خود کش حملوں کے بارے میں طالبان آپسی اختلاف کا شکار
خود کش حملوں کے بارے میں طالبان آپسی اختلاف کا شکار
ایس اکبر
انسان کا اپنا جسم اور زندگی اس کی ملکیت نہیں بلکہ اللہ سبحا نہ و تعالیٰ کی عطا کردہ ہے اور اسی کی امانت ہے۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی ایسی عظیم نعمت ہے جو بقیہ تمام نعمتوں کے لئےاساس کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی لئے اسلام نے جسم و جاں کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے تمام افراد معاشرہ کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں خود کشی کے مرتکب نہ ہوں ۔ جب اسلام کسی انسان کو خود اپنی جان تلف کرنے کی اجازت نہیں دیتابلکہ اپنے جسم و جان اور تمام اعضاءکی حفاظت اور ان کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے تو کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ خودکش حملوں اور بم دھماکوں کے ذریعے اپنی جان کے ساتھ ساتھ دوسرے پر امن اور معصوم شہریوں کی قیمتی جانیں بھی تلف کرنے کی اجازت دے۔حضوراکرم ﷺ نے خود کشی جیسے بھیانک اور حرام فعل کے مرتکب ہونے والےکودرد ناک عذاب کا مستحق قرار دیا ہے۔
پاکستان میں خودکش حملے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دہشت گرد طالبان نے جب اس پاک سرزمین کے خلاف محاذ کھولا تو قبائلی علاقوں کے معصوم اور کم سن بچوں کو اس جنگ میں اپنے ہتھیار بنانے کا فیصلہ کیا۔ ان سماج دشمن عناصر نے اسلام کی غلط تشریح کر کے ان سادہ لوح نوجوانوں کو اس حد تک ورغلا دیا کہ وہ اپنی جان بھی دینے پر راضی ہو گئے اور خود کش حملوں اور بم دھماکوں کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ 2002 میں شروع ہونے والے اِس قبیح فعل نے پاکستان میں بسنے والے لوگوںکو سخت خوف و حراس میں مبتلا کر رکھا تھا۔ایک اندازے کے مطابق2002 سے اگست 2014 تک تقریباً400 سے زائد خودکش حملے ہو چکے ہیں جس میں 6038 معصوم لوگ جاں بحق ہوئے جبکہ 12565 لو گ زخمی ہو گئے۔زخمی ہو نے والے کئی معصوم لوگ اپنی ساری زندگی مفلوج ہو کر گزارنے پر مجبور ہیں۔
خودکشی اسلام میں حرام ہےاور خودکش بمبار کا ٹھکانہ جہنم ہے جو اپنے ساتھ ساتھ معصوم جانوں کو تلف کرنے جیسے کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہےپچھلے کچھ عرصے سے خود کش حملوں میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ تحریکِ طالبان کے سرغنہ اور کارندے اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ معصوم اور کم سن بچے اب ان کے جھانسے میں نہیں آئیں گے جس میں وہ ظالم ان بچوں کو خود کش حملے کے بعد بے شمار انعام اور جنت کے خواب دکھا تے تھے۔حال ہی میں اسلامیہ کالج کے وائس پروفیسر اجمل خان نے یہ بات میڈیا کو بتائی ہے کے طالبان کے مختلف گروہوں میں خود کش بم دھماکوں کے بارے میں دورائےپائی جاتی ہیں۔دہشت گردوں کو پچھلے کئی عر صے سے بہت سی مشکلات کا سامنا ہے ۔اِن ظالموں کے آپسی اختلافات بھی گاہے بگاہے منظرِ عام پر آتے رہتے ہیں ۔باوثوق ذرائع کے مطابق کالعدم تنظیم تحریکِ طالبان مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی ہے۔اس میں کئی دھڑے بن چکے ہیں اور ان کے آپسی نظریاتی اختلافات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔خودکش حملوں اغواء برائے تاوان اور مقدس مقامات پر حملوں جیسے افعال اب آپسی رنجش کا باعث بن گئے ہیں جو اس بات کا واضح ثبوت ہےکہ اسلام کا سچا پیروکار ہونے کے دعویدار دہشت گردوں کا اسلام اور انسانیت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ ظالم دہشت گرد ہر وقت جہاد کا پر چار کرتے نظر آتے بلکہ جہاد کے نام پر ہی خود کش بمبار تیار کرتے تھے۔ان دہشت گردوں نےمعصوم قبائلی لوگوں کی غربت اور ان کے مذہبی لگاوسے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق متاثرین دہشت گردی جو ان ظالموں کی وجہ سے اپنے گھر بار چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہونے پر مجبور ہوئےاب ان دہشت گردوں کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے مطابق دہشت گردوں کے تمام افعال اور کاروائیاں اسلامی تعلیمات کےبالکل برعکس ہیں۔خود کش حملوں میں واضح کمی کی ایک وجہ جہاں طالبان کی خودکش بم دھماکوں کے بارے میں اختلاف رائے ہے وہیں ایک بہت بڑی وجہ عوام الناس میں پیدا ہونے والی آگاہی ہے جس نے لوگوں کو یہ شعور دیا ہے کہ خودکش حملے حرام ہیں اور خودکشی کرنے والا شخص صرف اور صرف جہنم کا حقدار ہے۔ اس آگاہی کو اجاگرکرنے میں تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے علماء دین اور مفکروں کی کاوشوں کو بھی کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ آج کالعدم تنظیم طالبان کو کارندوں کی کمی کا سامنا ہے صرف اس وجہ سے کہ لوگوں پر ان کے مکروہ چہرے عیاں ہو گئے ہیں اور لوگ یہ جان گئے ہیں کہ یہ ظالم صرف اور صرف اسلام کو اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں یہ ملک دشمن اور اسلام دشمن عناصر ہیں جن کا خاتمہ بہت ضروری ہے تاکہ مسلمانوں اور پاکستانیوں کو دہشت گرد قراردینے کا ان کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے۔