جناح ائیرپورٹ پر حملہ : قومی بہادری اور تحمل فتح کے لیے نا گزیر
جناح ائیرپورٹ پر حملہ : قومی بہادری اور تحمل فتح کے لیے نا گزیر
افتخار حسین
تحریک ِ طالبان کے دہشت گرد کراچی میں جناح ائیر پورٹ پر 8 اور 9 جون کی درمیانی رات حملہ آور ہوئے۔ مسلح افواج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جوانوں نے بہادری اور جا نفشانی سے تحریب کاروں کا مقابلہ کر کے انہیں ناکام اور نا مراد کردیا۔ جو دہشت گرد ملک دشمن قوتوں کے ایماء پر اہم اثاثوں اور تنصیبات کو تباہ کرنے کے ناپاک عزائم لے کر آئے تھے وہ سب ہی جہنم واصل ہو ئے اور اہمیت کی حامل تنصیبات محفوظ رہیں۔ یقیناً اس کامیابی پر قانون نافذ کرنے والے ادارے تحسین کے مستحق ہیں۔ مگر ساتھ ہی ہمیں اس بات کا ادراک کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ اس نوعیت کے حملو ں سے دشمن قوتوں کا واحد مقصد ہمارے عزم کو متزلزل کرنا ہے۔ لہٰذا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لئے ہمیں قومی سطح پر بہادری، تحمل ، یکجہتی اور ذمّہ داری سے کام لینا پڑے گا۔
ہمیں گزشتہ ایک دہائی سے ایسے دہشت گردوں کا سامنا ہے جنہیں دشمن ممالک کے خفیہ اداروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ بد قسمتی سے دشمن قوتوں کے یہ آلہء کارذہن سازی کے ایسے مرحلے سے گزارے جاتے ہیں کہ وہ زمینی حقائق کی ایک خود ساختہ تاویل بنا کر باقی سارے معاشرے کو غلط سمجھنے لگتے ہیں۔ لہٰذا ان کے لئے ہر کوئی قابلِ مذمت اور نفرت کا مستحق بن جاتا ہے۔ جس کے خا تمے کو وہ ضروری گرداننے لگتے ہیں۔ خصوصاً مختلف نفسیاتی ہربے استعمال کرکے انہیں قتل و غارت گری کا عادی بنا دیا جاتا ہے۔ جس کی جیتی جاگتی تصویر تحریکِ طالبان کے کارندے پیش کر رہے ہیں۔
ان کی تربیت کا سب سے مہلک پہلو یہ ہے کہ یہ سب اسلام کے نام پر گمراہ کیے جا رہے ہیں۔ لہٰذا تحریکِ طالبان اپنی قتل و غارت گری کو من گھڑت اسلامی تاویلوں سے جائز قرار دیتی دکھائی دیتی ہے اور یہی گمراہ کُن پروپیگنڈا کچھ سادہ لوح لوگوں کو ان کی مدد پر آمادہ کردیتی ہے۔
درج بالا حقائق کی صداقت تحریکِ طالبان کے حملوں میں استعمال ہو نے والے دشمن ممالک کے اسلحہ، ان کی تربیت گاہوں سے ملنے والے مواد اور خود ان ہی کے رہنماؤں کے اعترافات پر مبنی ہے۔
لہٰذا ہمیں صبر و تحمل کے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں معاشرتی سطح پر مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ساتھ دینا چاہے، ہمارے شہروں اور دیہات میں ہماری ہی صفوں میں چھپے ہوئے ان دہشت گردوں کی نشاندہی اس جنگ میں فتح کے لئے نا گزیر ہے ۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ اسلام کے نام پر گمراہی پھیلانے والے تخریب کار سادہ لوح لوگوں کی ہمدردیاں جیت کر انہیں اپنے مذموم مظالم کی تکمیل کے لئے نہ استعمال کر پائیں۔ ہمیں تحمل سے کام لیتے ہوئے اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کا عمل طویل اور صبر آزما ہے۔ جنوبی ایشیا ہی میں سری لنکا کے عوام اور حکومت نے 30 سال طویل جنگ لڑ کر دہشت گردوں سے نجات پائی۔ ہمیں اس سے کہیں درجے بڑھ کر سخت اور جدید دہشت گردوں کا سامنا ہے جنہوں نے ہمارے دشمن ممالک سے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے۔ لہٰذا ان کی مکمل شکست میں مزید کئی سال لگ سکتے ہیں۔ صورت حال کا تقاضا ہے کہ ہم عوام اور افواج کے جذبے کو بلند رکھنے کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ جذبے کی یہی تازگی ہماری فتح کی نوید بن جائے گی۔
کراچی ائیرپورٹ حملے سے عیاں ہے کہ تحریکِ طالبان حساس اور اہم تنصیبات اور اداروں پر وقتاً فوقتاًحملے کرکے ملک اور بین الاقوامی سطح پر اپنی دہشت گردانہ صلاحیت کی دھونس جمانا چاہتی ہے۔ اس کی اس حکمت عملی میں ملک دشمن قوتوں کے خریدے ہوئے صحافی حضرات اس کا پورا پورا ساتھ دیتے ہیں۔ لہٰذا ہم نے دیکھ لیا کہ ائیر پورٹ پر حملے کے دوران نہایت ہی منفی طرز سے ملک اور بیرون ملک یہ تاثر پیدا کیاگیا کہ حملے میں جیسے ائیر پورٹ کا کچھ بھی نہیں بچا۔ ملک سلامتی کے اداروں نے دہشت گردوں کےساتھ ساتھ ان صحافیوں کے جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈے کا بھی خاتمہ کردیا۔
ان حقائق کی روشنی میں ہمیں جان لینا چاہےکہ اس طرح کے حملے ہماری قومی عزم کا امتحان ہیں اور یہ مستقبل میں بھی جاری رہے گی۔ ہمیں ہر صورت میں دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک تحمل اور بہادری سےحکومت اور قومی سلامتی کے اداروں پر اعتماد کو مظبوط کرنا ہے۔ اس ضمن میں دہشت گردوں اور ان کے پشت پناہوں کے پر و پیگنڈے کو رد کرتے رہنا ہے۔