آئین ‘ عدلیہ اور پارلیمنٹ کا احترام۔ پاک فوج کا عزمِ صمیم
Posted date: September 14, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
پاکستانی میڈیا ‘ خصوصاً الیکٹرونک میڈیا گزشتہ ماہ اگست کی13 تاریخ سے تاحا ل اب تک مسلسل جوابی در جوابی ’ کلامی تکرار ‘ میں الجھا ہوا ہے‘ یہ ’’میڈیا‘‘ پے درپے ایک کے بعد ایک نئی قسم کی بے وزن‘ غیر مثبت‘ وضاحت سے عاری بحث مباحث کے شوقین اسکرین پرستوں کے ہمراہ متواتر ٹی وی پر دکھائی دینے والے ’اہلِ کلامیوں ‘ سے اپنی جان چھڑانے میں غالباً خود بھی کوئی شعوری کوشش کر تا نظر نہیں آتا ذرائعِ ابلاغ سے ماضی میں موثر تعلق رکھنے والے بعض سنجیدہ ‘ زیرک اور ذی شعور بزرگ ماہرین جب پاکستان کے اِس آزاد الیکٹرونک میڈیا کو ’بحرانوں کی پیداوار میڈیا ‘ کا نام دیتے تھے تو ہمیں اُس وقت بہت بُرا لگتا تھا، جب سے ہم نے اپنے ہاں ’آزاد ‘ میڈیا کی یہ خود رُو بپھرتی ہوئی بے قابو لہر جو کسی کے قابو میں آتی ہوئی نہ دیکھی تو ہمیں یقین کرنا پڑ گیا ہے کہ واقعی ہم ملک کے اِس آزاد میڈیا والوں کی ’کلامی خبروں ‘ اہلکامی تبصروں اور تجزیوں سے بے حد اکتا چکے ہیں ہماری روحیں 12-13 ؍ اگست سے اب تک بہت بُری طرح سے تھک ہار چکی ہیں اور ہماری عقلیں یہ سب کچھ دیکھ دیکھ کر نجانے کہاں گم ہو گئی ہیں سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ عیاری ‘ مکاری اور خباثتوں کی یہ راگنیاں کہاں جا کر ختم ہو نگی؟ شرمناک اور ہضم نہ ہونے والی جھوٹ بلکہ مسلسل جھوٹ کی یہ کہانتیں شروع کیوں ہوئیں؟ جھوٹ کی ’بظاہر ‘ دکھائی دینے والی سفید براق چادریں اپنے جسموں پر لپیٹے ‘ فریب کاری و مکاری سے بُنے گئے عمامہ اپنے سروں پر لپیٹے یہ ’زعماء ‘ کون لوگ ہیں اِن کے درمیان اچانک ایک اور ’منمناتی ‘ ہوئی سی کان پھوسی اور خفیہ سرگوشی کرتی ہوئی بیمار زدہ ایک اور آواز اِتنی زیادہ بلند کیسے ہوگئی جس آواز نے اِن سب ’ کلام پسندوں‘ اور اہلِ کلام تکراریوں‘ کے بحث مباحثوں میں ایک اور متازعہ بحث کا اضافہ کردیا ملاحظہ فرمایا آپ نے ! زیرِ نظر نکات ہم خالصتاً اسلام آباد میں جاری دوھرنوں اور دوسری طرف پارلیمنٹ میں ہونے والے مشترکہ اجلاس کے موضوعات پر لکھنا چاہ رہے تھے ٹی وی ٹاک شوز دیکھ دیکھ کر ہمارے دماغ کی چولیں ہل کررہ گئیں اسلام آباد کے ’ریڈزون ‘ میں جھوٹ اور سستے جھوٹ کا اِس قدر بڑا میلہ لگ سکتا ہے ہم نے ایسا کبھی سوچا بھی نہیں تھا (خدا نخواستہ) کوئی صاحب! ہماری اِس تحریر کے بارے میں بالکل یہ نہ سو چیں کہ ہم ’ظالموں ‘ کے طرفدار بن کر اور ’ مظلوموں ‘ کی حوصلہ شکنی کرنے جیسے عظیم گناہ کا ارتکاب کررہے ہیں نہیں ایسا بالکل نہیں ہوسکتا اپنے آپ کو قلم کار کہیں اور اپنا قلم ظالموں کے حق میں استعمال کریں ہمیں بھی مرنا ہے خدا کو جواب دینا ہے واقعی اِس میں کوئی شک نہیں لاہور کے ماڈل ٹاؤن کے سانحہ میں بے گناہوں کو ریاستی سرپرستی میں کھلی غنڈہ گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قتل کیا گیا 100 کے قریب افراد کو زخمی کردیا گیا نجانے اِس بہیمانہ اندھادھند فائرنگ میں کتنے اِس قدر زیادہ زخمی ہوئے ہونگے جنہیں ’زندہ درگور وں ‘ میں شمار کیا جائے تو شائد بے جا نہ ہو (خدا کرئے ہم غلط ہوں)اِن دونوں دھرنوں میں سے ایک احتجاجی دھرنا اِن مظلوم لواحقین اور اُن کے ہمدرد ساتھیوں نے لگایا ہوا ہے جس کی پیشوائی علامہ طاہرالقادری کررہے ہیں دوسری جانب تحریک انصاف کے قائد عمران خان کی قیادت میں مئی2013 کے الیکشن میں ہونے والی دھاندلیوں میں عدالتوں سے انصاف نہ ملنے کے بعد احتجاج ہورہا ہے گزشتہ20-25 دنوں کے اسلام آباد کے ریڈ زون میں ہونے والے اِن مظاہروں کے دوران انتظامیہ اور مظاہرین کے مابین ایک نازک موقع پر قانون نافذ کرنے والی پولیس نے انتہائی جذباتی قسم کی جلد باز ی کا فیصلہ کیا جس نے حالات کو بہتری کی طرف لیجانے کی بجائے اور بگاڑ دیا اِس سے قبل ایک اور نازک حساس موقع پر حکومتِ وقت نے بہت غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جس کی تفصیلات میں جانے کا وقت نہیں ‘یاد ہوگا سبھی کو ‘ جب عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے بر سرعام اعلان کرکے قوم کو ’حیرت انگیز خوشگوار ‘ اعلاع دی آرمی چیف جنرل راحیل کو حکومت نے کہا ہے کہ وہ مظاہروں کی قیادت کرنے والے قائدین سے ملاقات کرکے الجھے ’معاملہ ‘ کو درست سمت میں لیجانے کا کردار ادا کریں‘ مگر اِس نہایت بہترین ’معاملہ فہمی ‘ کو دوسرے دن قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اپنے تئیں بے تکان جذباتیت کے انگارے اگلنے والی کئی قسم کی زبانیں ایک ہوگئیں فوج کے خلاف بغض وعنا د کا کھلے عام زہر اگلا جانے لگا مجبوراً فوج کے خلاف ہر قسم کی نفرتوں کی ٹرٹراہٹ سے مرعوب ہوکر وزیر اعظم بھول گئے کہ اُنہوں نے خود ہی تو ایک روز پیشتر آرمی چیف کو یہ اہم ’ٹاسک ‘ سونپا تھا عمران خان یا طاہر القادری نے آرمی چیف سے کوئی درخواست نہیں کی ‘ فلور آف دی ہاؤس خورشید شاہ نے کہا کہ ’جن تک فوج کی طرف سے وضاحتی بیان نہیں آجاتا یعنی اُنہیں وزیر اعظم نے کہا تھا یا نہیں ؟ آئی ایس پی آر کو وضاحت کرنا ہوگی لیجئے اپوزیشن لیڈر کی خواہش پر قوم کو بتادیا گیا ’’فوج کو وزیر اعظم نے دونوں قائدین نے ملاقات کرکے معاملے کو ’ڈی فیوز‘ کرنے کا فریضہ سونپا تھا لگتا ہے یہ پوری مشترکہ پارلیمنٹ چند ایک کو چھوڑ کر تقریباً زیادہ تر وہاں پر ’ایک انوکھا گروہ ’پسنہاروں‘ کا بیٹھا ہوا ہے جو اپنے اپنے اندر ایک بڑا سا پتھر لیئے ہوئے ہیں اِن پتھروں کے نشانوں پر کوئی اور نہیں ہے سوائے پاکستان کی مسلح افواج اور اِس کے ساتھ ملے ہوئے حساس سیکورٹی کے اداروں کے ‘ کچھ قلم کار ہوتے ہیں اور کچھ ’قلم فنکار ‘ اِن ہی قلم فنکاروں کی بد ہضم بد بودار ڈکار وں کی آواز یں کہیں ختم ہونے پر نہیں آرہی ہیں وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں ’مصلحتاً ‘ اپوزیشن کی ٹرٹراہٹ کی سیاسی بوجھل پن سے اپنی جان چھوڑانے کے لئے جو سیاسی جوابی بیان دیا ،اُس پر خورشید شاہ نے جلتی پر تیل چھڑکا اور آئی ایس پی آڑ سے تصدیق مانگ لی سیاسی ’مینڈکوں ‘ جیسی ٹر ٹراہٹ اور مچھروں کی بھنبھاہٹ اِن محترم ’قلم فنکاروں ‘ کے لئے کافی نہیں‘ جو وہ سب اُس بیمارقسم کی ’منمناتی ‘ ہوئی سازشی آواز کے لئے بھی آئی ایس پی آر کی کسی اور مزید پریس ریلیز کے منتظر ہیں، جاوید ہاشمی کی شکل میں ایک کھلی سازش سامنے نہیں آگئی وقت کے ساتھ ساتھ مزید اور عقدہ کشائیاں ہونا ابھی باقی ہیں نہ فوج کل کسی کے پیچھے تھی نہ آج فوج کسی کے پیچھے ہے مگر‘ پوری قوم افواجِ پاکستان کے پیچھے نہیں بلکہ قدم بہ قدم اپنے جواں ہمت ‘ جانثار ‘ سرفروش ‘ نڈر اور بے خوف فوج کے ساتھ کھڑی ہے ’عوام کے لئے عوام کی حکومت ‘ یعنی جمہوریتِ پاکستان کا ہر قیمت پر دفاع کرنا اب افواجِ پاکستان کا عزم ہے آئین ‘ عدلیہ اور پارلیمنٹ کا احترام فوج کا عزمِ صمیم‘ بین السطور نکات کی لفظ لفظ کی بنت کاری میں راقم نے دیانت داری کے ساتھ تیزی سے انگڑائی لیتے ہوئے حالیہ سیاسی و سفارتی حالات کو غیر جانبدارانہ اندازِ نظر سے پرکھنے کی ایک کوشش کی ‘ اور نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایک محفوظ ‘ مستحکم ‘ ترقی یافتہ ‘ خوشحال اور ہماری آنے والے نسلوں کے مستقبل کے لئے قابلِ رشک پاکستان اُسی وقت ہماری متذکرہ بالا خواہشات کا مظہر بنے گا، جب تک پاکستان میں غیر جمہوری ہتھکنڈوں کے اِس فرسودہ اور کہنہ تابوت میں کوئی جواں ہمت سیاسی قائد آخری کیل نہیں ٹھونک دیتا ۔