القاعدہ کی فرقہ وارانہ سرگرمیاں اور پاکستان کو لاحق خطرات
القاعدہ کی فرقہ وارانہ سرگرمیاں اور پاکستان کو لاحق خطرات
(افتخار حسین)
القاعدہ کے رہنما مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر کمزور کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، اور فرقہ واریت کو فروغ دے کر مسلمان ممالک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے، بالخصوص پاکستان میں اس کے عزائم نہایت خطرناک ہیں، جنھیں ہمیں نا کام بنانا ہے۔ تحریک طالبان اور لشکر جھنگوی جیسی تنظیموں سے گٹھ جوڑ کرکےالقاعدہ نے پاکستان میں فرقہ واریت کی فضا پیدا کر رکھی ہے، جو قومی سلامتی اور یکجہتی کے لئیےزہرِ قاتل کی حثیت رکھتی ہے۔
القاعدہ نے فرقہ واریت، قتل و خون ریزی، اقتصادی بحران اور تباہی کے سوا مسلمانوں کو کچھ نہیں دیا۔ حال ہی میں اسی گروہ نے آپس کی لڑائی میں عراق اور شام میں اپنے ہی ہزاروں ارکان کو ہلاک کر دیا ہے نتیجتاً ایمن الظواہری کو مداخلت کر کے عراق میں اپنے ہی ساتھی ابو بکر البغدادی سے تعلقات ختم کرنے پڑے کیونکہ وہ اسکی کوئی بات ماننے کو تیار نہیں تھا اور یہ خون ریزی رکنے کو نہیں آ رہی تھی۔ ابو بکر البغدادی نے اب اپنی خلافت قائم کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور مشرق ِ وسطیٰ میں مسلمانوں میں فرقہ وارانہ خون ریزی میں اور بھی تیزی آگئی ہے ان حقائق کی روشنی میں ہمیں اپنی آنکھیں کھول کرالقاعدہ کی اسلام دشمنی کا ادراک کرنا چاہئیے اور اس کے خلاف جنگ میں حکومت اور مسلح افواج کا ساتھ دینا چاہیئے۔
پاکستان میں اسلام دشمنی میں القاعدہ، تحریکِ طالبان اور لشکرِ جھنگوی کے دہشت گردوں نے صوفی بزرگوں کی خانقاہوں پرکئی خود کش حملے کئے جنہوں نے برصغیر میں اسلام کو پھیلایا۔ داتا گنج بخشؒ، عبداللہ شاہ غازیؒ، بہاؤالدین زکریا، بابا فرید ، شاہ شمس تبریز، شاہ رکنِ عالم اور کئی اور بزرگوں کے دربار پاکستان میں اسلامی روحانی مراکزہیں۔ ان مزاروں، مسجدوں ، مدرسوں اور امام بارگاہوں پرخودکش حملے کرنے والی گمراہی کا شکار اور ملک دشمن قوتوں کے پروردہ ہیں۔ نفرت اور فرقہ واریت پھیلانے والے ان دہشتگردوں سے ہمیں اپنے ملک اور معاشرے کو بچانا ہے۔
کراچی میں القاعدہ اور تحریکِ طالبان نے بڑی بڑی فرقہ وارانہ کاروائیاں کی جن کی وجہ سے شہر سنی تحریک، اہلسنت والجماعت اور شیعہ گروہ کی لڑائی کی نذر ہوگیا۔یہ شہر ملک کا سب سے بڑا تجارتی مرکز ہے اور اسے ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حثیت حاصل ہے۔ دہشتگرد کراچی کو مسلسل نشانہ بنائے ہوئے ہیں اور شہر کے امن و امان کو تہ و بالا کر رکھا ہے تا کہ کاروباری سرگرمیاں عمل پذیر نہ ہو سکیں۔ ایک گھناؤنے منصوبے کے تحت ملک کی معیشت کو برباد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ملک دشمن ادارے اور تحریک طالبان کے اہلکار اس سازش کا حصہ ہیں ہمیں کراچی میں مذہبی رواداری کو فروغ دے کر ملک دشمن قوتوں کے اس منصوبے کو ناکام بنانا ہے۔
بلوچستان میں بھی لشکر جھنگوی نے القاعدہ کی فرقہ واریت کی مہم کو منظم کر رکھا ہے۔ ہزارہ شیعہ برادری کے لوگوں پرہونے والے حالیہ منظم حملے اس کا شاخصانہ ہیں۔قدرت نے بلوچستان کو معدنی ذخائر سے مالا مال کر رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ عالمی قوتیں اور دشمن ممالک اسے غیر مستحکم کرنے میں کوئی قصر نہیں اٹھا رکھتے۔ قومیت پرستی اور فرقہ واریت کو فروغ دے کر صوبے کے قدرتی وسائل سے قوم کو استفادہ کرنے میں پیچیدگیاں پیدا کی جا رہی ہیں ۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم قومی یکجہتی کو فروغ دے کر دشمنوں کی اِن سازشوں کو ناکام بنا دیں۔
گلگت بلتستان، خیبر پختونخواہ اور پنجاب کے بڑے شہری مراکز میں بھی گاہے بگاہے فرقہ وارانہ حملےکیے جاتے ہیں جن کی وجہ سے ملک کی فضا کشیدہ رہتی ہے۔ القاعدہ کے اس ایجنڈے کی آڑ میں دشمن ممالک کی خفیہ ادارے بھی فعال ہیں اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا کوئی بھی موقع نہیں گنوایا جاتا۔
تخریب کارانہ سرگرمیوں کی نوعیت کچھ بھی ہو دہشگردوں نے ملک کا امن تباہ کر رکھا ہے۔ آئے روز پاکستان کے کلمہ گو عوام ان کی درندگی کا نشانہ بنتے ہیں۔ اسلام کے نام پر بازاروں، اسکولوں، لاری اڈوں پر حملے کیے جاتے ہیں۔ جن میں معصوم بچے، عورتیں اور بے گناہ بزرگ اور جوان مر جاتے ہیں۔ یہ درندے کیسے مسلمان ہو سکتے ہیں، جو بلا دریغ مسلمان بیویوں کے شوہروں ، مسلمان ماؤں کے بیٹوں اور مسلمان بہنوں کے بھائیوں کو قتل کر رہے ہیں۔
یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ وطن عزیز میں عوامی بیداری کی ایک مہم پنب رہی ہے جو فرقہ واریت کے خاتمے میں معاون ثابت ہو رہی ہے۔ ملک میں حال ہی میں بہت سی طالبان مخالف ریلیز، جلسہ وجلوس، سیمینار اور کانفرنس کا انعقاد ہوا ہے۔ یہ سبھی سرگرمیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان میں القاعدہ اور طالبان کی سوچ کو عوام نے ہی مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔ اُنھوں نے اسلام کا نام استعمال کر کے کچھ سادہ لوح لوگوں کو اپنے ساتھ ضرور ملا لیا تھا مگر ان ہی کی حد سے بڑھی ہوئی دہشگردانہ مہم نے اُنھیں اپنے ہی ہمدردوں کے لیے نا قابلِ قبول بنا دیا ہے۔لوگ جان چکے ہیں کہ اسلام اور شریعت کی آڑ میں تحریکِ طالبان کے رہنما اور ارکان یا تو محض خود غرضانہ ایجنڈا پر عمل پیرا ہیں یا پھر کسی اسلام اور پاکستان دشمن قوت کے گھناؤنے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچا رہے ہیں۔
قومی بیداری اور یکجہتی کی یہ فضا القاعدہ اور اور اُس کی حامی گروہ کی شکست کی قلیدثابت ہو گی۔ ہمیں اسے مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے۔