حکومت بین الاقوامی دباؤ کو کیسے سہہ سکے گی
نغمہ حبیب
پیمرا نے جیو پر پندرہ دن کی پابندی عائد کر دی اور ایک کروڑ کی ’’خطیر رقم‘‘کا جرمانہ بھی لگا دیا جس کے جواب میں جیو نے پچاس ارب روپے کے ہر جانے کا دعویٰ کر دیا۔ میڈیا کی آزادی اپنی جگہ قابل قدر اور ضروری ہے لیکن اسے قومی نظریے، قومی اداروں، قومی سلامتی اور قومی اقدار پر حملہ آور ہونے کا کوئی حق نہیں جبکہ آج میڈیا کسی نہ کسی طرح اپنی آزادی کا غلط فائدہ اٹھا رہا ہے ۔یہ رویہ ایک دم سے نہیں ہوابلکہ آہستہ آہستہ پروان چڑھتا رہااور اس آزادی پر فخر کیا جاتا رہابلکہ اسے بہادری کا نام دیا جاتا رہا۔ معاشرتی برائیوں، معاشرے کی کا لی بھیڑوں، رشوت اور بد عنوانی کے خلاف بات کرنا تو واقعی بہادری ہے لیکن جب بات افراد کی کی جائے اور نقصان اداروں کو پہنچایا جائے اور انہیں اس طرح سے ہدف تنقید بنا یا جائے کہ نہ صرف ملک میں بلکہ پوری دنیا میں ان کی بدنامی ہو تو تب یہ قابلِ اعتراض ہے۔ جیو نیوز پر آئی ایس آئی کے خلاف چلنے والی خبر اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جس نے خود میڈیا کے اندر بیٹھے ہوئے محب وطن لوگوں کو جگایا تو جیسے سب کو احساس ہوا کہ اب تک بہت کچھ غلط ہو رہا تھا ،ساتھ ہی عوام نے بھی جیوکے اس رویے اور الزام تراشی پر احتجاج کیا۔ اس کے بعد شائستہ واحدی کے مارننگ شو پر عوام اور مذہبی طبقے نے بھی صدائے احتجاج بلند کی۔ یہ مارننگ شوز بھی کوئی آج کی بات نہیں ہیں ان میں ہماری اقدار اور مذہب کے خلاف عرصہء دراز سے بہت کچھ ہو رہا تھا،ضروری تو نہیں کہ منہ سے بولا جائے، کیا ہماے ٹی وی چینلز میں پہنے جانے والے لباس خود ہمارے مذہبی اقدار کی نفی نہیں ہیں۔ ہمارے مختلف شہروں میں ہونے والے ڈریس شوز ہمارا میڈیا بڑے فخر سے دکھاتا ہے اور بڑے فخر سے اعلان کرتا ہے کہ حسیناؤں نے ریمپ پر جلوے بکھیرے لیکن سچ یہ ہے کہ ان جلوؤں کو دیکھ کر شریفوں کے سر شرم سے جھک جاتے ہیں ۔ ہر چینل پرنہ صرف بھارتی فلموں کے بیہودہ گانے اور مناظر دکھائے جاتے ہیں بلکہ ان کے اشتہارات بڑے فخر سے دکھائے جاتے ہیں ۔ ان کی ماڈلز جن مصنوعات کے لیے ماڈلنگ کر لیں وہ اسے اپنی کامیابی کی ضمانت تصور کرنے لگتے ہیں ۔یوں ہمارا میڈیا صرف منہ زبانی ہی اپنے نظریے کی مخالفت نہیں کرتا بلکہ عملاً نفی کر تاہے جس میں اب ہمارے سیاست دان بھی شامل ہوتے جارہے ہیں اور جو نظریے کی بات کرتا ہے اسے تشدد پسند ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے یا انھیں جنگ کا حامی قرار دیا جاتا ہے جبکہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ بھارت سے جنگ کی جائے اپنا نظریہ اپنی شناخت ہوتا ہے ، برصغیر کے مسلمانوں نے اسی نظریے کی بنا پر اپنا الگ ملک حاصل کیا تھا اور چھ دہا ئیوں تک اس بات پر فخر کیا جاتا رہا لیکن پھر میڈیا پر اس بات پر بحث شروع کر دی گئی اور جیو نیوز نے بالخصوص اور کھلم کھلا اس نظریے کی مخالفت شروع کی ۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا لیکن ان بولنے والوں کے خلاف خاموشی چھائی رہی بلکہ یہ اینکر ز خود کو بہادراور بے لاگ کہتے رہے اور خود ستائشی کا ایک باقاعدہ پروگرام چلتا رہا ۔ہر اینکر اور رپورٹرتفتیشی افسر بن کر نئی سے نئی اور خفیہ سے خفیہ ترین معلومات کو طشت ازبام کر کے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا اظہا ر کرتا رہا۔
حامد میر پر حملہ تو ایک بہانہ بنا ورنہ فوج اور خاص کر آئی ایس آئی پر الزامات لگانا تو ایک معمولی کی کاروائی بن چکی تھی۔ عمر چیمہ کے اغوا ء کا الزام بھی آئی ایس آئی پر ہی لگا یا گیا اور سلیم شہزاد کے قتل کا بھی اور اجمل قصاب کو بھی پاکستان سے ہی ڈھونڈھ نکالا گیا ۔ بھارت کی ترقی اور عظمت کو بھارتی میڈیا سے زیادہ جاذب بنا کر یہاں پیش کیا گیا ۔ جب آئی ایس آئی کے سربراہ کو براہِ راست اقدام قتل کا مجرم بنایاگیا توصدائے احتجاج بلند ہوئی لیکن اب بھی حکومت اس نیوز چینل کو درست ثابت کرنے کی کوشش میں صروف ہے وزراء کے بیانات میں تضاد خود حکومت کے تذبذب کا پتہ دیتا ہے۔ پیمرا کے پانچ ارکان کو تین بنا کر پیش کیا گیا جنہوں نے اس چینل کے خلاف فیصلہ دیا۔ پیمرا میں الگ بے ضابطگی کی گئی کہ اس کا قائم مقام چئیر مین لگا یا گیا اور اس سے صرف پندرہ دن کی معطلی اور ایک کروڑ جرمانے کی مضحکہ خیز سزا سنوا ئی گئی۔
یہاں کئی سوالات جنم لیتے ہیں کہ حکومت میرشکیل الرحمان کے دباؤ میں کیوں ہے۔ یہ تو عوام جانتے ہیں کہ بھارتی ثقافت سے آلو گوشت کی مماثلت جناب نواز شریف ڈھونڈھتے ہیں تو پتنگ بازی کی جیو نیوز ۔ لیکن حکومت کو یہ بھی سوچ لینا چاہیے کہ اس میڈیا گروپ نے پچھلی حکومت کو مسلسل دباؤ میں رکھا ،عدالتوں کو اور چیف جسٹس کو اپنے مرضی کے مطابق فیصلے کرنے پر مجبور کیا تو وہ آپ کے ساتھ بھی یہ سب کچھ کر سکتا ہے۔اور پندرہ دن کی معطلی کی سزا وہ بھی ایسی کہ جس پر حکومت عمل درآمد نہیں کرا سکی عوام کو دھوکہ دینے والی بات ہے اگر حکومت ایک میڈیا گروپ یا اس کے مالک یا اس کے ایک اینکر کے آگے مجبور ہے تو یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ بین الاقوامی دباؤ کو سہہ سکے گی۔
مسئلہ پندرہ یا بیس دن یا کسی ایک میڈیا گروپ کی بندش کا نہیں بلکہ ایک ضابطء کا ر کا ہے کہ کیسے ملکی سلامتی اور اداروں کی ساکھ کو برقرار رکھا جائے اور کیسے ان کی عزت کروائی جائے، کونسی معلومات کو نشر کیا جائے اور کونسی روکی جائے، کس قسم کے ڈرامے اور شوز دکھائے جائیں اور انہیں قومی اور مذہبی ضابطہء اخلاق کا پا بند بنایا جائے اور میڈیا کو ایک حدکے اندر رکھاجائے۔ اس پابندی کا مطلب نہ تو صحافت اور اظہارِ رائے کی آزادی پر حملہ تصور کیا جائے اور نہ ہی حکومت اس سے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرے بلکہ اسے خالصتاً قومی مفاد میں ہونا چاہیے ۔ حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے اور اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پیمرا کو زیادہ فعال بنائے ،اس میں قومی سلامتی کے اداروں کے نمائندوں کو ماہرانہ رائے کے لیے شامل کرے یا ایسے لوگوں کو نمائندگی دے جو مخلص ہوں اور کاروبار پر قومی مفاد کو تر جیح دیں تو یقیناًمیڈیا دوبارہ ایسی صورتحال سے دوچار ہونے سے بچ جائے گا اور قومی مفاد بھی آئندہ خطرے میں نہیں پڑے گا، بین الاقوامی طور پر بھی ہماری جگ ہنسائی نہیں ہو گی کیو نکہ جو قومیں اپنے قومی مفاد پر سمجھوتہ کرتی ہیں کبھی بھی بین الاقوامی طور پر کسی عزت کے قابل نہیں سمجھی جاتیں۔
لہٰذا اگر ہمیں عزت دار قوموں کی صف میں کھڑا ہونا ہے تو اپنے اوپر کچھ نہ کچھ سختیاں او ر پابندیاں خود لگانی ہونگی۔ اس کے لئے اگر حکومتی ضابطے ہیں تو پورے کرنے ہونگے ورنہ ہمیں خود ہی قومی اقدار اور قومی سلامتی کو مدِنظر رکھ کر خود کو پا بند کرنا ہوگا۔