میڈیا کے خلاف دہشت گردوں کا اعلان جنگ
میڈیا کے خلاف دہشت گردوں کا اعلان جنگ
افتخار حسین
حال ہی میں دہشت گردوں کی جانب سے پاکستانی میڈیا اور صحافیوں کو ایک دھمکی آمیز خط موصول ہوا ہے۔ جس میں دہشت گردوں کے سرغنہ خالد خراسانی نے واضح الفاظ میں صحافیوں کو دھمکی دی ہے کہ اگر انھوں نے دہشت گردوں کو تنقید کا نشانہ بنانا نہ چھوڑا تو صحافیوں پر قاتلانہ حملے کئے جائیں گے۔ کالعدم تحریکِ طالبان نے اپنے خلاف منفی پراپیگنڈہ کی پاداش میں میڈیا کو سخت جوابی کاروائی کرنے کی بھی دھمکی دی ہے۔ ان ظالم دہشت گردوں کے مطابق وہ ایک عرصے سے صحافیوں اور میڈیا کی تنقید کو برداشت کر رہے ہیں لیکن اب یہ تنقید نا قا بلِ برداشت ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا سے متعلقہ ان افراد کو بھی ٹارگٹ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو طالبان کے خلاف پراپیگنڈہ منظرِ عام پر لاتے ہیں ۔ یہ پہلی بار نہیں کہ تحریکِ طالبان نے ذرائع ابلاغ کو اپنے عتاب کا نشانہ بنا یا ہےاس سے پہلے بھی میڈیا کے نمائندوں کے خلاف کئی دہشت گردانہ کاروائیاں کی جاچکی ہیں اور میڈیا پر دہشت گردوں کے خلاف آواز بلند کرنے والے کئی صحافیوں کو شہید بھی کیا گیا ہے۔
دور جدید میں ذرائع ابلاغ کی اہمیت سے کسی ذی شعور کو انکار نہیں۔ ذرائع ابلاغ کسی بھی معاشرے میں ایک اجتماعی سوچ مرتب کرنےمیں اہم کردار ادا کرتا ہے اسی لیٔے آ ج یہ سوچ اور رویے تشکیل دینے کا سب سے تیز اور مناسب ذریعہ سمجھا جاتا ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی دنیا بھر میں اخبارات ، ٹی وی چینلز اور انٹرنیٹ پر دہشت گردوں کے خلاف ایک مضبوط مہم شروع کی گئی جس کے سبب ان انتہا پسند تنظیموں کو شدید نقصان پہنچا جو اسلام کے نام پر دنیا بھر کے مسلمانوں کو بغاوت اور سر کشی پر اکسا رہی تھیں۔ اس پُر اثر میڈیا کمپین سے دہشت گردوں کی جھوٹی ساکھ کو بھی ایک بڑا دھچکا لگا ۔ بہت سے معصوم ذہن جو دہشت گرد و ں کی غلط سوچ سے ہمدردی رکھتے تھے، انھیں بھی میڈیا کے ذریعے ہی دہشت گردوں کے حقیقی چہروں سے روشناس کروایا گیا۔
دہشت گردوں نے قبائلی علاقوں کے مکینوں کو ایک عرصے تک اپنے ظلم کی قید میں محصوررکھا۔ خودکش حملے، معصوم بچوں کے سکولوں کی تباہی، عورتو ں کی بے حرمتی ، اغواء برائے تاوان، معصوم اور نہتے لوگوں پر بم دھماکے، ملکی املاک کو ناقابلِ تلافی نقصان اور بینک ڈکیتی وہ تمام غیر شرعی کاروائیاں تھیں جن کی اجازت مذہب ِاسلام تو کیا انسانیت بھی نہیں دیتی۔ وقت کے ساتھ ساتھ جب دہشت گردوں کی یہ غیر اسلامی اور غیر انسانی سرگرمیاں حد سے زیادہ بڑھیں تو میڈیا نے انھیں منظر عام پر لانا شروع کردیا میڈیا ہی کی بدولت لوگ ان دہشت گردوں کے ظلم سے آگاہ ہوئے اور متنفر ہو کر ان کے خلاف آواز بلند کرنے لگے۔ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے دہشت گردوں نے اسلامی تعلیمات کا استحصال کرتے ہوئے قبائلی علاقوں میں رہنے والے معصوم ذہنوں کو پراپیگنڈہ کر کے انھیں دہشت گرد اور خود کش حملہ آور بنا دیا۔ لیکن میڈیا نے اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے ان شیطانوں کی حقیقت سب پر آشکار کی جس کے بعد دہشت گردوں کی تعداد اور ان کے نظریات ماننے والوں میں واضح کمی آئی۔ ذرائع ابلاغ کے خلاف اب اس ممکنہ اعلان جنگ کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کی حقیقت میڈیا کی وجہ سے سب پر عیاں ہورہی ہے۔ یہ دہشت گردوں کا پرانا وطیرہ ہے کہ جس شخص یا ادارے نے ان کی غیر انسانی اور غیر اسلامی سرگرمیوں کے خلاف آواز اٹھائی اس پر اِن ظالموں نے حملے کئے۔ میڈیا کے خلاف اعلان جنگ کر کے تحریکِ طالبان پہلے سے بھی زیادہ منفی پراپیگنڈے کا شکار ہو جائے گی اور مختلف صحافیوں کے خلاف حملے اور دھمکی آمیز خطوط میڈیا کو دہشت گردوں کے خلاف مزید مشتعل کر دے گا۔ تاہم تحریکِ طالبان کی یہ روش اسی تنظیم کے لئے منفی نتائج مرتب کررہی ہے اس لئے تحریکِ طالبان کو چاہیئے کہ اس قسم کی انتہا پسندانہ سوچ کو اب ترک کردے کیونکہ دہشت گردوں کی انہی نظریات کی بناء پر آج پوری پاکستانی قوم ان کے خلاف کھڑی ہے۔ تاہم میڈیا کو چاہیئے کہ وہ دہشت گردوں کی دھمکیوں سے خوف زدہ ہوئے بغیر دہشت گرد گروہوں کے بارے میں حقائق سے پوری قوم کو آگاہ کرتے رہیں کیونکہ دہشت گردی کے خلاف میڈیا کا کردار ہمیشہ سے ہی قابلِ ستائش رہا ہے۔