Posted date: October 17, 2014In: Urdu Section|comment : 0
سیّد ناصررضا کاظمی
فی زمانہ آجکل ہر شعبہ ِٗ زندگی میں دوغلے پن اور کھلی ڈھکی منافقت کا بازار بڑ اسرگرم نظر آرہا ہے، منافقت اور دوغلے پن کے اِس بہیمانہ سسٹم میں کوئی ایسا ہے سوائے عام پاکستانیوں کے ‘ جو زندگی کے ظالمانہ سماج کی چکی میں پس پس کر سرمہ بن چکے ہیں، ہر دوسرا ’بڑا ‘ اور ’خاص ‘ آدمی جس کا کسی نہ کسی ناطے سے ملک کی سیاست سے قریبی رشتہ بنتا ہے وہ اِس منافقانہ اور دوغلے نظام میں اپنی کی گئی حرکات کی وجہ سے ہمیں صاف ننگا دکھائی دیتا ہے لاکھ کوئی چیختا چلاتا ررہے اُسے بالکل فرق نہیں پڑتا آتی ہوئی دولت اور بے انداز بڑھتی ہوئی آمدنی کی آمدو رفت نے نہ اُس کے اندر ضمیر نام کی کوئی چیز باقی رکھی نہ اپنے وقار اور اپنی عزتِ نفس کو برقرار رکھنے کی اُسے کوئی ضرورت ہے اِ س قسم کے احساس اُس کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے نہ ہی اُس کا اور اُس کے خاندان کا پیٹ بھر تے ہیں بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا کوئی دن نہیں جاتا ہے جب ملک کی معاشی و اقتصادی بدحالی کا رونا اور دکھڑا قوم کے سامنے ہمارے حکمران نہ روتے ہوں اور وہ جلد از جلد بھارت کے ساتھ تجارتی روابط شروع کرنے کے لئے کسی نہ کسی عوامی فورم پر اِس کی ضرورت کی چیخ وپکار نہ کرتے ہوں اسلام آباد میں تقریباً دوماہ سے زائد عرصہ ہو رہا ہے دوسیاسی جماعتوں نے اپنے غیر معمولی ’کمیٹیڈ‘ اراکان اور حمائتیوں سے اپنی ہر روز کی تقاریر میں اور چند دنوں پیشتر تو پاکستان تحریکِ انصاف کے قائد عمران خان نے ملک کے اہم شہروں میں عظیم الشان تاریخی اجتماعات میں حکومتِ وقت پر ‘ نااہلی اور بیڈ گورنس کے علاوہ کرپشن کے سر عام سنگین نوعیت کے الزامات لگائے ہیں، اِسی طرح سے پاکستان عوامی تحریک نے بھی اپنے قائد علامہ طاہر القادری کی قیادت میں حکومت کو سخت انداز میں للکارنا شروع کردیا ہے حکومت اور اُس کی اتحادی جماعتوں پر کرپشن کے الزامات کی فہرست میں ایک بڑا تشویش ناک یہ الزام آجکل عوامی حلقوں میں اب زبان زدہ عام ہوچکا ہے کہ حکومت نے ’میرٹ ‘ کی دھجیاں اُڑا نے میں حد ہی کردی، قومی اداروں کے سربراہوں میں شائد اب کوئی ایسا سربراہ باقی ہو گا جس کی دور پرے سے حکومتی قیادت کے ساتھ کوئی رشتہ داری یا قرابت داری نہ ہو ’ٹریڈ ڈیولیمنٹ اتھارٹی آف پاکستان‘ معاشی شعبہ کا ایک اہم قومی ادارہ ‘ جس کی سربراہی ایس ایم منیر کے حصہ میں آئی یہ ایس ایم منیر کون شخصیت ہیں ؟ اِن کا حکومتی قیادت کے ساتھ کتنا قریبی دوستانہ ہے کوئی رشتہ داری بنتی ہے یا نہیں ؟ آئے روز ٹی وی ٹاک شوز میں اِس بارے میں عوام تقریباً بہت کچھ جان چکے ہوں گے یہاں ہمیں اِن جناب کی حکومتی اعلیٰ قیادت سے کوئی قریبی تعلق کا یا رشتہ داری کاثبوت دینا نہیں بلکہ ثابت یہ کرنا ہے کہ اِن جناب نے بھی ملکی اعلیٰ جمہوری قیادت کے’ صوابیدی‘ اختیارات کی ترجمانی کرنے میں اپنا حصہ بقدرِ جسّہ سے کہیں بڑھ کر ڈالا ہے جس سے قوم یہ سمجھتی ہےTDAP کے چیئر مین ایس ایم منیر نے حالیہ نئی دہلی میں منعقد ہونے والی ’عالی شان پاکستان ‘ کے نام سے نمائش کے موقع پر جن اہم
پاکستانی تجارتی گروپ کے سر کردہ پاکستانی شرکاء کے لئے بھارت سے ویزے حاصل کیئے تھے اُن ’تجارتی ویزوں ‘ کے عالمی اُصولوں اور پاسداری کو یقینی بنانے میں یہ صاحب اپنا ’سربراہی کردار ‘ ادا کرنے میں بُری طرح سے ناکام ہوئے ہیں ’عالی شان پاکستان ‘ کے نام سے نئی دہلی میں نمائش میں شرکت کے لئے جانے والے معزز پاکستانی تجارتی وفد کے شرکاء کو وہاں سخت ندامت اور ذہنی کوفت اُٹھانی پڑی جس کا موصوف کا احساس تک نہیں ہوا وہ کیوں بھول گئے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین
سال2012 کے تجارتی ویزا پروٹوکول کی نئی دہلی پولیس نے خلاف ورزی کی ہے پاکستانی تجارتی شخصیات کو نئی دہلی میں قیام کے دوران ’ پولیس تھانوں ‘ کی رپورٹنگ کے نام پر ہراساں کیا گیا کیا اُن کی ذمہ داری نہیں تھی کہ جب نئی دہلی پولیس نے پاکستانی تجارتی گروپ کے شرکاء کو پولیس رپورٹنگ کے لئے تھانے نہ جانے پر 40 ڈالر فی ویزا جرمانہ عائد کیا ماشاء اللہ اِس کے باوجود ایس ایم منیر ’چپ کے گوتم ‘ بنے رہے ؟ اوّلین فرصت میں پاکستانی عزت ووقار کے اِس انسانی معاملہ کی خلاف ورزی پر اِنہیں بھارت میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا چاہیئے تھا اور جب واپس وطن لوٹے تو اُنہیں ائیر پورٹ پر اپنی حکومت پر پریشر بڑھانا تھا کہ سفارتی آداب کی نئی دہلی میں کتنی بڑی خلاف ورزی کی گئی ہے بھارت کے اخلاقی باختہ اِس سفارتی رویے پر ایس ایم منیر میڈیا میں اپنا موقف بیان کرتے تاکہ نئی دہلی کو پاکستان سے معافی مانگنے کے بارے میں دباؤ پڑتا TDAP کے چیئر مین ایس ایم منیر نے کیسی قومی مجرمانہ خاموشی کو اپنے لئے بہتر سمجھا ؟ لائن آف کنٹرول پر آئے روز کی بھارتی فوجوں کی جانب سے کی جانے والی بلا اشتعال فائرنگ پر ملک کی اعلیٰ قیادت سمیت پوری پارلیمان کی جماعتوں نے جب سناٹے کی سی خاموشی اختیار کررکھی ہے، ہاں ٹھیک ہی تو ہے تو بچارے ایس ایم منیر کی یہ خاموشی بھی اپنی جگہ صحیح ؟ دبی ہوئی اور سہمی سہمی سی قوم کا یہ لیبل ہمارے چہروں پر ایسوں نے چسپاں کردیا ہے، نجانے کیوں غیر محسوساتی طور پر 17-18ماہ سے اب تک سیاسی اعتبار سے، سیاسی فکر ی و نظری مثالوں سے اور از خود اپنائی گئی کمزور سیاسی حکمتِ عملیوں کے اطوار سے یوں لگتا ہے جیسے پاکستان نے نریندرمودی کو ہر حال میں خوش رکھنے کی قسم اٹھائی ہوئی ہے، بھارت کے ساتھ ہمارے سبھی غیر حل طلب مسائل اولاً جیسے مسئلہ ِٗ کشمیر ‘پانی ‘ سرکریک اور سیاچن کو غیر فوجی علاقہ قرار دینے کی تجاویز اور پھر اُوپر سے ملک میں ’تجارتی پیشہ اشرافیہ ‘ کے مخصوص گروہ کی حکومت نے جب سے ایوانوں میں قدم رکھا ہوا ہے نہ ملکی سیاسی قیادت میں عزتِ نفس ‘ قومی وقار اور قومی خود مختاری نام کی کہیں کوئی تھر تھراہٹ نظرآتی ہے نہ محسوس ہورہی ہے ہاں ایک بس’ ملک میں جمہوریت کا دفاع ہر قیمت پر کیا جائے گا ‘ اِس فریب زدہ دھول سے تشکیل پانے والی گھبراہٹ جیسی آوازوں کے علاوہ اور کوئی طاقتور آواز کہیں سے قوم کو سنائی نہیں د ے رہی ہے اسلام آباد کے اقتدار کے مکینوں کے کان شائد نئی دہلی سے آنے والی نام نہاد ’دوستی ‘ کی اُن آوازوں پر لگے معلوم ہوتے ہیں ہوسکتا ہے جو امریکا یا مغربی ممالک کے بھارت پر پڑنے والے کسی ممکنہ دباؤ آ جا ہیں’نریندری مودی نواز شریف ‘ ملاقات ہوجائے یہ ملاقات ضرور ہو پاکستانیوں کو اِس سے انکار نہیں، مگر اصرار یہ ہے کہ پاک بھارت بات چیت برابر کی سطح پر ہو یہ ٹھیک ہے کہ معاشی لحاظ سے ہم کمزور اور تنگ ہیں لیکن بحیثیتِ پاکستانی قوم معیشت کی کئی نوع کی دگرگوں کمزریوں میں الجھ جانے کے باوجو د یہ قوم کسی بھی قسم کی سیاسی و سماجی مایوسی اور ذہنی وفکری ژولیدہ فکر غنودگی طاری کرنے والے کرب سے دوچار نہیں ہے ،ہم کسی کے مانگے تانگے کی عنایات اور مروّت کو بھی قبول کرنے کو اپنے آئندہ مستقبل کے لئے بھیانک قدم سمجھتے ہیں دنیا خود دیکھ رہی ہے کہ پاکستانی قوم ایک نئی کروٹ سے ابھر نے لگی ہے پاکستانی طبقات میں امنگ‘ تر نگ اور سیاسی بیداری کی نئی لہریں اچھلنے پر بالکل تیار ہیں نریندر مودی لاکھ پاکستان کی طرف اپنا ’عدم تعاؤن ‘ اور ’سخت گیر رویہ ‘ رکھیں، ہمیں مگر بخوبی علم ہے چاہے امریکا ہو یا مغرب ‘ اسرائیل ہو یا بھارت اِن سب کو سمجھنا ہوگا خوف وہراس میں پاکستانی قوم کی نمو پذیری نہیں ہوئی‘ اِس لئے پاکستانی کبھی سوچ نہیں سکتے کہ اُنہیں کوئی ’بزدلانہ ‘ زندگی بسر کرنے پر مجبور کر سکے گا ۔