آزادی ٗ ِ صحافت کے عدالتی کیس پر۔ یورپی یونین کی سینہ کوبی
Posted date: May 23, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
پیمرا آرڈیننس کے رول8(2) میں اتھارٹی کی ایک تہائی فاضل ممبران کی موجودگی نے اپنے کورم کی تکمیل پر وزارت ِ دفاع کی درخواست پر پیمرا قوانین کے مطابق جو فیصلہ کیا اِس پر مختلف شکوک شبہات کی موشگافیوں میں الجھنیں پیدا کرنے والے کبھی بھی مطمئن نہیں ہونگے، حکومت نے آئین ِ پاکستان کی خلاف ورزی کے مرتکب جیو گروپ کو پیمرا قوانین پر عمل درآمد کرانے کے لئے یہ درخواست دی تھی یہ کیس ابھی’عدالتی اسٹیپس‘ کے مراحل میں ہے اب پیمرا نے اپنے فیصلے کو وزرات ِ قانون کے پاس بھیج دیا ہے مگر لگتا ہے کہ وزارت ِ قانون جان بوجھ کر اِسے ’صرف ِ نظر‘ کیئے رکھنے کی مبینہ پالیسی پر ہمیں گامزن دکھائی دیتا ہے بہر حال ’پیمر ا‘ نے اپنے ایک فیصلہ کے تحت وزارت ِ دفاع کی درخواست پر جیو گروپ کے تین ٹی وی چینلز کے لائسنس کو منسوخ کیا جس پر ملک بھر میں ملا جلا رد ِ عمل دیکھنے میں آرہا ہے’جیو گروپ کے نیوز پیپرز کی خبریں‘اُن کے نکتہ ٗ ِ نگاہ سے ترتیب دئیے تجزئیے اور تبصرے‘ ملک بھر کی صحافیوں کی مختلف یونینز کے عہدیداروں کے بیانات‘ اورکہیں پر اِس مذکورہ بالا تنازعہ میں جو ایک پہلو کی بجائے اب کئی دیگر نوع کے مذہبی منافرت پھیلانے جیسے پہلوؤں کے ساتھ عوامی بحث ومباحثہ کا حصہ بن چکے ہیں اُن تنازعات کا تذکرہ قطعی ضروری نہیں ہے، ہمیں یا کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ ’جلتی پر پیٹرول‘ چھڑکنے جیسے مذموم اور مکروہ امور میں اب مزید اور الجھا جائے ہم تو صرف یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں چاہے جیو گروپ ہو یا کوئی او ر اہم یا غیر اہم الیکٹرونک میڈیا گروپ‘اُسے یہ سمجھنا ہوگا کہ ’آزادی ٗ ِ صحافت‘ کے معنیٰ کیا ہیں؟ اِن کی حدود ہیں یا نہیں؟اِس آزادی کے فوائد کیا ہیں نقصانات کیا؟یہ سنجیدہ سوالات ہیں جن پر آزاد وجمہوری معاشروں میں اُس وقت سے بحث ہورہی ہے،جب سے اِس صدی کی صحافت نے از خود یہ سمجھنا شروع کردیا کہ وہ کبھی بھی خود کو زندگی کے ایک اہم مقدس شعبہ کی بجائے اپنا یہ مذموم تصور عوام میں راسخ کرنے پر کمربستہ ہوسکتا ہے کہ اب وہ کسی بھی ریاست کی بنیادوں کو نہ صرف جھنجھوڑ نے کی طاقت کو استعمال کرنے کی پوزیشن میں آگیا ہے بلکہ وہ ہر طرح کی حکومتوں کو گرانے‘ اُن کے زعماء کی پگڑیاں اُچھالنے‘حکومتوں کو بنانے‘ گرانے اور حساس قومی اداروں کی جڑوں کی بیخ کنی کرنے کی طاقت بھی اپنے اندر متحرک پاتا ہے ایسے من چلے’دماغ پھرے مادر پدر آزادمیڈیا والے‘ بعض اوقات ’اپنی اوقات‘ فراموش کرکے یہ سمجھنے لگتے ہیں جو وہ کہہ رہے ہیں جو سنا رہے ہیں جو دکھا رہے ہیں بس وہ صحیح ہے باقی سب غلط ہے بدقسمتی ہے جب سے ہمارے ہاں میڈیا نے آزادی کے نام پر قومی نظریاتی اخلاق کا ’تابوت‘ پر ’تابوت‘ نکالنے کا بھیانک وطیرہ اپنایا اور کسی حکومتی حلقے کی طرف اِس کا بروقت نوٹس لینا ضروری نہیں سمجھا گیا یہ اور زیادہ ’آپے‘ سے باہر ہوگئے، اب اظہار رائے کی آزادی کے نام پر بوتل سے نکلا ہوا ’جن‘ کسی کے قابو میں نہیں آرہا جیوگروپ کے ایک صحافی پر کراچی میں ہونے والے مبینہ قتل جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے، مگر اِس کا کیا جواب دیں گے انسانی حقوق کے وہ عالمی چمپیئن؟ اُس صحافی کے میڈیا گروپ نے اِس مبینہ قتل کی فی الفور ذمہ داری ملک کی سپریم انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی پر ایسے ڈال دی؟جیسے یہ قتل کراچی میں نہیں ہوا بلکہ بھارت کے کسی شہر میں ہوا ہے کسی پاکستانی صحافی کا قتل نہیں‘ بلکہ کسی بھارتی صحافی کا قتل ہوا ہے، جو بھارتی قومی مفادات کے لئے ہمہ وقت اپنی جان ہتھیلی پر لیئے اپنے صحافتی امور انجام دہی کے ساتھ ملک کے خلاف کسی انڈر گراونڈ انٹیلی جنس ایجنسی سے ملا ہوا ہو؟ سونے پہ سہاگہ ’ٹارگٹٹڈ‘ صحافی کو یہ علم ہو نا کہ میری اہمیت پاکستانی حساس اداروں میں اِس قدر بڑھ گئی ہے کہ حساس ادارے کے چیف نے مجھے اپنے راستہ کا کانٹا سمجھ لیا ہے؟ جہاں تک موجودہ حکومت کا اِس معاملے سے بخوبی نمٹنے کا تعلق قوم نے دیکھا افسوس صدہاافسوس! ’دو کشتیوں‘ میں پیر رکھنے والا عجب معاملہ معلوم دیا جب آئی ایس آئی جیسے حساس قومی ادارے پر جھوٹے الزامات عائد کیئے گئے تو وزارت ِ دفاع نے پیمرا میں اِسی میڈیا گروپ کی طرف سے کی جانے والی ملک مخالفت پیشہ ورانہ کار گزاریوں کا جائزہ لینے کی درخواست دائر کردی اور ’چپ‘ سادھ لی پیمرانے متذکرہ بالا میڈیا گروپ کو ’جوابی نوٹس‘ جاری کردیا، پیمرا کے سرکاری ممبران ایسے اہم ایشو سے اپنے دامن بچانے کے لئے نجانے کہاں جاکر چھپ کر بیٹھ گئے پرائیوٹ ممبران نے اپنی ذمہ داریاں نبھانی تھیں سو اُنہوں نے اپنے دئیے گئے نوٹس کے ایّام پورے ہونے کے بعد اب اپنا فیصلہ سنا دیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ سرکاری ممبران جب اگلے اجلاس میں یہ کیس دوبارہ سنیں گے تو پھر کیسا فیصلہ سامنے آتا ہے؟جیو گروپ کو کسی قانونی ضابطے دائرے کا پابند بنا نا یا کسی بھی ملکی نجی میڈیا کو پیمرا کے اصولوں کی پابندی کرنے پر کوئی نوٹس دینا یا یہ فیصلہ کرنا کہ پاکستان میں ’آزادی ٗ ِ صحافت‘ کے کماحقہُ بہروربنیادی اصول کیا ہوں؟ خالصتاً ایک آزاد وخود مختار‘ اور اقوام ِ متحدہ کے رکن ملک پاکستان کا داخلی اندرونی انتظامیہ مسئلہ ہے آج پاکستانی قوم کو ملکی اخبارات میں یہ خبر پڑھ کر بہت ہی دکھ اور بہت تکلیف پہنچی ہے مثلا ً ”جیو گروپ“ پر ممکنہ پابندی کے خلاف یورپی یونین کی انتباہ کی خبر؟ پاکستانی نجی ٹی وی جیو گروپ کے چند متنازعہ چینلز کے خلاف پیمرا کی جانب سے کارروائی پر یورپی یونین کی طرف سے آنے والے ’انتباہی بیان‘ پر عوام نے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا ”برسلز میں قائم یورپی یونین ٹریڈ کمیشن نے ’خبردار‘ کیا ہے کہ وہ پاکستان کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے اگر آزادی ِ اظہار پر سنگین قدغن لگائی گئی تو پاکستان کے لئے ’جی ایس پی پلس‘ کا درجہ واپس لیا جاسکتا ہے“ یہاں یہ یاد رہے کہ حکومت نے یورپی یونین سے ہونے والے اِس عالمی تجارتی معاہدے کو اپنی کامیابی قرار دیا تھا جس کے تحت ’جی ایس پی پلس‘ (جنرلائزڈاسکیم پری فرینسنز)کے تحت پاکستان کو یورپی یونین ممالک کے لئے سالانہ574 ملین یورو مالیت کی ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت ہے‘ عوام کو یہ پوچھنے کا آئینی حق ہے کہ پاکستان کے اندرونی قومی سلامتی کے حساس معاملات پر کیا یہ سودا کیا گیا ہے؟ بقول یورپی یونین دنیا بھر کا مغربی میڈیا پراپیگنڈا کررہا ہے”پاکستان“ صحافیوں کی ذمہ دارانہ امور کے لئے ایک مشکل ملک بنتا جارہا ہے، آئے روز یہاں پر ’صحافیوں‘ کا قتل ِ عام ہورہا ہے اُنہیں سنگین حالات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے کیا عقل کے اِن اندھوں کو علم نہیں کہ پاکستان میں گزشتہ چھ سات برسوں سے پاکستانی عوام قومی سلامتی سے وابستہ ملٹری اور سول فورسنز کے ہزاروں افسر وجوان ا ہلکار وں کی جان ومال کی کوئی قیمت نہیں‘ پورا ملک دہشت گردوں نے یرغمال بنا یا ہوا ہے، اندرونی سیکورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے دنیا کے ہر مہذب ملک میں ایسے’انتباہی اقدامات کیا ماضی قریب میں نہیں اُٹھائے گئے؟ کیا پاکستانی قوم’جی ایس پی پلس‘ کادرجہ ملنے سے پہلے ’بھیک منگوں‘ کی کوئی قوم تھی؟ پاکستان کے خالص اندرونی معاملات پر یورپی یونین کو ایسی انتہائی بیہودہ سودے بازیوں کی دھمکیاں دینا بالکل زیب نہیں د یتا، یورپی یونین سمیت ہر وہ ’صاحبان‘ جو پاکستان کو ہر قیمت پر برائے ِ فروخت سمجھتے ہیں اُنہیں اور نہیں تو کم از کم صحافت کی آزادی پر اظہار ِ خیال کرنے پہلے 30 / اگست1753 میں بر طانوی جریدے’انڈی پنڈنٹ ری فلیکٹر کے مضمون کا وہ حصہ کیا یاد نہیں ہے جس میں صاف لکھاگیا ہے ’عوامی اظہار َ رائے کی آزادی کی طرح صحافت کی آزادی کا ذکر تو بہت سے لوگ کرتے ہیں لیکن اِسے ’سمجھنے‘ والے بہت کم ہیں دوصدیاں بیت چکیں مگر‘ یہ بات آج بھی بالکل صحیح ہے۔