئے ’تنہا ‘ چھوڑ گیاگزشتہ تین دہائیاں پاکستانی قوم کے لئے بڑی سخت آزمائش وابتلا کا امتحان ثابت ہوئی ہیں اِسے ہم وقت کا جبر کہیں یا تاریخ کا ستم ؟ سماجی ومعاشرتی سے زیادہ سیاسی اعتبار سے یہ دور پاکستانیوں پر مخلص ‘ دیانتدار ‘ اہل ‘ جراّت مند ‘ دوٹوک فیصلہ کرنے کی اہلیت رکھنے والی قیادت کے خلاء کا بدترین دور تھا جسے بدقسمتی ہمارے نیم خواندہ ‘ جزوی علم رکھنے والے مذہبی خیالا ت کے حامل سیاسی و مذہبی جماعتوں نے ’پُر‘ کرنے کی کوشش میں ملکی سیاست کو کسی حد تک یرغمال بنا لیا ہے یہاں کسی ایک کی نشاندہی ضروری نہیں مگر ایسا ہوا ضرور!مختصرترین ادوار کے لئے چار بار عام انتخابات ہوئے چار حکومتیں اقتدار میں آئیں چاروں نے اپنی آئینی مدت پوری نہیں کی کہ ایک بار پھر فوج درمیان میں کود پڑی الیکشن پراسس رک گیا ملک کے نوبرس ضائع ہوئے فروری2008 کے عام انتخابات کے بعد ایک آئینی حکومت نے اپنی ٹرم پوری کی پانچ سال کے بعد 2013 میں پھر الیکشن ہوئے جس کے نتیجے میں آج ملک میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ایوانِ اقتدار میں ہے گزشتہ چھ سات برسوں سے ملکی افواج نے یہ ادراک کرلیا ہے کہ سیاست کرنا سیاست دانوں کا کام اور آئینِ پاکستان میں تفویض کردہ قومی سلامتی کی ذمہ دار ملکی افواج پر عائد ہوتی ہے آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا اپنے اپنے آئینی دائروں میں اپنے پیشہ ورانہ فرائض اداکرنے کے پابند ٹھہرے ‘اِتنی طویل تمہید کا مقصد صرف اتنا سمجھئے کہ قومی سیاسی قیادت اپنی افواج پر مکمل بھروسہ رکھیں، سیاست دان آپس کے سیاسی جھگڑوں کی مخاصمت میں کسی قومی ادارے کو نہ گھسیٹیں چونکہ پاکستان کے عالمی دشمن اس ایک نکتہ پر متحد ویکجا ہو ہیں کہ پاکستانی فوج میں پیدا ہونے والی نئی پیشہ ورانہ سوچ کی ابھرتی ہوئی طاقت کی اہلیت کا پتہ چلا یا جائے ’اسٹرٹیجک پلاننگ ڈیویژن‘SPD پر پاکستان کے ازلی دشمنوں نے اپنے ٹارگٹ کو ’ایچیو‘ کرنے کے لئے اب ایران جیسے مسلم پڑوسی ملک کو بھی اپنے ساتھ شامل کرلیا ’اصلاح پسندوں ‘ کے نام پر ایران میں برسر اقتدار آنے والی حکومت نے ایرانی آئین میں واضح کردہ ’ولایتِ فقہیہ ‘ کو کمزور کرنے جیسے اقدامات پر عمل در آمد شروع کردیا اب کہاں گیا ’یوم القدس ‘ جو انقلابِ ایران کے بانی نائب امام آیت اللہ خمینی نے شروع کیا تھا آزادی ِٗ فلسطین کی ایرانی تحریک میں اب وہ جان باقی نہیں دکھائی دیتی موجودہ ایرانی حکمران امریکا اور برطانیہ کے بہت زیادہ قریب ہوتے جارہے ہیں نیٹو کی سپلائی پاکستان سے جب بندہوئی تو ایران کی ’چہابہاربندرگاہ‘ سے بھارتی سرپرستی میں جاری رہی پاکستانی حکمرانوں کو اپنی آنکھیں کھول کر اپنی سیاسی بصیرت کے اجتماعی فیصلوں کی روشنی میں صرف ملکی مفاد کی خاطر دوٹوک فیصلہ کن قدم اُٹھانے سے گریز نہیں کرنا چاہیئے حکمرانوں کو اپنے کان کھولنے ہوں گے چونکہ افغانستانی‘ بھارتی ‘ اسرائیلی اور ایرانی خفیہ تھنک ٹینکس ادارے امریکی سی آئی اے کی سرپرستی میں یکجا ہوکر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو عالمی امن کے لئے ’خطرناک ‘ثابت کرنے کی ایک جنونی عالمگیر معاندانہ مہم شروع کر چکے ہیں کفِ افسوس کے گہرے احساسات کو یکجا کرکے عالمی میڈیا میں گردش کرتی ہوئی یہ خبر پاکستانی حکمرانوں کے لئے ’تازیانہ ‘ ہے کہ ماہ مارچ میں نئی دہلی میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے ہیڈ کوارٹر میں افغان خفیہ ایجنسی ’خاد‘ ایرانی خفیہ ایجنسی ’ویواک ‘اور اسرائیلی خفیہ ایجنسی ’ موساد ‘ کے اعلیٰ حکام کا خفیہ اجلاس ہوا ، جس میں پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کے لئے مذموم منصوبہ تیار کیا گیا ہے سفارتی ذرائع کا یہ دعویٰ بے بنیاد نہیں کہ ’سی آئی اے ‘ کی بھی اِن ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کو مکمل حمایت حاصل ہے منصوبہ کے تحت پاکستان کو دنیا میں دہشت گردی کا مرکز قرار دے کر عالمی میڈیا میں بھرپور متحرک مہم چلائی جانے کی تیاریاں ہوچکی ہیں ایران ‘ بھارت اور افغانستان مسلسل اپنے ہاں ہونے والے واقعات کا ذمہ دار اب پاکستان کو قراردیں گے تاکہ اِن ممالک کے عوام میں پاکستان مخالفت کے جذبات کو ہوا دی جاسکے ۔