Posted date: September 30, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
پاکستان میں جمہوریت کاکا نپتا ہوا سہمتاہوا حال دیکھیں یا چند برسوں پہلے کے ’زرداری عہد کے جمہوری ماضی کی پے درپے ’بیڈ گورنس ‘ کی بدحالیوں پر پھیلی تاریخ کا بغور مطالعہ کریں کیا سمجھئے گی ہماری نئی نسل ؟ جمہوریت کیا ایسی ہی ہوتی ہے؟ جیسی تیسی ‘ لنگڑی لولی ‘نااہل اور کرپشن کی بدترین آلودگی میں لتھڑی ہوئی جمہوریت ہو اُسے ’ڈی ریل ‘ ہونے نہ دیا جائے چونکہ ’جمہوریت ‘ ایسی ہی ہوتی ہے؟ وقت کے ساتھ ساتھ پاکستانی جمہوریت پھلے گی اگر یونہی چلتی رہے اِس میں ایک نہ ایک روز ضرور نکھار پیدا ہوجائے گا ؟سب کے ساتھ قوم بھی انتظار کرئے چاہے اِس انتظار میں ’صدیاں ‘ گزر جائیں، ’صدیوں ‘ کا تذکرہ اِس لئے کہ قیامِ پاکستان سے آج تک ملک میں جمہوریت کے نام پر کچھ کم تماشا نہیں ہوا 67 برس گزر چکے تیسری نسل جوان ہوچکی ‘ جبکہ ملک کی چوتھی نسل سیاسی بالیدگی اور جدید فکری ونظری بلوغیت کی حد کو چھو رہی ہے لگ بھگ 30-32 برس ملک میں فوجی حکمرانوں نے بھی قسم آزمائی کی ہے’ دبنگ‘ وعد وں کے باوجود فوجی حکمران بھی پاکستان میں ’حقیقی ‘ جمہوریت کو رائج کرنے میں ناکام رہے گو اِن فوجی حکمرانوں نے ملک میں اپنے تئیں لوکل باڈیز ’ نچلی سطح پر جمہوریت کو متعارف کر نے کی کوشش ضرور کی یہ مقامی حکومتیں چونکہ فوجی حکمرانوں نے قائم کی تھیں اِن کے اقتدار سے جانے کے بعد آنے والے جمہوری حکمرانوں نے ’بغضِ معاویہ‘ میں مقامی طرز کی بنیادی جمہوریتوں کے قابل ستائش سسٹم کو فی الفور لپیٹ دیا کتنے افسوس کامقام ہے پاکستان کی ایک بہت بڑی اکثریت کو اب تک یہ علم نہیں ہوسکا کہ ’حقیقی ‘ اور ’کاسمیٹکس ‘ جمہوریت میں کیا فرق ہوتا ہے چاہے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا عہد ہو یا جو نیجو کاعہدِ حکومت‘ بے نظیر بھٹو کے دوعہد گزر گئے اور ایک زرداری کا عہدِ حکومت’ ماضی میں دوبار نواز شریف نے حکومت کی ‘ اب وہ تیسری بار اقتدار میں ہیں حقیقی جمہوریت نے نہ آنا تھا نہ آئی ’کاسمیٹکس جمہوری میلے تماشے خوب جمے ہوئے ہیں ’جمہوریت کے اصل حقیقی ثمرات ‘ سے پاکستانی عوام محروم ‘ اختیارات کے کُل منبع وزیر اعظم اور وزرائے علیٰ ہیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران قومی خزانے کے پہرے دار ‘ آئینی میرٹ کی دھجیاں اڑرہی ہیں، نہ آئین کی کسی کو پرواہ نہ اعلیٰ عدلیہ کے احکامات کو ئی خاطر میں لانے کی ضرورت محسوس کرنا چاہتا ہے ‘ دولت ‘ طاقت وقوت اور کھلی منافقت کے مظاہر کا نام جمہوریت رکھ لیا گیا اور بس!، تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کے لئے نہایت اندوہناک واقعہ بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کا واقعہ قوم کی بڑی بدنصیبی ثابت ہوا ،جس کا خمیازہ آج تک پاکستان اور قوم کی تیسری نسل بھگت رہی ہے قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی سیاسی جماعت مسلم لیگ ’الف‘ سے لے کر’ے‘ تک کئی حروفِ تہجی میں منقسم کہیں ’نون ‘ اور کہیں ’ض ‘ تک کی قسم کی لیگیوں کی تنظیمیں؟ ایسے میں قوم کی حالت ’ریوڑ‘ کی سی ہو چکی ہے معلوم یوں ہوتا ہے جیسے اِس قوم کا کوئی’چرواہا‘ ہی نہ ہو کسی جماعت کے کارکن کی کوئی تنظیمی اصلاح نہیں ہے ‘ کارکن تورہے ایک طرف ‘ یہاں بڑے نامور لیڈروں میں سیاسی فہم وفراست وبصیرت اور علم وآگہی کے شعور کا سایہ تک نہیں ملتا ’آزاد‘ منتخب رکنِ پارلیمنٹ کے بارے میں کسی نے ماضی میں مولانا مودودی سے پوچھا ’ آزاد رکن پارلیمنٹ کیاہوتا ہے؟ مولانا مرحوم نے اِس بارے میں بڑا تہہ دار اور ذومعنی جواب دیا تھا ’ منتخب شدہ آزاد رکن پارلیمنٹ اپنی حیثیت میں گھاس خور جانور کی مانند ہوتا ہے وہ ایسا گھوڑا ہوتا ہے جسے جہاں پر بھی زیادہ ہری گھاس نظر آئے فوراً اُس جانب دوڑ لگا دیتا ہے‘ ہماری کل کی پارلیمنٹس میں ایسے گھوڑوں کی کمی تھی نہ آج ایسے گھوڑوں کی کمی ہماری پارلیمنٹ میں دکھائی دیتی ہے ’ہارس ٹریڈنگ ‘ کی اصطلاح غالباً اِ سی لئے مستعمل ہوئی یہ ’ہارس ٹریڈنگ ‘ صرف پاکستانی پارلیمنٹس میں ہی نہیں ہوتی ‘ ملک کی بیورو کریسی کے کئی شعبوں سمیت بڑے پیمانے پر کھلے ڈلے اب تو ملکی میڈیا میں بھی عوام کو ہر کہیں نظر آتی ہے میڈیا کے عوام ’ملازمین رپورٹرز ‘ تو ایک طرف سمجھیں ‘ یہاں تو پور ے کاپورا میڈیا ہاؤس غیر ملکی دولت مند قیمت لگا کر خریدرہے ہیں جناب! ہم کسی بکاؤ ایم این اے یا ایم پی اے کا نام یہاں لکھ دیں تو وہ کل ’ثبوت پیش کرو‘ کے نام پر ہمیں عدالت کا نوٹس بھجوانے میں دیر نہیں کرئے گاہم نے لکھا ’کسی چور کو گھر کی رکھوالی کی ذمہ داری نہیں سونپی جاسکتی ‘ عدالت نے یہ نہیں دیکھنا کہ ’چور ‘ کی نشاندہی کرنے والے کو للکار ا گیا ہے کہ وہ یہ ثابت کرئے کہ یہ ’چور ‘ ہے اور اگر ہم یہ کہہ دیں ’کسی جلاد اور سفاک قاتل کو مسیحائی کے کسی اعلیٰ منصب پر فائز نہیں کیا جانا چاہیئے پھر تو یہ ہوا نا کہ لینے کے دینے پڑ گئے اگر ہم اپنے گریبانوں میں نہیں جھانکھیں گے تو یاد رکھیئے وہ دن بھی یقیناًآپ کو اور ہمیں ایک نہ ایک روز ضرور دیکھنے پڑ یں گے جب سرعام اِسی لنگڑی لولی ‘ ٹوٹی پھوٹی اور ہر روز پنپنے کے نام پر نشوونما پانے والی جمہوریت کے نام کوئی بھی بد کردار شخص قوم کی رہنمائی کا فریضہ ادا کرنے کے اعلیٰ وارفع مقام پر با آسانی فائز جائے گا یاد رہے اصل وحقیقی جمہوریت میں ’مفاہمت ‘ کے نام پر کبھی کسی دل کے مرض کے معالج کو وکالت کی ذمہ داری سونپی جاسکتی ہے ‘ کسی صحافی کو انجینئر نگ یونیورسٹی کا ڈین بنایا جاسکتا ہے ؟ کسی انجینئر کو صحافتی ذمہ داریاں سونپی جاسکتی ہیں کسی پیشہ ورتاجر کو قرآن وسنت اور عمرانی سیاسیات کے علوم جانے بغیر معلم ‘ سیاست دان یا ملک وقوم کی عنانِ اقتدار کا منبع قرار دیاجاسکتا ہے ؟ جی ہاں جناب! یہ سب کچھ ہورہا ہے، یاد رہے کہ ’ مفاہمت ‘ منافقت کا ہم پلہ لفظ ہے، قیامت خیز اِس کھلی ہوئی عین حقیقت کا نظارہ پاکستان جیسے ملک نے ہی کرنا تھا، عوام کے بنیادی حقوق کی آزادی کے نام پر اِس ملک کے عوام کے بنیادی حقوق جمہوریت کے قیام کے نام پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں غضب کیئے جارہے ہیں جس کے پرچارک کا ایک کردار الہ ماشاء اللہ ملک کے آزاد میڈیا نے بھرپور ادا کیا ہے سب کو برابر یکساں کوریج دی جارہی ہے گئی گز شتہ ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصہ ہوگیا ہے ذاتی طور پر ہم کسی فریق کے جانبدار نہیں مگر یہ سب نظارہ کرنے کے بعد ’سچائی‘ کی تلاش کے لئے کل سے زیادہ آج فکر مند ضرور ہوگے ہیں ’مفاہمت ‘ سب کو ’اُ ن بورڈ ‘ اپنے ساتھ رکھنے کی نئی طرز کی تماشہ نما اِسی منافقانہ مفاداتی جمہوری سیاست سے پاکستانی عوام کی بے زاری اب اور صاف دکھلائی دینے لگی ہے کاش! اہلِ دل ‘ویژنری جراّت مند نیک نیت و پُرخلوص سیاسی قائد کروڑوں پاکستانی مظلو م عوام کے زخمی دلوں کی مضطرب دھڑکنوں کی کرب انگیز آوازوں کوسنے اور محسوس کرئے قوم کو کہیں لسانیت و صوبائیت کے نام پر ‘ کہیں پر مذہبی فرقہ بندی کے نام پر تقسیم پرتقسیم کیا جارہا ہے، حقیقی میڈ یا پر حقیقی ذمہ داریوں کو نبھانے کا یہی وقت ہے مگر یہ میڈیا پیسہ بنانے کی دوڑ میں ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرنے کی دوڑ میں مصروف ‘ پیچھے مڑ کر دیکھے تو کیونکر دیکھے؟ وہ تو ملک و قوم کے حساس قومی اداروں کو مسلسل بحرانوں کی زد پر دیکھنے کا عادی بن چکا ہے، ہمارے میڈیا کو ملک وقوم کے حساس سلامتی کے اداروں کی ’میڈیائی جاسوسی ‘ کرنے سے فرصت ہی کہاں ملتی ہے ؟ اُن کی اِس غیر پیشہ ورانہ اور غیر اخلاقی امور پر اِن کے گھسے پٹے اور دلائل سے عاری تجزئیے اور تبصرے کرنا ہمیں تو اِس حمام کی اکثریت تقریباً سبھی کے سبھی ننگے نظر آتے ہیں ۔