Posted date: April 28, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
گز شتہ روز رات گئے 26 اپریل کو راقم نے جب ’تازہ ترین ‘ حالات جاننے کے لئے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو ’کلک ‘ کیا تو یہ ’شہ سرخی ‘ سامنے تھی’آئی ایس آئی کے اندر آئی ایس آئی کو ذمہ دار سمجھتا ہوں‘قاتلانہ حملے کے بعد ’موصوف صحافی ‘ کا کسی بھی چینل کے لئے براہ راست یہ پہلا انٹرویو تھا، پہلے آپ ذرا اِس انٹرویو کے من وعن مندرجات پڑھیں’قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے کے بعد کراچی میں زیرِ علاج پاکستان کے سینئر صحافی حامد میر نے کہا ہے کہ انھیں دوبارہ حملے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ وہ ملک چھوڑ دیں۔ ہسپتال سے برطانو ی نشریاتی ادارہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ’آئی ایس آئی میں موجود آئی ایس آئی‘ کو حملے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں‘ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت بیماری سے لڑائی میں مصروف ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ انھیں مختلف ذرائع سے تنبیہی پیغامات ملے ہیں‘ حامد میر نے کہا انھیں کہا جا رہا ہے کہ ’آپ کراچی سے چلے جائیں اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان سے چلے جائیں تو لگتا ہے لڑائی ابھی لمبی ہے ‘ اس سوال پر کہ انھیں یہ پیغامات کہاں سے ملے ہیں؟ سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ ’لوگ دوست بن کر آتے ہیں اور دشمنوں کے پیغام دیتے ہیں کہتے ہیں یہ آپ کے لیے محفوظ نہیں ہے آپ پاکستان سے چلے جائیں، آپ پر دوبارہ حملہ ہو گا، کل ہی مجھ سے ملنے ایک بہت ہی ذمہ دار شخص آیا اس نے کہا آپ پر دوبارہ حملہ ہوگا ‘ حامد میر کا کہنا تھا کہ انھیں دھمکیاں دینے والے وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ سے ہی پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا حصہ رہے ہیں اور پیغامات کی نوعیت مختلف ہے ‘ انھوں نے کہا ان پر حملہ کرنے کے ذمہ دار وہ عناصر ہیں جو پاکستان میں صحافیوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھتے ہیں اور ان کی ٹیلی فون کالز چیک کرتے ہیں ’صرف ان لوگوں کو پتہ ہو سکتا ہے کہ کون سی فلائٹ سے کتنے بجے حامد میر کراچی پہنچے گا، کون سی گاڑی انھیں لینے جائے گی کب وہ باہر آئیں گے تو ان پر حملہ کرنا ہے انھوں نے یہ بھی ممکن بنایا کہ حملہ ایسی جگہ پر کیا جائے جہاں سی سی ٹی وی کام نہیں کرتا،‘ حامد میر نے کہا کہ ان کا ’اشارہ آئی آیس آئی میں موجود آئی ایس آئی پر ہے بقول مضروب صحافی اُنہوں نے ایک سوال کے جواب میں یہ بھی بتایا کہ ایک ’میجر‘ وجاہت نامی شخص نے ’موبائل سے کال کی ‘ اُس کانمبر اُنہوں نے انٹرویو کرنے والے کو دیدیا ہے ، اپنے انٹرویو میں مسٹر میر نے بتایاکہ ’سب کو پتہ ہے پھر سب سے تشویش ناک بات یہ ہے پاکستان میں جو ’طالبان‘ جہادی تنظیمیں ہیں جن پر حکوت نے پابندی عائد کر رکھی ہے وہ تنظیمیں اس وقت’آئی ایس آئی‘ کے حق میں مظاہرے کر رہی ہیں ‘ ان کا کہنا تھا ’کالعدم جہادی تنظیمیں جو حامد میر کے خلاف اور آئی ایس آئی کے حق میں مظاہرے کر رہی ہیں تو ان کا تعلق کس کے ساتھ ہے؟’مضروب صحافی کی اِس منطق کا جواب کیا ہوسکتا ہے کہ ’’ آئی ایس آئی کے اندر آئی ایس آئی ہے یا نہیں؟‘‘ اس سوال پر کہ اگر وہ انھیں ذمہ دار سمجھتے ہیں تو اس حملے کی ایف آئی آر میں آپ نے ان کا نام لیا؟ حامد میر نے کہا انھوں نے جو ایک بیان میڈیا کو اور پولیس کو دیدیا ہے پولیس کے جو صاحب میرے پاس آئے تھے انہوں نے ہمارے ساتھ ڈرامے بازی کرنے کی کوشش کی‘کاش یہاں وہ پولیس آفیسر کا نام بھی بتا دیتے تو کیا بہتر نہیں ہوتا تاکہ عدالتی کمیشن جس کا کام شروع ہونے ہی والا ہے اُس کے لئے ایک ’حقیقی واقعی شہادت ‘ ہسپتال میں زیر علاج حامد میر سے ملنے والے اِس پولیس آفیسر سے بھی کچھ اہم معلومات حاصل کی جاسکتی تھیں حامد میر کی ’مضروب یادوں ‘ میں اُس پولیس آفیسر کا نام ضرور محفوظ ہوگا اِس اہم انٹرویو کے دوران اُن سے جب ’ثبوت ‘ کے با رے میں سوال کیا گیا تو وہ بولے ’یہ بات اُس پولیس آفیسر سے بھی میں یہ کہا تھا یعنی‘ آپ ثبوت کیوں نہیں لینا چاہتے میرے پاس پورا بیک گراونڈ ہے تو انہوں نہ کہا نہیں، ہم صرف اس معنی تک محدود رہیں گے،‘ اس سے قبل ہوش میں آنے کے بعد اپنے پہلے نشریاتی بیان میں حامد میر نے کہا کہ موجودہ حالات میں انھیں سب سے زیادہ خطرہ پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی سے تھا جو لاپتہ افراد کے لواحقین کے لانگ مارچ پر ان کے پروگرام سے ناراض تھی‘آجکل پرنٹ میڈیا اور کئی میڈیا چینلز جن میں وہ ’خاص چینل ‘ شامل نہیں ہے جسے ’پیمرا ‘ نے تنبیہی نوٹس دیا ہوا ہے سبھی یہ لکھتے ‘ سناتے اور کتہ ہوئے نظرآرہے ہیں کہ پاکستانی سوسائٹی کو تقسیم درتقسیم کرنے میں ’اُس مخصوص میڈیا ہاؤس ‘ نے جلتی پر تیل چھرکنے کا جو خطرناک کھیل شروع کیا تھا اِس اہم کھیل کی شدت کے آخری فیصلہ کن راونڈ کا یہ ایک اور ’ترپ ‘ کا پتہ ہو،لوگ ’حامد میر قاتلانہ حملہ ‘ کا اُس مطلوبہ گہری و عمیق نظروں سے جائز نہیں لے رہے ‘جو وقت کا تقاضاہے بد قسمتی ہے نجانے ہمیں بار بار کیوں دلانا پڑتا ہے کہ مغربی اور امریکی طاقتور حلقے بھارتی کو علاقائی بالادستی کاتاج پہنانے کے لئے پاکستان کو اپنی راہ کا سب سے بڑا پتھر سمجھتے ہیں جلد بازی میں ایران کی نئی سیاسی قیادت نے اپنے جوہری معاملات پر اُن کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے کبھی یوں سمجھا جارہا تھا کہ پاکستان کو مغرب اور امریکی مستقبل قریب میں ایران کے خلاف استعمال کیا جانے کا احتمال تھا اب یکایک خلیجِ فارس میں صورتحال تبدیل ہوگئی تمام تر سازشی منصوبہ بندی کے ساتھ سارا زور پوری جارحانہ حکمتِ عملی کو بروئےِ کار لاکر پاکستان کی سپریم انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کو ملک کے اندر سے ’چند زرخرید میڈیا ‘ مینیجروں کے سامنے بھارتی ایجنسی ’را‘ کے اُسی آزمودہ بلکہ فرسودہ اور مسترد سازشی ’دھماکے ‘ کا شکار بنانے کی ناکام کوشش کی جو ’’ممبئی بم دھماکوں ‘‘ کے رچائے گئے ڈرامہ کے وقت دنیا نے دیکھی ‘ سنی اور میڈیا میں شائع ہونے والی اسٹوریوں میں پڑ ھی تھیں اُوپر بیان کردہ حامد میر کے دئیے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے انٹرویو میں حامد میر کے منہ سے یہ جملہ کہلوانا کتنی بڑی سازش کا پتہ دے رہا ہے ’کہ اُن پر کیئے گئے حملے میں آئی ایس آئی کے اندر موجود آئی ایس آئی نے کروایا ہے ‘ ایک سنگین فساد سے قوم ابھی نکلنے بھی نہیں پائی تھی کہ یہ ایک اور نیا فساد شروع کردایا گیا کیا مطلب ؟ کتنا بڑا اور پاکستانی قوم کی عقل کی نسوں کو یخ بستہ کردینے والا سنگین مذموم ’اشارہ ‘ دیا جارہا ہے، پاکستانی قوم مغرب اور امریکا کی اِن انتہائی بہیمانہ خفیہ اور جارحانہ سازشو ں پر شدید احتجاج کرتے ہوئے اپنی جمہوری قیادت پر اپنا دباؤ بڑھانے کی بھرپور آواز اُٹھاتے ہیں کہ تمام تر اہم حکومتی امور کو چند دنوں کے لئے موخر کردیا جائے اور ’حامد میر حملہ سازش ‘ پر فی الفور اپنی توجہ مرکوز کرئے آخر کیوں حامد میر نے پاکستانی نجی ٹی وی سیکٹر یا خود اپنے جیو ٹی وی سے بات کرنا ضرور سمجھا ؟’آئی ایس آئی کے اندر آئی ایس آئی ‘ کی سنگین اور ناقابلِ صرفِ نظر مفروضہ پیش کرکے وہ کس عالمی طاقت کے منفی مقاصد کو بجالانے کا ’ٹول ‘ بنے ہیں ؟کیا وہ اپنے آپ کو مستقبل کا تازہ ترین ’حسین حقانی ‘ بنانے کی کسی سازش کا شکار تو نہیں ہوگئے حکومتِ وقت کو ‘خاص طور پر سندھ کی صوبائی حکومت کا اوّلین فرض ہے کہ وہ کراچی کے اِس نجی ہسپتال میں حامد میر پر کڑی توجہ دیں عالمی شیطانی قوتیں اپنے مذموم مقاصد کے لئے کسی حد تک بھی جاسکتی ہیں اب بھی حامد میر کے پاس وقت ہے وہ واپس ہوجائیں اُنہیں معلوم رہنا چاہیئے کہ ’ہرقسم کے فساد کے خلاف سب سے بڑا روک صرف ایک ہے ’اشتعال انگیزی ‘ کے باوجود ’مشتعل ‘ نہ ہونا ۔