تحریکِ طالبان کے بھگوڑے دہشتگرد مغربی اشیائے تعیش کے دلدادہ
Posted date: August 20, 2014In: Urdu Section|comment : 0
تحریکِ طالبان کے بھگوڑے دہشتگرد مغربی اشیائے تعیش کے دلدادہ
(افتخار حسین)
آپریشن ضرب عضب کا آ غاز ہونا تھا کہ بڑے بڑے دعوے کرنے والے تحریکِ طالبان کے اہلکاروں نے رائے فرار اختیار کر لی چنانچہ اب مسلح افواج شمالی وزیرستان میں تلاشی کی کاروائیاں کرکے انھیں ہلاک کر نے یا حراست میں لے کر ان کے منتطقی انجام تک پہنچانےمیں لگی ہو ئی ہیں۔ ضرب عضب آپریشن نے جہاں دہشت گردوں کا زور توڑا ہے وہاں ان تخریب کاروں کے کردار اور طرز زندگی کے بارے میں نئے انکشافات ہوئے ہیں۔ جو ان کے مغربی ممالک کے آسائش و تعیشات کے سامان کے دلدادہ ہونے پر مبنی ہے۔
قبائلی علاقوں سے بے گھر ہونے والے باشندوں نے ان کی بے راہ روی اور منافقت کے بارے میں ملکی اور بین الاقوامی میڈیا میں حقائق بیان کیے ہیں مسلح افواج کی کاروائی کے آغاز کے ساتھ ہی دہشت گردوں کا یونہی بھاگ جانا ان کی اخلاقی پستی اور منافقت کو عیا ں کرتا ہے تحریک طالبان کے رہنما اور ترجمان ضرب عضب کے آغاز سے پہلے یوں ظاہر کر رہے تھے کہ جیسے ان کے خلاف فوجی کاروائی کی گئی تو وہ ملک کو شدید نقصان پہنچائیں گے۔ یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ سینکڑوں خودکش حملہ آور پاکستان اور اس کے عوام پر چڑھائی کر دینگے مگر ایسا کچھ بھی ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ یقیناً اس کا بڑا سبب مسلح افواج کی احسن حکمت عملی ہے مگر تحریکِ طالبان کے اہلکاروں کا یہ فرار اس گروہ کے نظریاتی فریب کو ظاہر کرتا ہےایسا طرز عمل تو جرائم پیشہ گروہ کا ہو تا ہے۔ جو اپنے خلاف کاروائی کی خبر ملتے ہی اپنے ٹھکانوں سے بھاگ جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں تحریکِ طالبان کے رہنماؤں اور اہلکاروں کی اخلاقی پستی کا ایک اور ثبوت ضرب عضب شروع ہونے کے بعد یہ انکشافات ہیں کہ دہشت گردوں کو مغربی ممالک کا جدید سامان فراہم کیا گیا تھا ۔ تحریکِ طالبان بڑی مقدار میں مغربی ممالک کے تیا رکردہ شیمپو ، صابن ، فرانسیسی اور ترکی پرفیوم باڈی اسپرے، برطانوی ڈیٹرجنٹ اور امریکی کھانے کا تیل اور گھی وغیرہ خریدتے تھے یہ سامان زیا دہ تر دبئی کے ذریعے منگوایا جاتا تھا اور مقامی دوکانوں سے بھی خریدا جاتا تھا ۔
مغربی ممالک کی اشیاءتعیش سے تحریکِ طالبان کی یہ وابستگی بھی اس کے دوغلے پن کو ظاہر کرتی ہے اس گروہ کے اہلکار اور ترجمان تو عیاشی کی ان سبھی اشیاء کو ترک کرنے کے لئے پر تشدد طریقوں سے عوام کو مجبور کرتے تھے مغربی ممالک کی سبھی اشیاء کا ترک کر دینا انتہا پسندوں کے پروپیگنڈے کا ایک نمایا ں پہلو ہوتا تھایقیناً یہ انتہادرجے کی منافقت اور دھوکہ دہی ہےجس کا سہارا تحریکِ طالبان لیتی چلی آئی ہے، یہ بحث ہمیں یہ بھی سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ان سبھی عیاشیوں کے لئے تحریکِ طالبان کے پاس سرمایہ کہاں سے آتا تھا یہ سبھی اسباب بیش قیمتی ہیں اور ان کے لئے خاطرخواہ رقم کی ضرورت پڑتی ہو گی ممکنہ طور پر د شمن ممالک کے خفیہ اداروں کی مالی مددسے ہی تحریکِ طالبان اس کی متحمل ہو سکتی ہے۔ ایک دوسرا ذریعہ وہ چندے نظر آتے ہیں جو زکوٰۃو خیرات اور قربانی کی کھالوں سے حاصل کیے جاتے ہیں یہاں ہم یہ بھی سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ آیا جو زکوٰۃ اور خیرات تحریکِ طالبان جیسے گروہ کے ہاتھ لگ جاتی ہے کیا وہ قبول بھی ہوتی ہوگی، یقیناً یہ عوام اورمخیر حضرات کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔
اسلامی نظریات، قرآن و سنت اور شریعت پر مبنی پروپیگنڈا ہر کسی کو متاثر کرتا ہے۔ لیکن ان حقائق کی روشنی میں تو ہمیں اپنی آنکھیں کھول لینی چاہییں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم زکوٰۃ، خیرات اور قربانی کی کھالوں کی تقسیم میں حد درجہ احتیاط برتیں تاکہ یہ رقم ظالموں کے ہاتھ نہ لگے۔ مزید بر آں ہمیں ان عناصر سے بھی باخبر رہنے کی ضرورت ہے جو ہماری مذہبی وابستگی کو ہماری کمزوری سمجھتے ہوئے نوجوان نسل کو اسلام کے نام پرہی اسلام اور پاکستان کے خلاف کاروائیوں پر اکساتے ہیں آپریشن ضرب عضب نے دہشتگردوں کی مرکزی آمجگاہ کو تقریباً ختم کردیاہے ۔ مگر ہمیں دہشت گردی کے خلاف ایک صبر آزما جنگ لڑنی ہے جو کچھ سال مزید چل سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم حکومت اور افواج کا ہر ممکن طریقے سے ساتھ دیں۔