دہشت گردی کے واقعات اور امن مذاکرات کا مستقبل
دہشت گردی کے واقعات اور امن مذاکرات کا مستقبل
گزشتہ روز پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر میں دہشت گردوں کے حملے میں پولیس کے 4 اہلکار شہید ہو گئے جبکہ اِسی طرح چار سدہ کے علاقے تحصیل با زار میں پولیس وین کے قریب دھماکے میں ا یک پولیس اہلکار شہید ہوا۔ 40 دن کی جنگ بندی کے بعد تحریک طالبان کی قیادت نے گزشتہ دنوں جنگ بندی میں توسیع کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس جنگ بندی کے خاتمے پر حال ہی میں ہونے والے بم دھماکے اِس بات کا ثبوت ہیں کہ دہشت گرد ایک بار پھر دہشت گردانہ کاروائیوں پر اتر آئے ہیں۔
حالیہ امن مذاکرات سے پوری قوم کو بہت سی توقعات اور امیدیں تھیں کہ شاید اب یہ قوم کچھ سکھ کا سانس لے گی۔ لیکن بم دھماکوں کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو گیا ۔ دہشت گردوں کا مسلسل سیکورٹی اہلکاروں کو ٹارگٹ کرنے کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کو ایک کمزور سٹیٹ ظاہر کرنا اور یہ باور کروانا ہے کہ جس کے اہلکار اپنی حفاظت نہیں کر سکتے تو وہ اِس ملک کے باسیوں کی حفاظت کیا کریں گے۔ سیکورٹی اہلکاروں پر حملوں کا ایک مقصد لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانا ہے تاکہ اِس ملک کے با شندے اپنے آپ کو بالکل غیر محفوظ محسوس کرتے ہوئے اعلیٰ حکام اور حکومتی اداروں پر اپنا اعتماد کھو دیں۔
حال ہی میں تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اور ملک میں فوج کے خلاف کاروائیاں جاری رکھنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔اِس کے علاوہ تحریک طالبان مہمند ایجنسی کے امیر خالد خراسانی نے بھی ایک حالیہ بیان جاری کیا ہے، جس میں اُس نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کی وجوہات بتائی ہیں کہ تحریک طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات صرف اِس وجہ سے کر رہی تھی کہ وہ اپنے کارندوں کو منظم کر سکے اور ایک بار پھر مضبوط ہو کر اِس ملک میں فوج اور حکومت کے خلاف صف آرا ہو سکے۔ اِس ویڈیو پیغام سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ تحریک طالبان کے امن مذاکرات کے پیچھے کیا عوامل کار فرما تھے۔ یہاں تک کے جنگ بندی کے دوران ہونے والے بم دھماکوں اور اِس میں معصوم لوگوں کو نشانہ بنانے کو بھی تحریک طالبان کی طرف سخت مذمت کی گئی تھی اور کالعدم تنظیم کی جانب سے جو پیغام جاری ہوا تھا اُس میں بر ملا یہ کہا گیا تھا کہ اسلام میں معصوم لوگوں کو قتل کرنا حرام ہے۔ لیکن جنگ بندی ختم ہوتے ہی لوگوں کو بم دھماکوں سے نشانہ بنانا اور ان کا بہیمانہ قتل کس طرح جائز ہو سکتا ہے یہ بات عقل سے بالا تر ہے۔ دوسری طرف یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ تحریک طالبان کے بہت سے کارندے اور کمانڈر ایسے ہیں جو اِن مذاکرات کےحق میں نہیں تھے بلکہ وہ اِن مذاکرات کو سبو تاژ کرنے کےلیے اِن کے دوران بھی کئی بم دھماکے خود کش حملے اور ٹارگٹ کلنگ جیسی کاروائیاں کرتے رہے ہیں۔
ہر ذی ہوش یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ اگر حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کی فضا ساز گار بنانے، اِنکے قیدیوں کو رہا کرنے اور انہیں مزید سہولتیں فراہم کرنے کی یقین دہانی کے باوجود وہ معصوم اور بے گناہ لوگوں کو قتل کر رہے ہیں اور اب باقاعدہ اعلان کے تحت سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کا نشانہ بنا رہے ہیں تو اِس صورت حال میں امن مذاکرات کس طرح مثبت نتائج فراہم کر سکے گے۔جنگ بندی کے خاتمے کے بعد امن مذاکرات کا مستقبل تشویس ناک ہو گیا ہے۔ دونوں فریقین کو امن مذاکرات کے ضمن میں ہونے والی ملاقات کی پاسداری کرتے ہوئے ذمہ دار ہونے کا ثبوت دینا چاہیے۔ بہر حال امن مذاکرات میں ناکامی کا نقصان دونوں فریقین کو ہو گا۔ تحریک طالبان کو سنجیدگی دیکھاتے ہوئے جنگ بندی میں تو سیع کا اعلان کرتے ہوئےامن مذاکرات کی کامیابی کو یقینی بنانا چاہے۔ حکومتِ وقت اور متعلقہ اداروں کو بھی چاہیے کہ امن مذاکرات میں حائل مسائل کا جتنی جلد ی ہو سکے حل نکال کر امن مذاکرات کو آگے بڑھائیں تا کہ ملک سے دہشت گردی کا جلد خاتمہ ممکن ہو سکے۔