طالبان گروہوں کے درمیان تصادم اور جھڑپیں
طالبان گروہوں کے درمیان تصادم اور جھڑپیں
وزیرستان کے علاقےشکتوئی میں حکیم اللہ محسود اور خان سید سجنا کے حامیوں میں جھڑپ کے دوران 34 افراد جاں بحق ہو گئے۔ شکتوئی کے علاقے میں ایک کار کو راکٹ سے نشانہ بنایا گیا جس میں حکیم ا للہ محسود کے کمانڈرکشیدمحسود سمیت 5 افراد مارے گئے۔ مقامی ذرائع کے مطابق خاں سید سجنا گروہ سے تعلق رکھنے والے افراد طالبان کمانڈر کشید محسود اور اس کے ساتھیوں پر حملہ آور ہوئے جس کے نتیجے میں جنوبی وزیرستان کے علاقے میں امن و امان کی صورت حال بہت کشیدہ ہے۔ کشید محسود کا تعلق شہریار گروپ سے بتایا جاتا ہے جو حکیم اللہ محسود کا ڈرائیور اور قریبی ساتھیوں میں سے ایک تھا۔ حکیم اللہ محسود کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد شہریار محسود نے کالعدم تنظیم تحریک طالبان کا نیا سربراہ ہونے کا اعلان کر دیا تھا ۔ چونکہ جنوبی وزیرستان کے علاقے میں محسود قبائل سے تعلق رکھنے والے والے افراد کا اثرورسوخ ہے اس لئے اس وقت کے قائم مقام سربراہ خان سید سجنا جوکہ محسود قبیلے سے تعلق رکھتا تھا اُسے جنوبی وزیرستان میں محسود قبائیلیوں کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ یہی وجہ ہےکہ ملّافضل ا للہ کوجب تحریک طالبان کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا تو تمام محسود قبائلی افراد اِس فیصلے پر نالاں نظر آئےاور اِس طرح اقتدار کی جنگ میں تحریک طالبان دو دھڑوں میں بٹ گئی۔ چونکہ تحریک طالبان کی بھاگ دوڑہمیشہ سے ہی محسود قبائل سے تعلق رکھنے والےافراد کے ہاتھوں میں رہی ہے یہی وجہ ہے کہ محسود کسی ایسےشخص کو اقتدار پر براجمان ہوتے نہیں دیکھ سکتے تھےجس کا تعلق محسود قبیلے سے نہ ہو۔ اِسی لئے انھوں نے نہ تحریک طالبان کے نئےسرغنہ ملافضل اللہ کی بھی مخالفت کی۔ آہستہ آہستہ یہ کشیدگی بڑھتی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتےتحریک طالبان مختلف دھڑوں میں بٹتی چلی گئی۔
حکومت کی طرف سے جب امن مذاکرات کی پیش کش کی گئی تب بھی تحریک طالبان سے تعلق رکھنے والے مختلف گروپس شدید تذبذب کا شکار نظر آئے کچھ گروہ اِن مذاکرات کے حق میں تھے جبکہ کچھ اِن کے مخالف کشیدمحسود کا تعلق بھی امن مذاکرات کے مخالفین میں سے تھا اِس سے قبل عصمت اللہ شاہین جو کہ تنظیم کا ایک اہم سربراہ تھا اُسے اس کے ساتھیوں سمیت ماردیاگیاتھا جس کی وجہ بظاہر یہ نظر آتی تھی کہ عصمت اللہ شاہین اُس وقت ان مذاکرات کا شدید حامی تھا۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق تحریکِ طالبان حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں کئی دھڑوں میں بٹ چکی تھی جو کہ تحریک طالبان کے مرکزی رہنماؤں اور شوریٰ کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ حال ہی میں اسلام آبادفروٹ منڈی میں ہونے والے المناک بم دھماکے کی منصوبہ بندی بھی انہی عناصر نے کی تھی جنہوں نے اسلام آباد کچہری پر حملہ کی منصوبہ بندی کی تھی۔ تحریک طالبان نے فوری طور پر کچہری حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا اور اِس کے ہی ایک ذیلی گروہ احرارالہند نے یہ ذمہ داری قبول کرلی تھی۔ تفتیش کے مطابق اسلام آباد فروٹ منڈی سانحے کی کاروائی میں تحریک طالبان کا مہمند ایجنسی کا گروہ ملوث ہے جس کا سربراہ خالد خراسانی ہے جس نے ایف سی کے 23 اہلکاروں کو بڑی بے دردی سے شہید کر دیا تھا۔ خالد خراسانی نے اپنے ایک بیان میں جنگ بندی میں توسیع نہ کرنے اور ملک میں جلد حملے شروع کرنے کا عندیہ دے دیا تھا۔ اِس سے قبل تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اسلام آباد فروٹ منڈی کے دھماکے کے بعد یہ بیان جاری کیا تھا کہ عوامی مفادات اور بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنانا شرعاً حرام ہے اور تحریک طالبان کے نزدیک قطعاً جائز نہیں ہے۔ تحریک طالبان کی طرف سے ایسا بیان مضحکہ خیز لگتا ہے ۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ طالبان شوریٰ کے ایک سینئیر رکن اعظم طارق نے یہ بیان جاری کر دیا ہے کہ شاہداللہ شاہد اور خالد خراسانی کے بیانات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ وہ طالبان شوریٰ سے منظور شدہ نہیں ہیں ۔ ان بیانات میں تضاد اِس فرق کو واضح کرنےکے لئے کافی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک طالبان شدید اندرونی انتشار کا شکار ہو چکی ہے۔
حال ہی میں جنوبی وزیرستان کے امیر خان سید عرف خالد نے ایک ا علامیہ جاری کیا ہے جس میں اُس نے چوری، قتل، اغواء برائے تاوان، ڈاکہ زنی اور لوٹ مار جیسے افعال کی شدید مذمّت کی ہے۔ اور عوام کے جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی یقین دہانی بھی کروائی ہے جبکہ دوسری طرف وانا سب ڈویژن کی شوریٰ عالیہ نے یہ اعلامیہ جاری کیا ہے کہ کسی بھی قسم کی تخریب کاری اور خاص طور پر بم دھماکوں میں ملوث افراد کے خلاف سخت کار وائی کی جائے گی۔ جبکہ اِس سے قبل انصارالمجاہدین نے لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے حکومتِ وقت کے خلاف پروپیگنڈاکر رہے ہیں تاکہ اپنی تعداد میں اضافہ کرکے وہ پھر سے ظلم کا بازار گرم کر سکیں۔
تحریک طالبان کے مختلف گروہوں کے اقوال اور افعال میں پایا جانے والا واضح فرق اِس بات کی دلیل ہے کہ اب تحریک طالبان ایک کمزور تنظیم بن چکی ہے جس کے مختلف گروہ اپنی مرضی کرتے ہوئے بم دھماکوں جیسے قبیح افعال سر انجام دے رہے ہیں تاکہ ملک میں خوف و حراس کی فضا قائم رکھی جا سکے اور امن کے قیام کے خواب کو چکنا چور کیا جا سکےاور اس بات کا بھی شدید خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر تمام گروہو ں کو اعتماد میں لئے بغیر امن مذاکرات حتمی نتیجے پر پہنچ بھی گئے اور کامیابی سے ہمکنار ہو بھی گئے تب بھی ملک میں امن وامان کا قیام قابلِ تشویش ہے۔کیونکہ تحریک طالبان مختلف دھڑوں میں بٹ چکی ہے اور انتہائی کمزورہو چکی ہے۔کچھ گروہ کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان جبکہ کچھ کی جانب سے بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرنا اِس بات کابھی واضح ثبوت ہے کہ تحریک طالبان کے مرکزی رہنماؤں اور شوریٰ اِس تنظیم کو منظم رکھنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ طالبان شوریٰ کی یہ ذمّہ داری ہے کہ وہ امن مذاکرات کے مخالف گروہوں کے تمام افراد کے خدشات اور امن مذاکرات کی مخالفت کرنے کی وجوہات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اِن گروہوں کو دہشت گردانہ کاروائیوں سے باز رہنے کی تلقین کریں۔