پینٹاگون کی ششماہی رپورٹ میں پاکستان پر لگائے گئے بے بنیاد اور غیر حقیق الزامات
پاکستان پر مسلط کی گئی دھشت گردی کے خلاف جنگ میں ابتک سب سے زیادہ معاشی و معاشرتی نقصان اٹھایا ہے ۔ اکنامک سروے کے مطابق پچھلے 13سالوں میں پاکستان کو 8,264کھرب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ۔
ہمارے ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں خواہ وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ملکی مفادات کے تحفظ کیلئے ایک پلیٹ فارم پر کیوں نہیں اکھٹے ہو سکتے۔
آخر کب تک ہم اپنے قومی مفادات کو اپنی ذاتی ترجیحات پر قربان کرتے رہیں گے اور اس ملک کی مٹی کا حق ادا کرنے سے گریزاں رہیں گے۔
امریکی محکمہ دفاع نے اپنی رپورٹ میں الزام لگایا ہے کہ پاکستان بھارت اور افغانستان کیخلاف شدت پسند تنظیموں کو استعمال کر رہا ہے، یہ بات پورے خطے کے استحکام کیلئے خطرناک ہے۔ پینٹاگون کی طرف سے امریکی کانگرس کے لیے ہر چھ ماہ بعد جاری کی جانے والی اس رپورٹ کے مطابق پاکستان ان پراکسی فورسز یا بالواسطہ لڑنے والی طاقتوں کا استعمال افغانستان میں اپنے گھٹتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے اور بھارت کی اعلیٰ ترین فوجی طاقت کے خلاف حکمت عملی کے طور پر کر رہا ہے
امریکی وزارت دفاع کی طرف سے تازہ الزام تراشی پر پاکستان نے امریکہ کے ساتھ اعلیٰ سیاسی سطح پر احتجاج کیا ہے۔ دفتر خارجہ نے بیان جاری کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے پاکستان میں متعین امریکہ کے سفیر رچرڈ اولسن کو دفتر خارجہ بلاکر ان سے اس رپورٹ پر احتجاج کیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس موقع پر امریکی الزام تراشی خاص طور پر باعث تشویش ہے جب پاکستان نے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف بھرپور فوجی آپریشن شروع کر رکھا ہے۔ آپریشن ضرب عضب کا امریکہ سمیت عالمی سطح پر خیرمقدم کیا گیا۔ یہ آپریشن بلاامتیاز تمام دہشت گردوں کے خلاف ہے اور اس کے نتیجہ میں دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم ہوئے ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ اس معاملہ کو درست پس پس منظر میں دیکھا جائے گا۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ رپورٹ میں حقائق مسخ کئے گئے ہیں۔ دفتر خارجہ کی ترجمان نے بیان میں کہا ہے کہ پاکستان نے امریکی محکمہ دفاع کی طرف سے کانگرس کو بھیجی گئی رپورٹ جس کا عنوان افغانستان میں سکیورٹی و استحکام میں پیشرفت تھا، کا سخت نوٹس لیا ہے۔ امریکہ کے ساتھ پاکستان کا تعاون باہمی مفادات کے تحت ہے۔ حالیہ رپورٹ میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کی موجودگی اور پاکستان سے افغانستان اور بھارت کے خلاف پراکسی فورسز کے الزامات لگائے گئے جن میں کوئی صداقت نہیں۔ ترجمان نے کہا کہ ایسے الزامات بالخصوص اس وقت باعث تشویش ہیں جب حکومت نے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف جامع آپریشنز شروع کر رکھے ہیں۔ فوجی آپریشن ضرب عضب کی عالمی سطح پر بڑی تعریف کی جا رہی ہے، آپریشن سے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا کامیابی سے خاتمہ کیا گیا جو بلا امتیاز تمام دہشت گردوں کے خلاف جاری ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ ایشوز کو اس کے حقیقی تناظر میں دیکھا جائے گا۔ سرتاج عزیز نے رپورٹ میں الزامات پر پاکستان کی تشویش اور تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ رپورٹ میں حقائق کو مسخ کیا گیا ہے۔ امریکہ سمیت پوری دنیا نے آپریشن ضرب عضب کا خیرمقدم کیا ہے۔ آپریشن کے ذریعے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو بلاامتیاز ختم کیا گیا ہے۔ بھارت میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے امریکی وزارت دفاع کی پاکستان مخالف رپورٹ پر ردعمل ظاہر کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ رپورٹس پر تبصرہ کرنے نہیں سارک اقتصادی کانفرنس میں شرکت کیلئے آئے ہیں، ہمیں اس پر توجہ دینے دی جائے۔ پاکستان نے صحیح طریقہ سے پینٹاگون کی رپورٹ کو بے بنیاد اور لغو قرار دیا۔
امریکہ کو اس کا فائدہ ہوا ہے یا نقصان لیکن یہ بات تو صاف ظاہر ہو چکی ہے کہ پاکستان کو امریکہ کی ان پالیسیوں کی وجہ بے حد نقصان پہنچا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ امریکہ نے اس کے ساتھ دینے پر بجائے پاکستان کو سراہنے کے پاکستان کے دشمنوں کا ساتھ دیا ہے اور پاکستان کے خلاف ان کے موء قف کی حمایت کی ہے جو نہایت قابل مذمت فعل ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے حکمرانوں کو امریکہ کے ساتھ تعلقات کا ازسر نو جائزہ لینا ہو گا اور اپنی حکمت عملی میں مناسب تبدیلیاں کرنا ہونگی تاکہ ہم اپنے قومی مفادات کا تحفظ کر سکیں۔ اگرچہ بعض دانشوروں کا مو ء قف ہے کہ جب تک پاکستان کی معشیت مضبوط نہیں ہوتی اور ملک میں سیاسی استحکام نہیں آتا بیرونی طاقتیں پاکستان پر مختلف طریقوں سے دباؤ ڈالتی رہیں گی۔ غربت ، افلاس تو بھارت، بنگلہ دیش اور دوسرے کئی ممالک میں پاکستان سے بھی زیادہ ہے لیکن ان ممالک کے حکمران اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے اپنے اصولی مو ء قف پر تمام طاقتوں کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں اور اپنے ملک کی عزت وقار پر آنچ نہیں آنے دیتے تو پھر ہمارے ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں خواہ وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ملکی مفادات کے تحفظ کیلئے ایک پلیٹ فارم پر کیوں نہیں اکھٹے ہو سکتے۔
آخر کب تک ہم اپنے قومی مفادات کو اپنی ذاتی ترجیحات پر قربان کرتے رہیں گے اور اس ملک کی مٹی کا حق ادا کرنے سے گریزاں رہیں گے۔ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا